ایس معشوق احمد
ہندوستان کی مختلف ریاستوں اور شہروں میں اردو کا باغ لہلا رہا ہے، سرسبز و شاداب ہے اور جو باغ بان اس کی دیکھ ریکھ کررہے ہیں، اس باغ کو اپنے خون جگر سے سینچ رہے ہیں ،ان کی کوششوں اور محنت سے یہ باغ پہلے بھی ثمر دے رہا تھا اب بھی باردار ہے۔ کرناٹک میں ایک شہر ایسا بھی ہے جہاں ادیبوں نے اس باغ میں خوشبودار پھول لگائے ہیں جن کی خوشبو دور دور تک پھیل رہی ہے۔ پھولوں کا باغ کہلانے والے گلبرگہ میں متعدد ادباء اور شعراء اس باغ کی آبیاری کررہے ہیں، جن میں ایک باغبان کا نام واجد اختر صدیقی ہے۔واجد اختر صدیقی کے تخیل کا گھوڑا نثر اور نظم کے میدان میں سریع السیر دوڈ رہا ہے اور اب تک ان کے قلم نے اس باغ میں پانچ ثمرور درخت لگائے ہیں جو اس باغ کی خوبصورت میں اضافہ کررہے ہیں۔ ہنوز ان کا قلم رکا نہیں ہے ۔2023 ء میں ان کی ایک کتاب ’’نقش تحریر‘‘ شائع ہوئی ہے۔
امر واقعہ ہے کہ ہر فرد کو اپنی جائے پیدائش ، اپنے علاقے ، آس پڑوس سے انسیت ہوتی ہے۔واجد اختر صدیقی کو گلبرگہ سے ہی نہیں بلکہ اس سرزمین سے تعلق رکھنے والے قلمکاروں سے بھی محبت ہے۔اس فریفتگی میں انہوں نے’’نقش تحریر ‘‘جیسی کتاب رقم کی ہے جس میں انہوں نے گلبرگہ سے تعلق رکھنے والے ممتاز قلمکاروں کی ادبی خدمات کو سراہا ہے۔نقش تحریر کے ابتداء میں چار مضامین نقش تحریر : ایک مطالعہ پروفیسر مجید بیدار ، اپنی مٹی کا قرض اتار رہے ہیں، واجد اختر صدیقی ڈاکٹر شفیع ایوب ، نقش تحریر گلبرگہ کا شناخت نامہ عزیز بلگامی اور واجد اختر صدیقی : ایک نقش خاکسار ڈاکٹر غضنفر اقبال، ان چاروں مضامین میں واجد اختر کے فکرو فن ، ان کے پیدائش سے لے کرہر ادبی دنیا میں آمد تک ، ان کی دیگر کتب کا تعارف ، ان کی متنوع صلاحیتوں، ان کے قلم کی توانائی اور جذبے اور نقش تحریر کی خوبیوں کا اظہار کیا گیا ہے۔ڈاکٹر شفیع ایوب واجد اختر صدیقی کی گوناگوں صلاحتیوں کے متعلق لکھتے ہیں _۔’’ واجد اختر صدیقی ایک ایسے آل راونڈر ہیں جو بیٹنگ ، بالنگ اور فیلڈنگ میں یکسان کمال رکھتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر وکٹ کیپر کا بھی رول ادا کرتے ہیں۔ ایسے آل راؤنڈر اردو تحقیق اور تنقید کے میدان میں ذرا کم ہی ہیں۔‘‘
نقش تحریر کو آٹھ ابواب میں تقسیم کیاگیا ہے۔ پہلے باب کا عنوان باب زمان ہے۔ ’’ گلبرگہ کی نثری تصانیف : ایک جائزہ ‘‘ایک مفصل تحقیقی مقالہ ہے جس میں شہر گلبرگہ کے نثری کارناموں کی تاریخ رقم کی گئی ہے۔خواجہ بندہ نواز سے منسوب رسائل سے کر پروفیسر ہاشم علی ، مجبتی حسین ، ڈاکٹر طیب انصاری ، سید مجیب الرحمن ،رزاق فاروقی ، عبدالقادر ادیب ، قیوم صادق ، خالد سعید ، حمید سہروردی ، ڈاکٹر شکیب انصاری ، بشیر باگ، جلیل تنویر ، نجم باگ اور کوثر پروین جیسے ناقدین ، مزاح نگاروں اور افسانہ نگاروں کے ادبی کارناموں اور ان کا مختصر تعارف اس باب میں پیش کیا گیا ہے۔