آتا ہے کبھی یاد جب عہدِ شباب دوست
ہیں گلستانِ زیست اب بے بہار سے
ہوتے تھے کبھی سیر یہ باغ و بہار سے
پیری میں اب دوش پہ بارِ ستم لئے
کرتے ہیں بسر روز و شب ہم بے اختیار سے
اپنا ہی سایہ کرتا ہے اپنا طواف اب
کرتے ہیں اُس سے گفتگو نہایت بِسیار سے
ہوجائے جب احساس ہمیں وہم و گمان کا
پاتے ہیں اپنے آپ کو ہی شرمسار سے
خلوت کدے میں چین سے سوئے کبھی نہ ہم
منظر ہیں اسکے دیدنی جائے مزار سے
چھا جاتی ہے جب تیرگی ہوش و حواس پر
ہوجاتے ہیں پھر قلب و جگر بے قرار سے
بوئے کفن اب آتی ہے اکثر لباس سے
بستر کے بھی ریشے ہوئے ہیں تار تار سے
آتا ہے کبھی یاد جب عہدِ شباب دوست
روتے ہیں اپنے حال پہ پھر زار و قطار سے
پابندِ نظر کیف کی دُنیا نہیں عُشاقؔ
ہوتے ہیں اسکے رنگ و روپ ناپائیدار سے
عُشاقؔ کشتواڑی
جموں، موبائل نمبر؛9697524469
تلاشِ شکر
رشتو ں کو نبھانے کا اک ہنُر چاہئے
گھر کو گھر بنانے کے لئے خونِ جگر چاہئے
تیری زلسیت میں قایٔم جب تک ہے دم
ہر لمحہ دل میں، وقت کی قدر چاہئے
سلیقہ ہو آراستہ ہو سوزِدل سوزِدماغ
علم، عمل اور تر بیت کا شجر چاہئے
مِل جاتا ہے سب کچھ نیک اعمال سے
مُشکلیں جھیلنے کے لئے اک صبر چاہئے
دوُستی کیا، دشمنی کیا ، آ سُن تنہاؔ کی زبانی
مرچ کی بوری میں تلاشِ شکر چاہئے
قاضی عبدالرشید تنہاؔ
روز لین چھانہ پورہ سرینگر
موبائل نمبر؛7006194749