غلام حسن ڈار
شادی کے بعد میاں بیوی کی بڑی تمنا ہوتی ہے کہ ان کی پہلی اولاد نرینہ (بیٹا) ہو۔ غالباً اس لئے کہ بڑا ہو کر وہ والدین کا سہارا بنے گا۔ دیکھا جائے تو واقعی ہوتا بھی ایسا ہی ہے۔ ہوش و شعور سنبھالتے ہی بڑا ہونے کے ناطے وہ باپ کی آمدنی بڑھانے، چھوٹے بہن بھائیوں کا خیال رکھنے اور دیگر معاملات و مسائل کو سُلجھانے میں جُٹ جاتا ہے۔ اس دوران میں اس کی اپنی ضروریات اور اپنے خواب ریزہ ریزہ ہوجاتے ہیں۔ وہ اپنے خوابوں کو ریزہ ریزہ ہوتا ہوا دیکھ رہا ہوتا ہے لیکن احساسِ ذمہ داری اور ان ذمہ داریوں کا بوجھ اس کا حوصلہ پست نہیں کرتے ، وہ مسلسل دن رات محنت و مشقت کرتا اور اپنے متعلقین کے بارے میں فکر مند یوں کے طوفان سے گزرتا رہتا ہے یہاں تک کہ بہن بھائیوں کی پرورش و پر داخت اور ان کے مستقبل کو روشن بناتے بناتے وہ اپنے آپ کو بھی بھول جاتا ہے۔ نتیجتاً میں اس کی صحت اور صلاحیتوں پر نہایت منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ شاید ماں باپ کی طرح وہ بھی یہی اُمید لگا بیٹھتا ہے کہ آگے چل کر یہ (چھوٹے) اُس کے بال و پر بن جائیںگے لیکن بدقسمتی سے معاملہ اس کے برعکس پیش آتا ہے۔
ہم جانتے ہیں مشرقی روایات کے مطابق بڑا بیٹا؍بھائی عمارت؍شیڈ کے اُس ٹین کی طرح ہوتا ہے جس کے اوپر ہوش و شعور سنبھالتے ہی زمانے کی آندھیاں، گن گرج، تیزوتند ہوائیں، موسلادھار بارشیں،اولے، نس نس میں اُترنے والی چلچلاتی دھوپ غرض سخت ترین موسمی حالات (زندگی اور زمانے کے مسائل اور مصائب) کا سامنا اسی شیڈ کے بدقسمت ٹین (بڑے بیٹے؍ بھائی) کو ہی کرنا پڑتا ہے۔ اور اس سب کا مقابلہ اسے تب تک کرنا پڑتا ہے جب تک اس کی جوانی کی دوپہر کا سورج ڈھل کر سہ پہر کو بھی عبور کرجاتا ہے۔ اور اس وقت اس کی صحت، صلاحیتیں اور جوش و عزائم کمزور پڑچکے ہوتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ زندگی کے اس پڑائو (مرحلے) پر اسے مدد، حوصلہ، محبت اور عزت و احترام ملے لیکن اس کے علی الرّغم اس پر الزامات کی بارش، بے عزتی و ناقدری کی انتہا اور ترکِ موالات کے اذیت ناک لمحات سے گزارا جاتا ہے۔اور پھر یہی حالات اور مشاہدات اس کی کمر توڑ دیتے ہیں حالانکہ وہ اس طرح کے روییّ اور طرزِ عمل کا ہر گز مستحق نہیں ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کی قربانیوں کا بدلہ؍معاوضہ یہ نہیں ہے۔ یہ امر باعثِ تشویش بھی ہے اور لمحۂ فکریہ بھی!
