برسلز/یو این آئی//افغانستان میں تقریباً دو دہائیوں سے موجود نیٹو افواج نے افغانستان میں اپنا فوجی پروگرام باقاعدہ ختم کرنے کا اعلان کردیا ہے ۔نیٹوکا 31 واں سربراہی اجلاس بیلجیئم کے شہر برسلز میں قائم ہیڈ کوارٹر میں کل شروع ہوگیا ہے، اجلاس میں امریکی صدر جوبائیڈن سمیت نیٹو اتحاد کے 30 رکن ممالک کے سربراہان شریک ہیں۔اس موقع پر افتتاحی خطاب میں نیٹو سیکرٹری جنرل اسٹولٹن برگ نے افغانستان سے فوجی مشن کے خاتمے کا اعلان کیا۔ برگ نے کہا کہ ہم افغانستان میں اپنا فوجی مشن ختم کر رہے ہیں لیکن ہم افغان عوام اور افغان سیکیورٹی فورسز کی مدد جاری رکھیں گے ، یہ ہم وہاں علیحدہ سے اپنی سویلین موجودگی کے ذریعے کریں گے ۔نیٹو سیکریٹری جنرل نے مزید کہا کہ ہم افغان فورسز کی حمایت، مشورہ اور ان کی مالی مدد جاری رکھیں گے جس کی فراہمی کا وعدہ تمام اتحادیوں نے کر رکھا ہے ، اس کے ساتھ ہی ہم اس بات پر بھی غور کر رہے ہیں کہ کس طرح افغان فوج کو بیرون ملک تربیت فراہم کی جائے ؟۔یین سٹولٹن برگ نے بتایا کہ نیٹو کابل ائیر پورٹ سمیت اہم انفراسٹرکچر کو فعال رکھنے کے لیے کام کر رہے ہیں، اس حوالے سے نیٹو امریکہ، ترکی اور دوسروں کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے ، کیوں کہ یہ انٹرنیشنل کمیونٹی کی سفارتی موجودگی اور بین الاقوامی امداد پہنچانے کے لیے ضروری ہے ۔اس موقع پر نیٹو سیکریٹری جنرل نے باور کروایا کہ ہم افغانستان میں گذشتہ بیس سال سے ہیں لیکن ہم وہاں مستقل رہنے کے لیے نہیں آئے تھے ۔اس سے قبل ترکی نے افغانستان میں استحکام لانے کے لیے امریکہ کو مدد کی پیش کش کی تھی، ترک صدر رجب طیب اردوان کا کہنا تھا کہ افغانستان سے امریکی اور اتحادی افواج کے انخلاء کے بعد ترکی وہ واحد قابلِ بھروسہ نیٹو رکن ملک ہے جو وہاں موجود رہے گا، اس معاہدے پر آج نیٹو کانفرنس کی سائیڈ لائن پر صدر بائیڈن سے تبادلہ خیال کیا جائے گایاد رہے کہ نیٹو نے رواں سال اپریل میں امریکی صدر جو بائیڈن کے امریکی فوج کو وطن واپس بلانے کے فیصلے کے بعد افغانستان سے اپنے مشن سے دستبرداری کا آغاز کیا تھا۔