ماہرین فلکیات نظام شمسی میں نت نئی چیزیں دریافت کرنے میں سر گرداں ہیں۔ اس ضمن میں حال ہی میں سب سے تیز رفتار شہابیہ دریافت کیا ہے ۔جو صرف 113 دن میں سورج کے گرد ایک چکر مکمل کرتا ہے۔اس کا مدار بیضوی شکل کا ہے ۔اسی بناء پر یہ اپنے مدار میں گردش کرنے کےدوران سورج سے صرف دو کروڑ کلومیٹر کی قربت پر جا پہنچتا ہے۔ دوسری جانب سورج سے اپنی انتہائی دوری پر اس کا فاصلہ 11 کروڑ کلومیٹر سے بھی زیادہ ہوتا ہے، جو سیارہ زہرہ (وینس) کے مدار سے بھی زیادہ ہے۔اس کی جسامت تقریباً 1کلو میٹر ہے ۔ اس کو ماہرین نے ’’2021 پی ایچ 27‘‘ کا نام دیا ہے ۔جب یہ سورج کے قریب سے گزرتا ہے تو نہ صرف اس کی رفتار مزید تیز ہوجاتی ہے بلکہ اس کی سطح بھی شدید گرم ہو جاتی ہے اور اس کا درجہ ٔ حرارت بھی 500 سینٹی گریڈ کے لگ بھگ پہنچ جاتا ہے۔
اس کے مدار کو دیکھتے ہوئے ماہرین کا کہنا ہے کہ شاید یہ آج سے کروڑوں سال پہلے ’’شہابیوں کی پٹی ‘‘میں ہوا کرتا تھا۔یہ پٹی مریخ اور مشتری کے درمیان واقع ہے ۔البتہ کسی وجہ سے اس کا مدار متاثر ہوا اور اس نے اپنا راستہ بدل لیا۔اس کا موجودہ مدار بھی خاصا غیر مستحکم ہے۔ لہٰذا بہت ممکن ہے کہ آئندہ چند لاکھ سال میں یہ زہرہ، عطارد یا سورج سے جا ٹکرائے اور اپنا وجود ہمیشہ کے لیےختم کر دے یا پھر اپنے موجودہ مدار کے مقابلے میں بالکل مختلف مدار میں چلا جائے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے عجیب و غریب آسمانی اجسام کی دریافت سے ہمیں شہابیوں اور دُمدار ستاروں کی ابتداء سے متعلق جاننے میں خاصی مدد ملےگیاور نظامِ شمسی کے بارےمیں بھی مزید جان سکیں گے۔
سعودی عرب میں قائم کنگ عبداللہ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے سائنس دانوں نے نمکین پانی اور دھوپ کے ذریعے ٹھنڈک پیدا کرنے والا ایک ایسا نظام ایجاد کیا ہے جسے بجلی کی ضرورت نہیں ہوتی۔فی الحال یہ نظام تجرباتی مرحلے پر ہے اور اسے مختصر پیمانے پر آزمایا جاچکا ہے۔ماہرین کے مطابق اس نظام کی تیاری میں ’’حالت کی تبدیلی‘‘ کہلانے والا ایک قدرتی مظہر استعمال کیا گیا ہے۔
اس مظہر کے تحت، نمک کی ٹھوس قلمیں (سالڈ کرسٹلز) پانی میں حل ہوتے دوران توانائی جذب کرتی ہیں۔ یعنی کہ گرم پانی میں نمک کی قلمیں شامل کرنے پر وہ تیزی سے ٹھنڈا ہوجائے گا۔کئی طرح کے نمک استعمال کرنے کے بعد ماہرین کو معلوم ہوا کہ ٹھنڈک پیدا کرنے کے معاملے میں ’’امونیم نائٹریٹ‘‘ کہلانے والے نمک کی کارکردگی سب سے زیادہ ہے۔یہ پانی میں بہت تیزی سے حل ہوتا ہے۔
لہٰذا اس میں ٹھنڈا کرنے کی صلاحیت امونیم کلورائیڈ سے چار گنا زیادہ ہے، جو اس موازنے میں دوسرا سب سے بہتر نمک ثابت ہوا تھا۔ابتدائی تجربات کے دوران جب امونیم نائٹریٹ اور پانی کو
دھاتی کپ میں رکھا گیا تو صرف 20 منٹ بعد ہی پانی کا درجہ حرارت 25 ڈگری سینٹی گریڈ سے کم ہو کر 3.6 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا۔
بعدازاں بھی تقریباً 15 گھنٹوں تک اس دھاتی کپ کا درجہ ٔحرارت 15 ڈگری سینٹی گریڈ سے کم رہا۔ماہرین کا کہنا ہے کہ امونیم نائٹریٹ کا استعمال بڑے پیمانے پر مصنوعی کھاد بنانے میں ہوتا ہے جب کہ یہ بہت کم خرچ بھی ہے۔ماہرین کو اُمید ہے کہ ٹھنڈک پیدا کرنے والے کسی بھی نظام میں اس کا استعمال بہت آسان رہے گا۔اب اس نظام کو مزید بہتر بنا کر ایسی صورت میں لانے کی کوشش کی جارہی ہے، جس میں سورج کی گرمی سے پانی کو بھاپ بنا کر اُڑا دیا جائے اور بچنے والے امونیم نائٹریٹ کو ایک بار پھر سے استعمال کرلیا جائے۔
خشک اور صحرائی علاقوں میں پانی بچانے کےلیے اسی نظام کے ساتھ اضافی طور پر شمسی قرنبیق (solar stills) بھی لگائے جاسکتے ہیں جو بھاپ جمع کرکے اسے پانی میں تبدیل کریں اور دوبارہ سے اس نظام میں بھیج دیں۔تکنیکی طور پر ایسا ممکن ضرور ہے لیکن اس کےلیے ماہرین کو کئی ڈیزائن آزمانے ہوں گے، تاکہ ایک ایسا مؤثر نظام وضع کیا جاسکے جو نہ صرف بڑے پیمانے پر کارآمد ہو بلکہ کم خرچ بھی ہو۔