خواب کی سیڑھی پہ
کبھی جو تم مرے خواب میں اترتی ہو
کسی نئے خواب کی طرح
چاندنی کا بدن لئے
جبین حسن پہ چاند کی بندیا سجائے
پلکوں پہ ستاروں کی ٹمٹماہٹ لئے
قوس قزح کا دوپٹہ اوڑھ کے
شرمیلى الجھى سلجھى
خوشبوں کی چمکتی زلفیں
میری آنکھوں کو خیرہ کرتی ہیں
رخساروں پہ عرق گلاب کی دمک
وصل کی اس جگاتی ہے
خواب زادے کی پیاس بجھاتی ہے
لمس کی انگلیاں چاٹتی ہیں حرارت
اٹھائیں چھو کو
سرخ یونٹوں پہ ہلکی ہلکی
کھلتی چنچل مسکراہٹ
مری نظروں کی تتلیوں کو
دعوت بوسہ دیتی ہے
زندگی کتنی خوبصورت لگتی ہے
نیند کی پلکوں پر
فریب کی وادی میں
علی شیداؔ
نجدون نیپورہ اسلام ا?باد،
موبائل نمبر؛9419045087
غمِ دوراں
حوصلہ ہر پل دیا ہے شکریہ
اے غمِ دوران ہے تیرا شکریہ
ڈگمگائے جب کبھی میرے قدم
تُونے تھاما ہاتھ میرا شکریہ
چھا گیا آنکھوں میں اندھیرا کبھی
دے دیا تُو نے اُجالا شکریہ
جب وفا پر ہوگئی غالب جفا
مل گیا تیرا سہارا شکریہ
موجِ طوفاں نے جو گھیرا تنگ کیا
دے دیا تُو نے کنارا شکریہ
جب کھرے کھوٹے کو کرنا تھا الگ
وہ ہُنر تو نے ہے بخشا شکریہ
غم ہے اِک مہمیز اَز راہِ کرم
فکر، اک دَمساز آہا شکریہ
غم نے رکھا ہے بھرم سب کا ہمیش
غم شَرر ہے یا سِتارہ شکریہ
فکر و غم میں ہے نوائے دِلبری
گہہ مُداوا گہہ مُدارا شکریہ
غم اُڑاتا ہے سدا غفلت کی نیند
فِکر، منزل کا اِشارہ شکریہ
فکرِ دِل ہے خُوب رَہوارِ زَماں
تیرِ یزداں کا نشانہ شکریہ
فکر و غم ہے باعثِ صبر و رضا
ہے دُعا بھی میرؔ اعلیٰ شکریہ
ڈاکٹر میر حسام الدین
گاندربل کشمیر
موبائل نمبر؛9622729111
دسمبر
دسمبر کی راتیں ستم ڈھا رہی ہیں
تمہاری قسم ہم کو تڑپا رہی ہیں
جو نغمے وفا کے یہاں گا رہےہیں
شگوفے وہ ٹہنی کے مرجھا رہے ہیں
یہ معصوم کلیاں بھی تھرّا رہی ہیں
دسمبر کی راتیں ستم ڈھا رہی ہیں
رگوں میں روانی کہاں تک رہے گی
کہیں تو یہ خونِ جگر بس کہے گی
یہ کہرے کی بوندیں سستا رہی ہیں
دسمبر کی راتیں ستم ڈھا رہی ہیں
جواں خون میرا سکڑنے لگا ہے
جسم ٹھنڈ کے مارے اکڑنے لگا ہے
چلے آؤ نظریں یہ مرجھا رہی ہیں
دسمبر کی راتیں ستم ڈھا رہی ہیں
اگر یوں ہی سورج یہ روٹھا رہے گا
تو پروازؔ دکھڑا یہ کس سے کہے گا
اُمیدیں جواں کچھ تو بتلا رہی ہیں
دسمبر کی راتیں ستم ڈھا رہی ہیں
جگدیش ٹھاکر پرواز
لوپارہ دچھن ،کشتواڑ
موبائل نمبر؛9596644568
خرابہ ہی خرابہ
مطلق اب میرے دل میں کچھ یادِ کہن نہیں
اس پہ ستم وہ پہلا سا بھی بانکپن نہیں
عمرِ طویل اب تلک قسطوں کاٹ لی
پیری میں طبع اب مائیلِ شعر و سخن نہیں
دیدے ہیں میرے رُوبہ رو خراب ہی خراب
