سال نو ہے ترا خیر مقدم
سال نو ہے ترا خیر مقدم
گزرے سالوں سے اچھا ہو ہمدم
ہم نوا ہم سبھی کو بنا کے
اپنا دم بھی جہاں کو دکھا دے
لوگ کہتے ہیں تجھ میں نیا کیا
گزرے گی پھر وہی رات دن سا
کہہ رہا ہوں نہ ماضی بھلائیں
حال کے ساتھ سنگم کرائیں
ماضی سے حال اچھا کٹے گا
میں نہیں دنیا والا کہے گا
سوچ مثبت اگر ساتھ ہوگی
تو ترقی بھی دن رات ہو گی
ہیں وہی سارے دن اور مہینے
سالہا سال سے سال بدلے
آنے والے دنوں کی خوشی میں
شہر چھوٹا، بڑا، ہر گلی میں
جب بھی’’ میں‘‘ اک نیا سال آیا
جشن ہی آپ سب نے منایا
جن کو کچھ پانے کی چاہتیں ہیں
صرف ان کو ملی منزلیں ہیں
رات، دن ، چاند، سورج ، ستارے
اور موسم ہیں تابع خدا کے
لابدل ہیں ازل سے ابد تک
آپ کی سوچ ہے ایک حد تک
جی رہے ہیں اِسی سات دن میں
مر رہے ہیں اِسی سات دن میں
سال کے ہیں یہ بارہ مہینے
اِس سے آگے نہیں کچھ نگینے
ہے اگر کچھ تو ہوں سال نو ’’میں‘‘
سال نو ہی رہوں سال نو ’’میں‘‘
خطاب عالم شادؔ
مغربی بنگال
موبائل نمبر؛9339966186
غزل
پورے اک سال سے گذرے تو نئے سال میں آئے
پھر اسی زلف گرہ گیر کے جنجال میں آئے
پھر وہ بے کیف طبیعت وہی بے رنگ سی شام
جیسے ہم سحرِ سیہ رنگ کے بنگال میں آئے
سال ماضی نے مجھے سب دیا راحت کے سوا
کتنے بے کیف جھمیلے مرے اعمال میں آئے
قیدِ مومن بھی ہے گلزارِ دل وجاں بھی تو
نا سمجھ ہے جو ترے حسن کے جنجال میں آئے
خیر وشر سب سے گزر کر بڑھے منزل کی طرف
کئی کھوٹے کھرے سکے مری ٹکسال میں آئے
شمسؔ ہر سال نے سکھلائے سبق بھاری بھاری
ہر نئے سال میں ہم پھر بھی اسی جال میں آئے۔
ڈاکٹر شمس کمال انجم
شعبہء عربیبابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری
موبائل نمبر؛9086180380
سالِ نو مبارک ہو
یہ مفلسی مٹادے نیا سال دوستو
تم کو غنی بنائے نیا سال دوستو
تب دل لگے مناتے ہوئے جشنِ سالِ نو
کچھ گُل نئے کھلائے نیا سال دوستو
سب کچھ وہی پرانا پرانا سا دیکھ کر
کیسے کوئی منائے نیال سال دوستو
آ جائے لطف بیتے برس کےجو کرب سے
ہم کو اُبھار لائے نیا سال دوستو
خواہش ہے سب کی آنکھ کے اشکوں کو پونچھ کر
لب پر ہنسی سجائے نیا سال دوستو
دنیا میں کاش پیار محبت کے ہر طرف
منظر ہمیں دکھائے نیا سال دوستو
اللہ سے کرو یہ دعائیں کہ میرے بھی
شانے پہ چاند اُگائے نیا سال دوستو
ہر ایک سُکھ جہاں کا تمہارا بنے نصیب
یوں تم کو راس آئے نیا سال دوستو
ذکی طارق بارہ بنکوی
سعادتگنج، بارہ بنکی، یوپی
موبائل نمبر؛7007368108
سالِ نو خوش آمدید
کرنوں کو اپنی سالِ نو ایسی تو ضیاء دے
قرئہ ارض پر خلق کو جو تازہ فضا دے
فردہ نے جنسِ عام کو جو زخم دیئے ہیں
معلج کی طرح اُن کو کچھ عمدہ سی دوا دے
ہے روشِ حیات کچھ نہ آس پاس میں
جیتی ہے خلق مشکلاً جینے کی آس میں
آذرؔ میاں یہ وقت کے لیل و نہار ہیں
جیتا ہے کوئی شان سے کوئی حراس میں
عصرِ رواں میں دریوزہ گر روتا نہیں ہے کیا؟
سرِراہ وہ خالی شِکم ہوتا نہیں ہے کیا؟
اُس کیلئے ہی آج و کل یکساں مزاج ہیں
طالع پہ اپنے روز وہ روتا نہیں ہے کیا؟
یہ وقت کے مارے ہوئے نادار طبع لوگ
سایۂ فلک کی اوٹ میں رہتے ہیں رات دن
کرتی مذاق اِن سے ہے تاروں کی جمعیت
کیا کم مائیگی میں اِن کے نہ گزرے میں سال و سِن
حرکات و سخن ان کے بھی ہوتے غماز ہیں
دامان ہوس ان کے بھی ہوتے دراز ہیں
تعمیر تاجؔ کرتے ہیں یہ روز خیالی
یہ لوگ نہیں واقفِ نشیب و فراز ہیں
ہے جورِ کمال حسرتا حدِ کمال پر
ہر سمت کشت و خون کا بازار گرم ہے
دیدے ہے ترے اے سالِ نو عالم کا یہ منظر
