انسان ایک ایسی مخلوق کا نام ہےکہ جس کے اندر آگے بڑھنے کی صلاحیت سرشت میں موجود ہے۔یہ ازل سے ابد تک قائم و دائم رہنے والی چیز ہے۔اصل میں انسان کے لیے یہ دنیا مشقتوں کا گھر ہے اور اس مشقت سے کسی بھی متنفس کو مفر نہیں۔انسانی زندگی کی اس تلخ حقیقت کو قرآنِ پاک نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:’’ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا ہے۔‘‘(البلد:4)
انسان کی زندگی کی سفینہ کو ہر دم طوفانوں سے واسطہ پڑتا ہے۔خطرات و مصائب اور انسان کے درمیان چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے۔ان تمام خطرات،مصیبتوں،مشقتوں،تکلیفوں،پریشانیوں اور صعوبتوں کے خلاف انسان کو ڈٹ کر مقابلہ کرنا پڑتا ہے بلکہ تاریخ شاہد ہے کہ یہ مقابلہ اس کی کامیابی کے لیے ناگزیر ہوتا ہے۔اب کچھ لوگ ان چیزوں کو راستے کی سنتیں نہ سمجھ کر عین وقت اپنی قسمت پر روتے ہیں اور کچھ لوگ یقین محکم،عمل پیہم اور محبت فاتح عالم کا جوہر اپنے وجود میں پیدا نہ کرنے کی وجہ سے مسلسل سفر کرنے کی توفیق سے محروم ہو جاتے ہیں۔یہ دوسرا طبقہ اگرچہ کچھ دیر سفر جاری رکھتا بھی ہے لیکن اپنے اندر قوتِ برداشت کی صلاحیت پیدا نہ کرنے کی وجہ سے بالآخر تذبذب کا شکار ہو جاتا ہے اور عین وقت راستہ بدل دینے کی پلاننگ میں بہانے تراشتا ہوا نظر آتا ہے یا واپس لوٹنے کا ارادہ باندھ کر اپنی حقیقی منزل ہی کھو بیٹھتا ہے۔تیسرا طبقہ اگرچہ کمیاب ہی ہوتا ہے لیکن خطرات و مصائب کو راستے کی سٹیشنز(Stations) سمجھ کر وہاں تھوڑا سا وقفہ دے کر پھر اپنا سفر جاری وساری رکھتا ہے ۔ اس طبقہ کے لوگ جب اپنے مستقل مزاجی سے منزلِ مقصود پر پہنچیں گے تو بے اختیار ان کی زبان پر کلمہ شکر اور اظہارِ تشکر کے یہ الفاظ جاری ہو جائیں گے:’’ شکر ہے اس اللہ کا جس نے ہم سے غم کو دور کردیا، یقیناً ہمارا رب بخشنے والا اور قدر فرمانے والا ہے۔‘‘(فاطر:34)
مذکورہ تین طبقوں میں تیسرا طبقہ اپنی ہمت،عزم و استقلال اور محنتِ شاقہ کے ذریعے ہی کامیابی سے ہمکنار ہو جاتا ہے۔اس طبقہ نے یہ بات ذہن میں پیوست کر رکھی تھی کہ منزلِ مقصود پر پہنچنے کے لیے پہلے راستے کی دشواریوں سے لڑنا پڑتا ہے اور اسی تصور نے انہیں آزمائشیوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دینے پر مجبور نہ کر دیا بلکہ انہوں نے جوانمردوں کی طرح ڈٹ کر مقابلہ کیا۔اس طبقہ نے گمراہ قافلے کو فالو کیے بغیر اپنے چھوٹے سے قافلے کے ساتھ اجتماعی طور پر چلنے میں ہی نجات سمجھی۔راستے میں چلتے چلتے یہ ایک دوسرے کے سہارے کا سبب بنتے گئے اور ایک دوسرے کے دکھ درد کو سمجھ کر پورے قافلے کو ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنانے میں کامیاب ہوگئے۔یہاں چھوٹے بڑوں کی اقتدا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور ان جیسا بننے کے لیے رب سے فرداً فرداً ان الفاظ میں درخواست گزار ہوتے ہوئے دِکھتے ہیں:
