موسم کی رہائی
اک سوکھا پھول پڑا ہے
شیلف پہ رکھی اس کتاب میں
جس کے سرہانے سُلائی جاتی ہے
ہر رات مری نیند
خاردار خواب دیکھنے کے لئے۔۔۔!
جس دن سورج کی شعائیں
کتاب پہ جمی دھول جھاڑ دیں گی
مرے خواب خار زدہ بستر سے آزاد ہوجائیں گے
موت سے بند کھڑکی کھل جائے گی
خوشبو کے پنکھ پرواز کریں گے
ابر کی قاشوں سے پیوند زدہ
نیلگوں کی طرف۔۔۔۔
دھوپ کے جزیرے پہ اُترے گا
کہانی کا شہزادہ
نہانے کے لئے
شعاؤں کے شاور کے نیچے
عریاں لفظوں کا برفاب بدن لے کر۔۔۔
شیلف پہ رنگوں کی تتلیاں اُبھر آئیں گی
شہزادی کی گود بھر جائے گی۔۔
سیاہ قبیلے کے جگنو
کھڑکی کے پاس آکر
چاندنی کا خیمہ گاڑ دیں گے
ہجر کے زندان سے
محبت کا موسم رہائی پائے گا۔۔۔!!!!
علی شیدا ؔ
نجدون نیپورہ اسلام آباد، موبائل نمبر؛9419045087
خیال
چُپ چاپ قدم دھرتا ہے
ذہن کی سیڑھیوں پر۔
وہ اک خیال جو گم شد ہے
برسوں پہلے میں جسے وقت کی الماری میں
رکھ آیا تھا
یاد کے کینوس پر
جو اب بھی رقم ہے
جس کے قافلے میں موجود ہے اس کی خوشبو
خواب کے عکس میں تھی جس کی تعبیر
جہاں بنتا ہے اور طرح کا نقشہ
اور ہوتی ہے عجب موسموں کی بارش
آدھی رات کی پوری کہانی ہے وہ
میری عمر کی افسردہ نشانی ہے وہ
یہی ترتیب
یہی پہچان ہے اُس کی
وہ اگر ملے
تو اُسے منظر کی الماری میں رکھ دینا
طارق علی میر
ڈورو شاہ آباد، اننت ناگ
موبائل نمبر؛7006452955
کیا حادثہ یہ ہوگیا
آذرؔ! کہوں کیا مجھ ہے آزار ان دنوں
معذور ہوکے گھر میں ہوں بیمار اِن دنوں
کیا حادثہ یہ ہوا دورانِ زیست میں
ٹانگیں ہوئیں دونوں میری بیکار اِن دنوں
کس جُرم کی پاداش میں دی رب نے سزا دوست
بے محل ہوئے ہیں زندگی کے آثار ان دونوں
ہوتا ہے مرا گھر کے اِک گوشے میں گُذر آج
آسیب زدہ جسکے ہیں در و دیوار اِن دنوں
جاتا ہوں رفع حاجات کو میں رینگ رینگ کر
اِک آسرا بھی اِس میں ہے درکار اِن دنوں
نفرت سی لگی ہونے اب اپنے وجود سے
محبوب لگے ہیں موت کے آثار اِن دنوں
المختصر رُوداد رقم ہے صبح و شام کی
ہوں ناگفتہ بہہ حالات کا شکار اِن دنوں
کہدوں جہان زیست کو اب الوداع عُشاقؔ
مجھکو دیا یہ ربؔ نے ہے اختیار ان دونوں
عُشاقؔ کشتواڑی
کشتواڑ، حال جموں
موبائل نمبر؛9697524469
کُرسی
سنا ترے ہاتھوں میں حنا سی لگی ہے
نگاہوں کے رستے بھی بڑے زود رس ہیں
کسی نے کہا یہی ہے سرشک باراں
اُچھالی کسی نے تیری یہ آبرو ہے
بتا ترا رنگ و روپ ہے کیا ہمیں بھی
