میں نے اوپر کی سطور میں کہیں مکہ میوزئم کی سر سری بات چھیڑی تھی۔اس پر اپنے ایک مکرم و مشفق دوست نے مکہ میوزئم کے بارے میں مزید معلومات قارئین کو دینے کی قابل قدر تجویز لکھ بھیجی۔ ہمیںاس میوزئم کی مختصر سی سیر مکہ معظمہ میں کپوارہ کشمیر کے ایک مدرس جناب معراج الدین صاحب نے کرائی۔ انہوں نے ایک دن طے شدہ پروگرام کے مطابق بعدازحج ہم چند ساتھیوں کو اپنی گاڑی میں بٹھا یا اور از راہِ کرم یہ میوزیم دکھایا۔ میوزئم میں تاریخی نوعیت کے بہت سارے نوادرات نمائش کے لئے رکھے گئے ہیں، جن میں خصوصی طور دو اہم یادگاریں آنکھوں کو تراوت بخشتی ہیں : اول جامع قرآن حضرت عثمان غنی ذی النورین رضی اللہ تعالیٰ وجہہ کا تیار کردہ نسخہ ٔ قرآن ( جس کی فوٹو اسٹیٹ کاپی میوزئم میں ہے ) جسے آپ ؓ نے اپنے دورِ خلافت میں تیارکروایا تھا ، دوم ۶۵؍ ہجری میں حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے کا ساگوان کی لکڑی کا لمبا ستون جو نو تعمیر شدہ کعبہ کے اندر انہوں نے نصب کرایاتھا۔ علاوہ ازیں میوزئم میںبیت اللہ میں زیراستعمال بئر زم زم کا جنگلہ، پرانی وضع قطع کا بھاری بھرکم گھڑیال، منبر ومحراب، دروازے اور دیگر ظروف وغیرہ جوتُرک عہد سطانی اور سعودی حکومت سے تعلق رکھتے ہیں ۔ایک عام تاثر یہ ہے کہ حرمِ مکہ میں اسلام سے متعلق جتنے بھی آثار و نودارات پائے جاتے تھے،انہیں سعودی حکومت نے محفوظ رکھنے میں کوئی دلچسپی نہ دکھائی، ورنہ یہ میوزئم آج ہرا عتبار سے مالا مال ہوتا۔ میوزئم آ نے والے ہر شخص کے ہاتھ واپسی پر ادارے کی طرف سے قرآن کریم کا دیدہ زیب نسخہ تحفتہً تھمایا جا تاہے ۔ بہتر رہتا اگر میوزئم کے بارے میں کو ئی بروشرلوگوں میں جاتے وقت دیاجاتا ہے۔
ہماری ہی طرح مکہ معظمہ میں بہت سارے حاجیوں اور معتمرین کے دل میں طائف جانے کا شوق ہمیشہ انگڑائیاں لیتا رہتاہے ۔ ا س دلی شوق کا ناجائز فائدہ اُٹھاکر بعض چالو قسم کے ٹیکسی ڈرائیور زائرین کو ٹھگتے ہوئے طائف دکھانے کے وعدے پر گاڑی میں بٹھا بھی دیتے ہیں مگر جو نہی گاڑی آگے حدودِحرم پار کرتی ہے تو ہمہ وقت چوکس وفرض شناس سعودی پولیس اہل کار بغیر سرکاری اجازت نامے کے زائرین کو واپس مکہ شریف لوٹا دیتے ہیں۔ ہم نے قبل ازوقت یہ بات سنی تو طائف جانے کا خیال دل پہ پتھر رکھ کر نکال دینے میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔جان کار لوگوں نے ہمیں یہ نیک مشورہ دیا کہ طائف دیکھنے کے شوق پر اگر سرکاری اجازت نامہ ثبت ہو تو وہاں بلاتوقف وترددجانا چاہیے تاکہ اس مقدس شہر میں خوشبوئے رسولؐ سے اپنے مشام ِجان میں تروتازگی آجائے لیکن اگر ضروری اجازت نامہ ہو تو فبہا ورنہ ارض ِمقدس کے قاعدے قانون کا صدق دلانہ احترام کرنا ہر ہی فرض عین ہے ۔ ہمیں یہ بات گرہ میں باندھ لینی چاہیے کہ حرمین میں رائج ونافذ تمام سرکاری قوانین حاجیوں اور زائرین کے بہتر ین مفاد میں ہوتے ہیں بلکہ یہ سب کے سب انہی کے آرام وسہولت کے لئے وضع کئے گئے ہیں، لہٰذا انہیں توڑنے کا جرم کسی بھی حال میں نہ کیا جائے ۔ علمائے اسلام کی بھی حاجیوں اور عمرہ کر نے والوں کو یہی نصیحتیں ہوتی ہیں کہ دیدہ ودانستہ حجاز میں قانون شکنی کرنا حج وعمرہ کی اصل روح کے منافی ہے ۔
طائف ایک صحت افزا اور خنک موسم والا تاریخی مقام ہے مگر اب اس وقت نہ وہاں کہیں وہ شہر پناہ موجود ہے جو اس جگہ کی وجہ ٔ تسمیہ ہے ، نہ وہ قلعہ ہے جس میں محصور ہوکر اہل ِطائف نے قبل از اسلام پیغمبراسلام صلی ا للہ علیہ و سلم اور مجاہدین ِاسلام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا مقابلہ کیا، نہ اُن گلیوںکا کہیں نام ونشان ہے جو آپ ؐ پر سنگ ریزوں کی بارش کے دلدوز منظر کی عینی گواہ تھیں ، نہ وہ باغ کہیں جلوہ افروز ہے جہاں آپ ؐ نے زیدبن حارثہ ؓ کے ہمراہ کچھ دیر انتہائی دُکھ اور تاسف کی فضا میں سستایا اور انگور نوش فرمائے۔