’’ اے میرے رب ! مجھے قابو میں رکھ کہ میں تیرے اس فضل کا شکرگزار رہوں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کیا ہے اور میں ایسے نیک کام کروں جو تجھے پسند ہوں اور اپنی رحمت سے مجھے اپنے صالح بندوں میں داخل فرما۔‘‘(النمل:19)
بڑوں کی رشک بھری زندگیوں کو دیکھ کر یہ بھی کچھ تمنائیں دل میں پال رہےہوتے تھے اور اپنی زندگی میں ہی کچھ کرکے دکھانا ان کا سب سے بڑا خواب ہوتا تھا۔یہ لوگ رب کے فرمودات کو عادت کے بجایے عشق سے سرِ انجام دیتے تھے۔عملِ صالحات کو ادا کرنے میں یہ سستی اور کاہلی کے بجائے بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے اور بھلائی کے ہر کام میں پیش پیش رہتے تھے۔نیک کاموں میں ایک دوسرے سے مقابلہ کرنا،ریس لگانا اور آگے بڑھنے کی کوشش کرنا ان کا شیوہ ہوا کرتا تھا۔قرآنِ پاک نے ان جوانمردوں کا نقشہ ذیل کی آیت میں اس طرح کھینچا ہے:
’’پھر ہم نے اس کتاب کا وارث بنایا ان لوگوں کو، جنھیں ہم نے اپنے بندوں میں سے چن لیا،پس ان میں سے کوئی تو اپنے نفس پر ظلم کرنے والا ہے اور کوئی ان میں سے بیچ کی راس ہے اور کوئی ان میں سے اللہ تعالیٰ کی توفیق سے نیکیوں میں سبقت کرنے والا ہے، یہی بہت بڑا فضل ہے۔‘‘(فاطر:32)
یہ لوگ اس بات سے بخوبی طور پر واقف ہوتے تھے کہ نیکیوں کے معاملے میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا جذبہ ایک محمود اور قابلِ تعریف جذبہ ہے۔یہ لوگ مال کے حصول میں،شہرت کے حصول میں،دنیا کے حصول میں،جاہ طلبی کے معاملے میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنا اپنے پیروں پر خود اپنے ہاتھوں ہی کلہاڑی چلانے کے مترادف سمجھتے تھے۔یہ لوگ اپنی ہر کسی نعمت کو رب کی دین سمجھ کر اس کی پکار پر فوراً لبیک کہتے ہوئے نظر آتے تھے۔دین کے کام میں ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑنے کے لیے یہ لوگ موقعہ کے تلاش میں سرگرداں رہتے تھے۔تاریخ اگرچہ مثالوں سے بھری پڑی ہے لیکن یہاں پہ میں خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروقؓ کا ایک ایسا شاندار واقعہ لانا چاہتا ہوں،جو کہ موضوع سے مناسبت رکھنے کے ساتھ ساتھ دل کو چھونے والا واقعہ ہے:
’’عمر بن خطاب ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں صدقہ کرنے کا حکم دیا اور اتفاق سے ان دنوں میرے پاس مال بھی تھا،میں نے(دل میں)کہا:اگر میں ابوبکر ؓ سے کسی دن آگے بڑھ سکوں گا تو آج کے دن آگے بڑھ جاؤں گا، پھر میں اپنا آدھا مال آپ کے پاس لے آیا، تو رسول اللہﷺ نے پوچھا:اپنےگھر والوں کے لیے کیا چھوڑا ہے؟میں نے عرض کیا: اتنا ہی(ان کے لئے بھی چھوڑا ہوں)اور ابوبکر ؓ وہ سب مال لے آئے جو ان کے پاس تھا، تو آپ نے پوچھا:ابوبکر! اپنے گھر والوں کے لیے کیا چھوڑا ہے؟تو انہوں نے عرض کیا:ان کےلئے تو اللہ اور اس کے رسول کو چھوڑ کر آیا ہوں، میں نے(اپنے جی میں)کہا: اللہ کی قسم! میں ان سے کبھی بھی آگے نہیں بڑھ سکوںگا۔(ترمذی:3675)