دیکھوں تو کہیں دور تک سرو سَمن نہیں
ہر طور طبع شاد تھی اپنوں کے درمیان
اِس جا کہیں بھی خُلد سا ایسا چمن نہیں
کرتا ہے نہیں فرد کوئی بِنا دام لئے بات
کرتا ہے سلوک ایسا کوئی راہزن نہیں
دیکھے جو میری دیدنے نقشے بدل بدل
ہونے لگا گماں ہے یہ میرا وطن نہیں
تازیست جس مقام نے پالا مجھے مُدام
لگتا ہے اُس مقام ہی ہوں خیمہ زن نہیں
ہر طور لگے مجھ کو اب میں بے لباس ہوں
صد حیف کبھی خواب میں تھا ننگا بدن نہیں
یادوں کے میرے ذہن میں تعمیر تاج ہیں
اِس بھیڑ نا تمام میں وہ اپنا پن نہیں
کیا بے آب کسی رُود نے بانٹا ہے شہر کو
اِن بستیوں میں نام کا چین و اَمن نہیں
دامانِ اہلِ حق کو یاں دیکھا ہے تار تار
میرے سلف میں شکریہ دیوانہ پن نہیں
لیکن زمیں پہ اب بھی ہیں تہذیب کے داعی
مُبلغ کی طرح جنکا بھی کوئی وطن نہیں
جی چاہتا ہے دیر سے صحرا کی راہ لوں
یاں حسرتا کوئی بھی دشت و دمن نہیں
جائے جموں میں تھا کبھی آزادؔ سُخن ساز
عصرِ رواں میں عُشاقؔ کوئی ہم سُخن نہیں
عُشاق کشتواڑی
کشتواڑ، حال جموں
موبائل نمبر؛9697524469
بابو جی کی سائیکل
سڑکوں پر جب دوڑتی ہے، بابو جی کی سائیکل
بچوں کو گھر چھوڑتی ہے،بابو جی کی سائیکل
ڈیزل، تیل اور نہ کوئی فیول اس کو چاہیے
خوب ہوا میں دوڑتی ہے،بابو جی کی سائیکل
ہو جائے جب پنکچر اس میں کوئی نہ آئے کام
خود ہی پنکچر جوڑتی ہے، بابو جی کی سائیکل
ہوا مخالف جب چلتی ہے موسم کے اسباب سے
منھ کب اپنا موڑتی ہے، بابو جی کی سائیکل
لال ہر ی بتی پر بھی فراٹے خوب ہے بھرتی
سب کو پیچھے چھوڑتی ہے، بابو جی کی سائیکل
رستے میں جب اس کے کوئی رُکاوٹ آجائے
اینٹیں، پتھر توڑتی ہے، بابو جی کی سائیکل
بھارتی ؔکا ہر برس جب یوم ِ ولادت ہے آتا
خوب غبارے پھوڑتی ہے، بابو جی کی سائیکل
طاہر نسرین بھارتیؔ
نئی دہلی
موبائل نمبر؛8802254915
آخر کیوں
کیوں مرِی آہ کا اثرنہیں ہوتا
کیوں مرِی دُعا کاثمر نہیں ہوتا
روز ہر شام اُس کی چوکھٹ پر جا کے
کیوں مرِی آرِزؤں کا بسر نہیں ہوتا
چاہت کی آگ لگی تن بدن میں
کیوں میرا راحت دردِ جگر ، نہیں ہوتا
چھایا ہوا ہے کیسا پت جڑ گُلشن میں
کیوں باغِ گُل میراجاذبِ نظر نہیں ہوتا
زندگی کے شب ورو‘ز کی تگ ودؤ میں
کیوں تنہاؔ تیرے سفر کا حَضر نہیں ہوتا
عبدالرشید تنہا
چھانہ پورہ، سرینگر
موبائل نمبر؛7006194749
اکڑ
کہیں سے اُڑ کر
ایک دوسرے سے جُڑ کر
مگر بہت اکڑ کر،
ہستی میں چڑھ کر
تین کھلاڑی۔
کھلاڑیوں سے بڑھکر
کہ دنیا کے میدان میں
کھیلتے ہیں ڈٹ کر،
رِشتوں کا کھیل
حسد، ضد اور بغض۔
سکینہ اختر
کرشہ ہامہ، کنزر ٹنگمرگ،کشمیر