دوسرا باب ، باب سخن ہے ۔اس میں کل اٹھارہ مضامین شامل ہیں۔اس باب میں منظور احمد جنہیں ادبی حلقے تنہا تماپوری کے نام سے جانتے ہیں ،کے متعلق مضمون بعنوان ایک شخص ایک شاعر : تنہا تماپوری شامل ہے۔اس میں تنہا تماپوری کی شخصیت ، ان کے گھرانے ، ان کی تعلیم و تربیت ، ان کی دو شادیوں کا ذکر ، معلمی کے پیشے سے ان کی وابستگی ، ان کا ہائی اسکول سے غزل لکھنے کی شروعات کرنا ، ان کا نظموں کی طرف راغب ہونا اور نثری نظموں کو نظم نہ مان لکھنا ترک کرنا ، ان کے شعری مجموعوں چھلنی چھلنی سائبان 1986ء ،نظموں کا مجموعہ سویرے سے پہلے 2012,، غزلوں کا مجموعہ کہکشاں 2013 ء کا تعارف اور ان کے انتقال اکتوبر 2013 تک کی ساری معلومات درج ہیں۔اس مضمون میں تنہا کی شاعرانہ خصوصیات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ واجد اختر صدیقی تنہا تماپوری کے متعلق لکھتے ہیں ۔’’تنہا کے یہاں مفکرانہ ، عاشقانہ اور حسن اخلاق کے بہترین اشعار ملتے ہیں جن سے زندگی کی کئی راہوں میں روشنی پڑتی ہیں لیکن تنہا تما پوری غزل گوئی سے کنارہ کشی اختیار کرکے آزاد نظم اور نثری نظم کی طرف مائل ہوگئے، حالانکہ وہ غزل کے اچھے شاعر ثابت ہوسکتے تھے تاہم جدید شاعری انھیں اپنے بہاؤ میں بہا کر لے گئی۔‘‘
اس باب میں جہاں نصیر احمد نصیر ، اکرم نقاش ، ڈاکٹر رزاق اثر عبدالستار خاطر ، محمد یوسف شیخ،محمد جاوید اقبال جیسے شعراء کی غزل گوئی اور شاعرانہ کمالات پر مفصل مضامین شامل ہیں وہیں سعید عارف کی نعت نگاری پر بھی ایک جاندار مضمون اس باب کا حصہ ہے۔کتاب کے تیسرے باب کو ’’باب فن ‘‘کا عنوان دیا گیا ہے۔اس میں سات مضامین شامل ہیں۔پہلا مضمون ’’ریاض قاصدار کے افسانے‘‘میں ان کی افسانہ نگاری کا عمومی جائزہ پیش کیا گیا ہے، فن افسانچہ اور منظور وقار نامی مضمون میں واجد اختر نے مزاح نگار ، ’’ ہنسا منع ہے‘‘کے خالق اور افسانچوں کے مجموعے ’’کانٹوں کا جھنڈ‘‘کے تخلیق کار منظور وقار کی افسانچہ نگاری کو موضوع بنایا ہے۔ منظور وقار کی افسانچہ نگاری کے حوالے سے واجد اختر لکھتے ہیں۔’’منظور وقار کے افسانچوں کا مطالعہ کرتے ہوئے راقم کو محسوس ہوا کہ ان کے سارے کے سارے افسانچے ایک متاثر کن فضا کو قائم رکھنے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ان کے افسانچے سماج پر گہرا طنز ہیں۔انہوں نے سماج کو آئینہ دکھایا ہے۔انہوں نے طویل افسانچے بھی لکھے ہیں اور دو تین سطری افسانچے بھی رقم کئے ہیں۔‘‘