صحابہ کرامؓ نے واقعی طور پر مذکورہ تیسرے طبقے میں اپنی شمولیت کر رکھی تھی۔وہ ’’فاستبقواالخیرات‘‘ کی چلتی پھرتی تصویر تھے۔اجتماعیت میں رہ کر وہ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی فکر میں سرگرداں تھے۔ان کی زندگیوں کو پڑھ کر کہیں یہ بات نظر نہیں آتی کہ یہ سوچیں کہ فلاں نے اتنے پیسے جمع کر لئے،میں بھی کر لوں۔فلاں کا مکان بڑا شاندار ہے،میرا بھی ویسا ہو جاتا۔فلاں کی سواری بہت اچھی ہے،ویسی مجھے بھی مل جاتی۔ان کے درمیان صرف اعمالِ صالحہ میں مسابقت نظر آتی تھی۔لیکن بدقسمتی سے ہمارا معاملہ الٹا چل رہا ہے،اعمال صالحہ میں آگے بڑھنے کی فکر کے بجائے ہمیں فکر ِ معاش نے بوڑھا کردیا ہے۔اسی فکر نے ہمیں اندر سے بھی کھوکھلا کر رکھا ہے،جس کے نتیجہ میں ہی ہم فکر ِ آخرت کو کب کا خیرباد کر چکے ہیں۔انفرادی اور اجتماعی سطح پر شریعت کے خلاف چلنے سے جو نتائج نکلتے ہیں وہ آج ہماری آنکھوں کے سامنے روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں۔قرآنی احکامات اور نبوی فرمودات کو فالو کرنے میں ہی ہماری نجات پوشیدہ ہے۔مادیت نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور قدرتی طور پر جو انسان آخرت کی نجات کا خواہشمند ہوگا ،اس کے ذہن میں یہ سوال ضرور اٹھے گا کہ ہمارے لئے آج کے اس پُر فتن دور میں آخر کیا نسخہ اکسیر ہے؟قربان ہو جائیں اپنے نبی برحق صلی صلی اللہ علیہ وسلم پر کہ ان کے فرمودات پڑھ کر انسان محوِ حیرت میں چلا جاتا ہے کہ کس طرح انہوں نے قیامت کی صبح تک ہماری رہنمائی فرمائی ہے۔ایک حدیثِ پاک میں عجیب و غریب ارشاد اس طرح فرمایا ہے:
’’دنیا کے معاملے میں ہمیشہ اپنے سے نیچے والے کو دیکھو اور اپنے سے کمتر حیثیت والوں کے ساتھ رہو،اُن کی صحبت اختیار کرو اور ان کے حالات دیکھو اور دین کے معاملے میں ہمیشہ اپنے سے اونچے کو دیکھواور ان کی صحبت اختیار کرو۔‘‘(مسلم)
کیوں؟اس لئے کہ جب ہم دنیا کے معاملے میں اپنے سے کمتر لوگوں کو دیکھیں گے تو قدرتی طور پر ہمارے اندر قناعت پیدا ہوگی،شکر پیدا ہوگا اور دنیا طلبی کی دوڑ کا جذبہ ختم ہوگا۔یہ حدیثِ پاک ڈپریشن(Depression) کے خاتمے کے لئے ایک کلیدی رول ادا کرتا ہوا نظر آرہا ہے چونکہ اگرچہ ڈپریشن کی بہت ساری وجوہات ہیں لیکن ان میں سب سے بڑی وجہ دنیوی معاملے میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا جذبہ ہے۔وہن اور حسد کی آگ میں جلنے کا بنیادی سبب بھی اسی مذکورہ دوڑ کا نتیجہ ہے۔ہمیں آج خود کشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کو ختم کرنے کے لیے چاروناچار اس حدیثِ پاک کو عملی جامہ پہنانا ہوگا۔