یہ امر مسلم ہے کہ جب تک چھوٹے دست نگر ہوتے ہیں تب تک وہ بڑے کو اپنا مرّبی، سرپرست اور رہنما مان کر چلتے ہیں لیکن جونہی یہ (چھوٹے) بڑے ہوجاتے ہیں وہ فوراً بڑے کو اپنا دشمن، تخریب کار اور بے پرواہ سمجھنا شروع کردیتے ہیں، خود کو افلاطون اور اس کو بیوقوف ثابت کرتے ہیں۔ غالباً اس کے پیچھے وجہ کچھ اور ہوتی ہے۔ بقول شاعر:؎
ذرا سا قدرت نے کیا نوازا
کہ آکے بیٹھے ہو پہلی صف میں
ابھی سے اُڑنے لگے ہوا میں
ابھی تو شہرت نئی نئی ہے وقت چنانچہ ایک جیسا نہیں رہتا ہے۔ کبھی بڑا بھی جوش و جذبے اور پوری طاقت و اہلیت کے ساتھ چھوٹوں کا بھلا کرنے کے لیے خون پسینہ ایک کرچکا ہوتا ہے لیکن صحت اور معیشت (آمدنی) کے تعلق سے ذرا سی کمزوری کیا واقع ہوئی کہ بڑے کو اب زیاںکار، بے فائدہ اور اپنا حریف سمجھنے لگتے ہے۔ اس کے ساتھ تعاون کرنے کے بجائے اسے دھتکارا جاتا ہے۔ طعنے دئیے جاتے ہیں، اسے چور بے کار قرار دیا جاتا ہے۔ یہ گھڑیاں کس قدر اذیت ناک ہوتی ہیں۔ اُف، افسوس! حالانکہ چھوٹے جب بڑے ہوجائیں تو بڑے یہی توقع کرتے ہیں کہ اب ان کی مدد ہوجائے گی۔ ان کی عزت و قدربڑھ جائے گی۔ ان کو ان کی قربانیوں، محنت و مشقت اور جدوجہد کا بھلا معاوضہ؍بدلہ دیا جائے گا۔ لیکن ہمارے یہاں کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ یہاں احسان اور نیکی کا بدلہ بدی اور برائی سے دیا جاتا ہے۔ جھوٹے پروپیگنڈے، الزام تراشی اور بے عزتی و ناقدری کے ذلت آمیز احساسات سوغات کے طور پر دئیے جاتے ہے۔
ممکن ہے کہ خودغرضی، مفادپرستی یا مستقبل کے اندیشے کے پیش نظر بھائی بھائی کا دشمن ہوجائے۔ وہ ایک دوسرے کے خلاف علم بغاوت بلند کرسکتے ہیں۔ لیکن ان حالات میں ماں باپ کا کردار کلی اور کلیدی ہے کہ وہ بڑے کی قربانیوں کا احساس کراکے منطقی بنیادوں پر ایک عادل مُنصف کے طور پر ان کے درمیان صلح و سمجھوتہ کرائے۔ وہ ماضی اور مستقبل کے مدنظر ان کے حال کی تشکیل کرے۔ اسی طرزِ عمل میں حکمت اور دانائی کا راز مُضمر ہے۔ اسی سے گھروں میں امن و سکون اور تعمیر و ترقی کے لیے خوشگوار فضا تیار ہوجاتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں اس کے برعکس حالات رونما ہورہے ہیں۔ کہی کہی پر گھر میں والدین محض کسی ایک دھڑے کی بلاجواز حمایت میں ظلم و زیادتی پر بھی اُتر آتے ہے۔ حالانکہ حقائق عیاں ہوتے ہیں کہ ایک مخصوص دھڑا حق پر ہے اور دوسرا ناحق پر۔ لیکن پھر بھی نہ جانے وہ (حضرات) حقائق کو جھٹلا کر بے جاطرفداری کرتے ہوئے دوسرے دھڑے کو نفرت، دشمنی اور بے انصافی کا شکار کیوں بناتے ہے؟
لہٰذا اس سب صورتحال کے پس منظر میں والدین حضرات اس معاملہ میں خود کو غیر جانبدار رکھ کر حق و انصاف کے مدنظر اپنی اولاد کے حق میں فیصلے کریں۔ ورنہ بے جا مداخلت، بے جا مخالفت، بے جا جانبداری اور ظلم و زیادتی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال سے اپنی اور اپنی اولاد کی دنیا اور آخرت کے برباد ہونے کے امکانات سے ہرگز بچا نہیں جاسکتا ہے۔ باالفاظ دیگر دوہرا معیار اپنا کر اپنے اور اپنی اولاد کے لیے مسائل اور مصائب پیدا کرنا نیک، صالح اور دوراندیش والدین کا شیوہ نہیں ہے۔ ؎
نہ دے اونچائی میرے قد کو بے شک
میری ہر شاخ کو لیکن ثمر دے
(رابطہ۔ 9596010884 )
[email protected]