دکھا ہمیں خون میں دھلے ہاتھ پاؤں
تمہیں تو پکڑ کے راج کیا ہے ہم نے
ترے لئے ہیں اُچھالے تھے تاج کتنے
زمین میں گڑھ گئے،ہیں اسیر بھی کچھ
مرے تو شہید مارے تو غازی ہیں ہم
نگل گئی تو نہ جانے ہی کتنے ہیں لال
اگل دیے تم نے ناگ پھَنی بھی شاید
خزان خرید لے گئی سب بہاریں
بہار حیات پہ خزاں اب ہے طاری
وہ رونَقِ بزم ،سیف و قلم نہیں ہے
ہے مہر سکوت اب لبوں پر لگی کچھ
اگر چہ دمِ مسیح نہیں ہے باقی
نوائے سروش کیوں ہے خموش بیٹھی
فضاؤں میں گونج بھی رہی ہے صدائیں
سرود خموش ہیں یہ مری نوائیں
یاورؔ حبیب ڈار
بٹہ کوٹ ہندواڈہ
[email protected]
چراغِ شب
چاند چمک رہا ہے ستاروں کے درمیاں میں
خوشبوٗ مہک رہی ہے پُھولوں کے گلستان میں
اندھیرے ہیں جا گے جُگنوئوں کی روشنیوں میں
آسماں دَمک رہاہے تاروں کے جہاں میں
تصویر اُنکی صاف نظر آتی ہے چاند میں
جیسے کوئی شمع ہے روشن کسی آستان میں
ماناکہ چُھپا ہوا ہے اندھیروں میں اک سحر
وصل کی رات میری ہے کیوں مگر امتحان میں
کھویا ہوا تجھ ہی میں ہوں رات کے ہر پہر میں
آہ میری بھٹک رہی ہے نجانے کس بیاباں میں
آنکھوں آنکھوں میں کٹ رہا ہے رات کا سفر
کوسوٗں ہے دوٗر نیند میری درِ شبستان میں
وہ رات سہانی عطا کر ہویارکاملن
بیٹھا ہوں سرجُھکائے تنہا ؔتیری شان میں
قاضی عبدالرشید تنہاؔ
روز لین کالونی چھانہ پورہ سرینگر
موبائل نمبر؛9596200290
ہم کب ملے تھے
کب ملے تھے
عالمِ ارواح میں
کس کو معلوم ہے
پل پل گزرا تنہائیوں میں
روز ملنے کی تمنا دل میں
رکھ کر تجھے ڈھونڈتا ہوں
لمحہ لمحہ گزرتا ہے
لیکن تم نہ آئے دل رنجیدہ ہے
آنکھیں ترستی ہیں
تجھے کب
دیکھ لوں دوبارہ ۔۔۔۔۔۔
لیکن ڈر ہے مجھے
واپس جا کر مجھ میں
وہ خوبیاں پہلی جیسی کہاں ہونگی
دیکھنے سے پہلے ہی۔۔۔۔۔
مٹ نہ جاؤں ۔۔۔۔۔۔۔۔
سامنے تیرے حاضر ہونے سے پہلے
دامنِ صحرا میں
رقص بسمل ہوگا
کون کس حالت میں ہوگا
سب تمہاری طرف
دوڑ کر آینگے ۔۔۔۔۔۔
کوئی تو جل جاۓ گا
جب اک تجلی پڑ جائے گی
میں یہ اپنا چہرہ کیسے دکھلاؤں گا
ڈر تو یہی ہے ۔۔۔
میں مٹی سے مل کر مٹی ہی بن گیا
ڈر تو یہی ہے۔۔۔
سامنے آؤں تو راستہ کون دیگا
بد راہ کو راستہ کون دیگا
آیا ہوں تنہا واپس جانا بھی ہے تنہا
آخربے دم نکلا میں ۔۔۔۔۔
نالہ دل بے اثر نکلے ۔۔۔۔
اب بس اک امید ہے وابستہ تجھ سے
تیری رحمت جوش میں آئے گی
ہم پھر ملے گے آمنے سامنے
اے پردہ کشا ۔۔، اے پردہ کشا ۔
سبدر شبیر
موبائل نمبر؛9797008660