آج ہر کوئی بے اطمینانی اور بے سکونی کی شکایت کرتے ہویے نظر آرہا ہے،اصل میں یہ ہمارے اس حدیثِ پاک کے خلاف طرزِ عمل کا نتیجہ ہے اور بڑھتے ہوئے کرائم ریٹ کی بنیادی وجہ بھی ہماری اسی چال چلن کی ہے۔اس نبوی نسخہ پر عمل پیرا ہونے سے بندہ مومن کے دل میں اپنے محبوبِ حقیقی کی محبت پیدا ہوگی،وہ سر بسجدہ رہنے میں ہی لطف اٹھاتا ہوا نظر آئے گا۔رات کا درویش بن کر اپنے رب کے سامنے حاضری دے کر وہ اس حد تک راحت میں چلا جائے گا کہ اپنا بستر تک بُھول جائے گا۔اس کی زبان پر شکر کے ترانے ہونگے اور اس کا انگ انگ اس بات کا عملی ثبوت دے گا۔
دین کے معاملے میں جب اپنے سے اونچے والوں کو دیکھیں گے تو آناًفاناً اپنی کمی کا احساس ہوگا اور آگے بڑھنے کی فکر ہوگی۔اس نبوی نسخہ پر عمل پیرا ہونے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ بندہ مومن کے سامنے تکبر کا بادل قریب بھی نہ پھٹکے گا۔دینی کام میں آگے بڑھنے کی فکر اسے بے چین کر دے گی اور اپنے ماضی پر پچھتانے کے بجائے یہ اِس سے سبق لے گا اور پوری سنجیدگی کے ساتھ اپنی مستقبل کی طرف بھرپور توجہ دے گا۔اپنے وجود کو ایک اجتماعیت میں کس کر یہ سچے لوگوں کے ساتھ ہی چلتا پھرتا نظر آئے گا۔وہ قافلہ جو منزلِ مقصود کی طرف رواں دواں رہتا ہے،اس میں شمولیت کے بعد ہی یہ بڑوں کے اعلٰی کردار دیکھ کر انہیں اپنانے کا خواہشمند ہوگا۔
لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنا رویہ مذکورہ حدیثِ پاک کے مطابق اختیار کریں۔ان شاءاللہ ہمارا دل سکون واطمینان کی دولت سے مالا مال ہو جائے گا اور ہمارا پورا معاشرہ امن وسکون کا گہوارہ بن جائے گا۔
آئیے بلاتاخیر ذرا عمل کرکے تو دیکھیں! حضرت عبداللہ بن مبارکؒ کے بارے میں آتا کہ مذکورہ نبوی نسخہ کو عملی جامہ پہنا کر ہی وہ راحت میں آگئے تھے۔فرماتے ہیں:
’’میں نے اپنی زندگی کا ابتدائی حصہ مالداروں کے ساتھ گزارا(خود بھی مالدار تھے)صبح سے شام تک مالداروں کے ساتھ رہتا تھا،لیکن جب تک مالداروں کی صحبت میں رہا،مجھ سے زیادہ غمگین انسان کوئی نہیں تھا،کیونکہ جہاں جاتا یہ دیکھتا کہ اس کا گھر میرے گھر سے اچھا ہے،اس کی سواری میری سواری سے اچھی ہے،اس کا کپڑا میرے کپڑے سے اچھا ہے۔ان چیزوں کو دیکھ دیکھ کر میرے دل میں گٹھن پیدا ہوتی تھی کہ مجھے تو ملا نہیں اور اس کو مل گیا۔لیکن بعد میں دنیاوی حیثیت سے جو کم مال والے تھے،اُن کی صحبت اختیار کی،اور ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے لگا،تو فرماتے ہیں کہ ’’فاسترحت ‘‘یعنی میں راحت میں آگیا،اس واسطے کہ جس کو بھی دیکھتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ میں تو بہت خوشحال ہوں،میرا کھانا بھی اس کے کھانے سے اچھا ہے،میرا کپڑا بھی اس کے کپڑے سے اچھا ہے،میرا گھر بھی اس کے گھر سے اچھا ہے،میری سواری بھی اس کی سواری سے اچھی ہے،اس واسطے میں اب الحمد للہ راحت میں آگیا۔‘‘
(مضمون کے بقیہ حصے کو اگلی قسط میں ملاحظہ فرمائیں)
کوٹا پورہ کولگام