علم کا اصل مقصد ہے کہ ایک انسان اپنے خالق یعنی اللہ کو،اپنے آپ کو اور اپنے سماج کو پہچانے۔ اس کے علاوہ علم کا مقصد ہے کہ انسان پڑھائی کے باوصف اپنے درپیش مسائل کا حل ڈھونڈے ۔اپنے ارد گرد کے ماحول کےساتھ ساتھ سماجی مشکلات کا ازالہ کرنے کی بھی کوشش کرے اور اگر وسعت ہو تو مشکلات کا تدارک کرے۔ مزید براں وہ ایسے نئ چیزوں کو بنانے یا ڈھونڈنے میں کامیاب ہوسکے،جس سے زندگی آسانی سے گزاری جاسکے۔ یہ ساری چیزیں تب ہی حاصل ہوسکتی ہیں، جب طالب علم کو ایک ایسے نصاب کے تحت پڑھائی حاصل ہو سکے جس نصاب میں وہ اپنی نجی زندگی اور اپنےسماجی پہلوئوںکو ہر لمحہ ذہن میں محفوظ رکھ سکے۔ گیارہویں جماعت کی انگلش کتاب میں البرٹ آئنسٹائن کے بارے میں ایک مضمون موجود ہے۔ جس میں ایک تاریخ کے پروفیسر، البرٹ کو اس بات پر ڈانٹتے ہیں کہ وہ پڑھائی کی اصل تعریف کرتا ہے۔ البرٹ اپنے استاد سے مخاطب ہوکر کہتا ہے کہ’’ پڑھائی صرف دِنوں اور اُن کے تعلق سے ہوئے واقعات یا جنگوں کو یاد کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ جس تاریخ پر دو ملکوں کے درمیان جنگ ہوئی، اُس جنگ کی وجہ جاننا علم کہلاتا ہے‘‘۔ البرٹ اس نظام تعلیم سے چھٹکارا چاہتا تھا، جو اس کوبالآخر حاصل ہوتا ہے۔ اِسی جیسی حقیقت Isaac Asimov نویں جماعت کی انگلش کتاب میں مستقبل میں بارے میں لکھتے ہوئے کہتے ہیں’’ ایک زمانہ آئے گا، جب پڑھائی گھروں میں ہوگی اور اساتذہ کی جگہ کمپیوٹر ہونگے‘‘۔ اصل میں اس مضمون میں دو بچوں کے کرداروں سے وہ ہمیںیہ سمجھانا چاہتا ہے کہ پڑھائی کا’ کل‘ ایسا ہوگا۔ دو طلاب میں ایک بچی اپنی ڈائری میں جس کی تاریخ سال ۲۰۵۰ ہے۔ لکھتی ہے کہ مجھے آج یہ کتاب ملی۔ اس کو دیکھ کر بچے حیران ہوجاتے ہیں کہ ایک ایسا زمانہ ہوتا تھا کہ بچے ایک ہی کلاس میں جمع ہوتے تھے اور ان کو ایک ہی انسان پڑھاتا تھا، جو گوشت اور ہڈیوں کا بنا ہوا تھا۔ جس بات پر وہ زیادہ زور دیتے ہیں وہ یہ کہ وہ اُستاد مختلف بچوں کو کیسےایک ہی سبق پڑھاتا تھا۔
اگر ہم مندرجہ بالا باتوں پر غور کریں، تو یہ بات کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ ہمارے یہاں تواریخ کے واقعات کو پڑھائی کا نام دیا جاتا ہے اور اس کے لئے الگ الگ بچوں کے دماغوں کو پڑھائی سے پہلے دھیان میں نہیں لایا جاتا ہے کہ کیا واقعی یہ پڑھائی اس بچے کے لئے موزوں ہے کہ نہیں؟ بس صرف اتنا پتہ چلتا ہے کہ نصاب بنانے والے بڑے پروفیسر ہیں اور وہ غلط نصاب تیار نہیں کر سکتے۔ انہوں نے ہی آج تک بڑے بڑے سائنسدان اور سیاست دان تیار کئے ہیں۔ انہی باتوں کو بنیاد بنا کر ایک سوال پوچھنے والے کے منہ پر قفل لگایا جاتا ہے۔ اس مرحلے تک پہنچے میں بہت وقت اور بہت سارے وجوہات کا عمل دخل ہوتا ہے، جس کی وجہ سے ہم تعلیم کو ایک ترقی یافتہ عمل بنانے سے قاصر رہےہیں۔ یہاںخاص طور اس نصاب کی بات ہوگی جس نے اصل میں تعلیم کے نظام کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔
پہلا ہے پرانی سوچ:_ہم آج بھی اُسی دور میں جی رہےہیں، جس میں پڑھائی کا مقصد محدود تھا۔ ایک گاؤں میں کچھ لوگ پڑھا کرتے تھے اور باقی دوسرے کاموں سے اپنا پیٹ پالتے تھے۔ اُس دور میں پڑھائی کچھ مخصوص معاملوں تک محدود تھی، جیسے خط پڑھنا، خط لکھنا، اخبار پڑھنا، زمین کے کاغذات کس کے نام پر تھے، وہ پڑھناوغیرہ، یہی علم کہلاتا تھا۔اس کے علاوہ فارم کو بھرنا بھی علم تصور کیا جاتا تھا۔ مگر آج تحقیق اور تجسّس کا زمانہ ہے۔ اَن پڑھ کو بھی آج کے زمانے میں پڑھنا ضروری ہے۔ جو کل تک ناممکن تھا، آج وہ ممکن ہوچکا ہے۔ خدا کی تلاش، انسان کے وجود کی تلاش، زمین کی گہرائیوں تک رسائی وغیرہ،دورِ حاضرہ کے معجزات ہیں۔ ان سب چیزوں نے علم کے نقشے کو ہی بدل کے رکھ دیا ہے۔ اب اگر کوئی بچہ آج کے زمانے میں علم حاصل کرنا چاہتا ہےتو پہلے ہی اس کے ہاتھ میں فون کی شکل میں’’دنیا‘‘ ہے۔گویا ہاتھ میں دنیا پہلے ہی سے موجود ہے ،جس سے وہ کچھ ہی لمحوں میں سرحدوں سے دُور دنیا کے بڑے بڑے پروفیسروں سے جڑا ہوا ہے، تو ایسے میں اسکول بھی ایسا ہی ہونا چاہیے مگر اسکول میں اُسی بچے کو وہ پڑھایا جاتا ہے، جس کا حقیقی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایک کلاس میں بچوں کو بند کرنا اور سوال پوچھنے پر ڈانٹنا، کسی بھی طریقے سے پڑھائی کے زمرے میں نہیں آتے۔
دوسرا ہے انفرادی خصوصیات کو نظر انداز کرنا: موجودہ نصاب میں ایک طالب علم کی انفرادی خصوصیات کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ ایک بچہ دوسرے بچے سے ہر لحاظ سے الگ ہے۔ ہربچہ دنیا کو اپنی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ وہ سماج کو، معاشیات کو، اخلاق کو، سیاست وغیرہ کو الگ ہی زاویہ سےپرکھتے ہیں۔ ان کی دماغی بناوٹ، جسمانی قوت، جذباتی پختگی، ردعمل کاطریقہ، دوسروں سے ملنے کے انداز، وغیرہ سب کچھ مختلف ہوتے ہیں۔ تو ایسے میں ایک ہی قسم کا نصاب کہاں کی دانائی ہے۔ اس ماحول میں ایک طالب علم بالکل ضائع ہوکر رہ جاتا ہے۔ بظاہر وہ ہر روز اسکول جاتا ہے اور اچھے مارکس بھی لاتا ہے، مگر اس کی اصلی پہچان ختم ہوجاتی ہے۔ اس کو ہم conditioning کہتے ہیں۔ جو بچہ نہیں ہوتا ہے، وہ وہی بن جاتا ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے جب یہ سارے پرتیں گرنے لگتی ہے اور یہ سماج ill-educated کہلاتا ہے۔ اس کی لاکھوں مثالیں ہمارے اردگرد کے ماحول میں پائی جاتی ہے۔