آنکھیں ہیں تری خوں فشاں مگر دل تو نرم ہے
مولیٰ نے فقط وقت کو سونپی کمان ہے
ہوتی ہے جسکی منفرد اپنی ہی شان ہے
صحرا کو یہ اک دن میں ہی گلزار بنادے
یہ چھیڑتا ہے دور میں اپنی کمان ہے
ہے آنے جانے کی روایت صدیوں پرانی دوستو
یہ کہانی خش و تر میں ہے زمانی دوستو
منفرد ہوتی ہیں اکثر وقت کی نیرنگیاں
کیا پتہ کب تک ہے باقی میزبانی دوستو
اَب دعائے خیر مانگو آنے والے وقت سے
الوداع سو بار کہہ دو جانے والے وقت سے
کیا پتہ کتنا ہے باقی زندگانی کا سفر
پوچھنا چاہو تو پوچھو اپنے اپنے بخت سے
سالِ رفتہ پیش فردہ ختم ہوا
ہوگیا بھی تو یہ چشم نم ہوا
کس لئے خوشیاں مناتے ہو عشاقؔ
سال اپنی عمر کا بھی کم ہوا
عُشاقؔ کشتواڑی
کشتواڑ، حال جموں
موبائل نمبر؛9697524469
اگلا کلینڈر
نئے سال کا کلینڈرچھپ چکا
پرانا دیوار سے ہٹ گیا
لیکن دیوار وہی۔۔نظر وہی
مگر
ایک سال زندگی کا بیت گیا ۔
کل جو گزر گیا
جھانک کر دیکھیں اگر
کیا کھویا کیا پایا ۔
شاید
چھانی سے پانی گر گیا
ہاتھ خالی رہ گیا
کل جو آنے والا ہے
کیا خبر کیا پتہ
جو ہوگا ہو جائیگا
میری ہے اس پر نظر
جو قادر ہے
میری سانسوں پر
جو الٹتا ہے
میرا اگلا کلینڈر۔۔۔۔
امداد ساقیؔ
سرینگر، موبائل نمبر؛9419000643
نیاسال2025
دسمبر گیا اور نیا سال آیا
اخوت محبت کا پیغام لایا
رضائی میں خود کو چھپانے لگے ہیں
عجب رنگ موسم نے اپنا دکھایا
ذرا سوچئے قلب پر ہاتھ رکھ کر
گئے سال میں ہم نے کیا کھویا پایا
نئے سال میں یہ کریں عزم ہم سب
نہ ناراض ہم سے ہو اپنا پرایا
کریں کیوں نہ ہم شکر ہر آن اس کا
کہ جس نے ہمیں آج شاعر بنایا
نئے سال میں کر دےرحمت کی بارش
دکھادےمقامِ مقدس خدایا
ہے اُمید اُس سے خدا ہوگا راضی
گلے جس نے دشمن کواحسن ؔلگایا
افتخار حسین احسن
موبائل نمبر؛ 6202288565
2024دوہزار چوبیس
اے دو ہزار چوبیس
تو چلا گیا مگر میں زندہ ہوں
زندگی بھر
آپکے نام سے کانپ اٹھونگی۔
آپ نے جاتے جاتے
مجھے باپ کے
شفیق سائےسےمحروم کردیا۔
اب میرے دل کی ڈائری کے
ورق ورق پر
یہی الفاظ تحریر ہونگے
دو ہزار چوبیس میں
میرا ڈیڈی مجھہ سے
ہمیشہ کے لئے بچھڑ گیا۔
آپنے جو زخم دیئے
ان سے ہر سال لہو ٹپکے گا اور
دو ہزار چوبیس یاد أئیگا۔
روہی جان نوگام، سرینگر، کشمیر
خوف
طوفاں کے بعد
میں دیکھتا ہوں
کہ کونسا حصہ ہے
جو بہہ چکا ہے۔
کون شخص ہے
جو اب تلک بھی
میرے نام کا
رہ چکا ہے۔
میرے وجود کی تلچھٹوں میں
میرے خیال کی آہٹوں میں
خوف کے پیکر کا
رات کے ساغر کا
ہر ایک منظر
ہر ایک مصدر
نشاں اولیٰ
بن چکا ہے۔
نشاں کی حد تک تو
میں مان بھی لیتا ۔
جانِ عزیز کی تلچھٹوں میں
خوف سے بڑھ کر
رات سے بہتر
کوئی وجود بچا نہیں ھے۔
شہزادہ فیصل
بخشی نگر، جموں
کارِ جہاں
ہر صبح کی تو اک شام ضرور آنی ہے
زندگی تو بس یہی آنی اور جا نی ہے
مدتوں کا سفر پل میں گذر جاتا ہے
ہر شخص کی تو رہ جا تی اپنی کہانی ہے
اک مختصر سا وقت ہے تیرا زمانے میں
کچھ بھلا کر، غنیمت یہ تیری جوانی ہے
کارِ جہاں اگر دراز ہے تو کیا غم
صبر کی تلقین تو تعلیم ِربانی ہے
دردمندوں اور غربیوں کی زمانے میں
کچھ تو خبرلے ، یہ تیرا فرضِ انسانی ہے
نہ چُھوٹے تجھ سے کبھی کو ئی کام نیکی کا
کام اچھے ہیں تو جہاں میں تیری قدر دانی ہے
کیا کھویا کیا پایا سب اُسی کا لکھا ہوا
جستجو ے ٔ زندگی ،بہتے دریا کی روانی ہے
تنہاؔ کی آرزو بس یہی ہے شب و روز
ہوگناہوں کی بخشش، دل کی یہ پشیمانی ہے
قاضی عبدالرشید تنہاؔ
روزلین چھانہ پورہ، سرینگر، کشمیر
موبائل نمبر؛7006194749