اس باب میں ڈاکٹر وحید انجم اور حنیف قمر کے افسانچوں پر مضامین کے علاوہ محمد عرفان ثمین کی افسانوی کائنات اور ڈاکٹر غضنفر اقبال کی فن انٹرویو میں نئی جہت جیسے اہم مضامین بھی شامل ہیں۔کتاب کا چوتھا باب’’ باب ایوان ‘‘ ہے۔اس میں پندرہ مضامین شامل ہیں۔اس باب میں جہاں ڈاکٹر وہاب عندلیب، ڈاکٹر وحید انجم ، ڈاکٹر فرزانہ فرح کی خاکہ نگاری پر مضامین شامل ہیں وہیں رشید جاوید حیات و خدمات، اظہر افسر کی ڈراما نگاری ، پروفیسر حامد اشرف کی نثر نگاری جیسے مضامین بھی اس باب کا حصہ ہیں جو اس باب کی وقعت اور اہمیت میں اضافے کا سبب ہیں۔ کتاب کے پانچویں باب کو ’’باب جہان ‘‘کا عنوان دیا گیا ہے۔اس باب میں تین تبصرے شامل ہیں۔پہلا تبصرہ ڈاکٹر وحید انجم کے اولین شعری مجموعے زخموں کی زبان 1997ء پر ہے۔ وحید انجم کی شاعرانہ خصوصیات کے متعلق واجد اختر لکھتے ہیں کہ وحید انجم اپنے اشعار سے قاری کا دل موہ لینے کے ہنر سے آشنا ہے۔اس باب کا دوسرا تبصرہ بھی وحید انجم کے شعری مجموعے ’’ منظر دھواں دھواں‘‘ 2003 ء پر ہے۔تیسرا مختصر تبصرہ کلام تجھ لب کا نامی کتاب پر ہے۔ یہ کتاب ڈاکٹر غضنفر اقبال نے ترتیب دی ہے ۔اس میں انہوں نے دکن کے 29 منتخب شعراء کے کلام کو جگہ دی ہے۔کتاب کا چھٹا باب ’’باب چمن‘‘ ہے۔ اس میں بھی تین تبصرے شامل ہیں۔پہلا مختصر تبصرہ خاتون مزاح نگار ڈاکٹر حلیمہ فردوس کی کتاب ‘بہرکیف پر ہے۔ اس کتاب میں سترہ مضامین شامل ہیں۔دوسرا تبصرہ 13 مزاحیہ فن پاروں پر مشتمل امجد علی فیض کی کتاب جستہ برجستہ پر ہے۔منظور وقار کی کتاب مسکرانا منع ہے پر تبصرہ بھی اس باب میں شامل ہے۔باب میزان میں مختلف النوع دس تبصروں کو جگہ دی گئی ہے اور آخری باب ’’ باب گمان ‘‘میں واجد اختر نے دو افسانوں کا تجزیہ کیا ہے جن میں شاہد فریدی کا افسانہ زن گزیدہ اور حسن محمود کا افسانہ آئینہ شامل ہیں۔اس باب کے آخری میں واجد اختر صدیقی کے متعلق معلومات درج ہے جسے محمد جاویداقبال صدیقی نے ترتیب دیا ہے۔
مجموعی طور پر دیکھیں تو نقش تحریر واجد اختر صدیقی کا ایک بہترین کارنامہ ہے کہ اس میں ساٹھ کے قریب مختلف النوع مضامین، تبصرے اور تجزئیے شامل ہیں۔کتاب کو خوش ذائقہ بنانے کے چکر میں واجد اختر صدیقی نے مواد کا مصالحہ زیادہ ڈال دیا ہے کہ بعض ادیبوں کے متعلق دو دو تین تین مضامین شامل کتاب ہیں۔ناموں اور کارناموں کی تکرار سے کتاب کی دلکشی میں کمی آئی ہے۔ایک ادیب کے متعلق اگر کتاب میں ایک ہی مضمون شامل ہوتا اور دوسرے مضامین کو الگ مجموعے کی شکل دی جاتی تو بہتر تھا۔بہرکیف واجد نے شہر گلبرگہ کی ادبی تاریخ رقم کی ہے۔ایسے کارنامے عرصے کی ریاضت کے بعد سپرد قرطاس کئے جاتے ہیں اور تادیر ان کا اثر قائم رہتا ہے۔
(رابطہ۔ 8493981240)
[email protected]