تیسرا ہے دوسروں کی نقالی: ہمارے یہاں عام طور پر دوسرے قوموں سے یا تعلیمی اداروں سے اچھی چیزیں سوچے سمجھے بغیر اٹھائی جاتی ہے، جس سے نصاب پر بُرا اثر پڑتا ہے۔ طلاب ان چیزوں کے لئے تیار نہیں ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے تعلیم کا نقصان ہوجاتا ہے۔ مغربی ممالک انٹرنیٹ کی دنیا میں بہت آگے ہیں۔ اگر یہی چیز ہندوستان کے نصاب میں داخل کی جائے تو یہ بے معنی شئے ہے۔کیونکہ جہاں اسکول نہیں، موبائل فون نہیں، انٹرنیٹ ٹاورس کی مناسب تعدادنہیں ہے، جہاں غریبی کی سطح سے نیچے کروڑوں لوگ رہتے ہیں،جگی جھونپڑیوں زندگی بسر کرتے ہیںیافُٹ پاتھوں پر دن رات گذارتے ہیں، وہاں ایسا سوچنا ہی غلط ہے۔ ہمارے یہاں یہ عادت سی بن چکی ہے کہ سہولیات اور درکار چیزوں کی نایابی اور عدم دستیابی کے باوجوددوسروں کی نقالی کرکے اپنے یہاں رائج کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پھر اس کا نتیجہ کیسابھی ہو،اُ س کے متعلق سوچنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی ،اور ہر معاملہ یہی کہا جاتا ہےکہ آگے دیکھا جائے گا۔
چوتھا ہے امتحانات کی ریل پیل: ہمارا نصاب امتحانات کا مرکز بن چکا ہے۔ کلاس میں داخل ہونے سے پہلے ایک طالب علم کو کہا جاتا ہے کہ سال میں دس بارہ امتحانات دینے ہیں اور اسلئے اپنے آپ کو اس کے لئے تیار رکھنا چاہیے۔ نصابی کتابوں کو یا پھر کسی گائیڈ سے بھی ان کو حفظ کرلو۔ اس سے بچوں کے اذہان پر دباؤ پڑتا ہے اور علم صرف دباؤ کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ اس سے نہ صرف طلاب بلکہ بچوں کے ماں باپ بھی زیادہ پریشان رہتے ہیں کہ ہمارے بچے امتحانات میں کیسا کام انجام دیتے ہیں۔
پانچواں اور آخری ہمارا رویہ: ہم چونکہ سُستی سے کام لینے کے عادی ہوچکے ہیں اور جیسا چل رہا ہے اس کوویسا ہی چلنے دیتے ہیں۔ ہم یہ بھی کوشش نہیں کرتے ہیں کہ تبدیلی کی طرف قدم بڑھائیں اور پڑھائی کو زندگی بنائیں۔ اگر دواران حصول ِعلم بعض بچے خودکشی کرتے ہیں، تو حرج ہی کیا ہے۔ ہمارا سماج بچوں کو ہی مورد الزام ٹھہراتا ہے اور اس نصاب کو بدلنے کی کوئی بھی دھیان نہیں دیتا ہے۔
اب وقت کی ضرورت ہے کہ نصاب کو خوش نصاب بنایا جائے، جسے بچے بغیر کسی خوف و ڈر کے دلچسپی کے ساتھ پڑھ سکیں اور جی بھی سکیںاور وہ مشکلات کا مقابلہ کرنےکے ساتھ ساتھ ان کا حل ڈھونڈنے میں کامیاب ہوسکیں اور سب سے ضروری بات یہ کہ وہ پڑھائی کو روزگار کا ذریعہ بناسکیں۔ اس کی طرف گاندھی جی نے بھی توجہ مبذول کرائی تھی۔ تو آیئے علم کو ہم ترقی اور انسان بنانے کا ذریعہ بنانے کی کوشش کریں۔
حاجی باغ، زینہ کوٹ، سرینگر،رابطہ۔7889346763
(مضمون نگار الھدیٰ کوچنگ سنٹر مصطفیٰ احمد، عمرباد، زینہ کوٹ میںمدرس ہیں)