بہرصورت زائر ین کواگر موقع اور فرصت نصیب ہو تو حرم ِ کعبہ کے بہت کم فاصلے پر مشرق میں واقع ایک پہاڑی کے گھاٹی میں مسجدجن کے قرب میں جنت المعلیٰ کی زیارت پر اُنہیں لازماًجانا چاہیے ۔ مورخ مکہ فاکہی کہتا ہے کہ مکہ معظمہ کی تمام پہاڑی گھاٹیاںروبہ قبلہ نہیں، سوائے اس پہاڑی گھاٹی کے جس میں جنت المعلاۃ ہے کہ یہ خط مستقیم سے رُخ بہ قبلہ ہے۔ مسند احمد میں اس مقبرہ کی فضلیت مآبی کے تعلق سے مذکور ہے کہ آپ ؐ نے اس بارے میں فرما یا: ’’یہ مقبرہ کیا ہی اچھا ہے‘‘ ۔یہاں اُم المومنین حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آرام فرماہیں ۔ آپ ؓ کے علاوہ اس عالی شان گورستان میں بعض صحابہ ؓ کے علاوہ آپ ؐ کے دادا محترم عبدالمطلب اور دوسرے متوسلین آسودہ ٔخاک ہیں ۔ نیز یہ کئی ایک برزگان ِ دین کی بھی آخری آرام گاہ ہے ۔ ہم نے جنت المعلیٰ کی زیارت فولادی جنگلے سے باہر باہر ہی سے کی کیونکہ یہ مقفل رہتا ہے۔ مکہ معظمہ سے تقریباًبیس کلومیٹر سرِف نامی جگہ شاہراہ ہجرہ پر اُم المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مرقد مبارک ہے ۔ ۷ ؍ھ میں یہیں پر اپنے قیام کے دوران آپ ؐ نے حضرت میمونہ ؐ اپنے عقد ِنکاح میں لایا اور یہیں پر سنہ ۵۱؍ھ میں آپ ؓ کا وصال ہوا اور آپ ؓیہیں پر آرام فرما ہوئیں ۔
جنت المعلیٰ کے قبرستان کے قرب وجوار میں سہ عدد تاریخی مساجد واقع ہیں ۔میں نے اپنے قافلے میں شامل ایک معزز ومحترم حاجی صاحب جناب معراج الدین شاہ صاحب،آف بژھ پورہ کے ہمراہ ان تین مساجد کی زیارت کرکے ان میں نفل نمازوں کی سعادت پائی۔ سب سے پہلے ہم نے مسجد جن کی زیارت کی ۔ایک مصروف بازار میںبرلب سڑک واقع اس مسجد شریف کی وجہ ٔ تسمیہ یہ ہے کہ یہاں جنات کی ایک جماعت نے اسلام پر بیعت کی۔اُس وقت آپ ؐ کے ساتھ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ بھی تھے ۔ آپ ؐ نے زمین پر ایک دائرہ کھینچ کر اُنہیں ہدایت دی کہ اس سے باہر نہ آئیں ۔ اس مسجدکی تجدید ۱۴۲۱ھ میں کی گئی ہے ۔ یہ مسجد حرس کے نام سے بھی موسوم ہے ۔ اسی مسجد کے بالکل متصل مسجد شجرہ واقع ہے ۔ یہاں ہم نے نفلیں اداکیں۔ اس مسجد شریف کے بارے میں مشہور ہے کہ یہاں ایک نادر الو قوع معجزہ رونما ہوا۔ حضرت عمرؓ کی روایت ہے کہ ایک موقع پر پیغمبر کریم ؐ حجون میں تھے کہ مشرکین ِمکہ نے آپؐ کو جھٹلایا ، کفار کی اس گناہ گارانہ روش سے آپ ؐ دلبرداشتہ ہوئے اور دعا فرمائی: اے اللہ! آج مجھے کوئی ایسی نشانی دکھا دیجئے کہ پھرمجھے کسی کی تکذیب کی پرواہ نہ ہو ۔ آپ ؐ سے عرض کیا گیا کہ درخت کو اپنے پاس بلایئے ۔ آپ ؐ نے ایسا ہی کیاتو درخت آپ ؐ کے بلاوے پر چل کر آپ ؐ کی خدمت ِاقدس میں حاضر ہوا۔آپ ؐ نے اس درخت کو واپس جانے کا حکم دیا توہ اپنی جگہ پرواپس چلاگیا۔ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: آج کے بعد مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ میری قوم مجھے جھٹلائے( مجمع الزوائد) ۔ مورخ فاکہی (مولف’’ اخبار مکہ‘‘) کی رائے یہ ہے کہ اس معجزے کا مطالبہ جنات نے کیا تھااور اسے دیکھتے ہی جّن آپ ؐ کی صداقت نبوت کے بہ دل قائل ہوئے۔ جب جنات نے دیکھا کہ آپ ؐ نے درخت کو اپنے پاس بلایا تو وہ زمین چیرتا ہو ا چلاآیا اور پھر اسے اپنی جگہ واپس جانے کا حکم دیا تو وہ واپس مڑا، انہوں نے بلا تامل کلمہ ٔ شہادت پڑھا۔زیر قلم مسجد شجرہ اسی اہم واقعے کی یادگار ہے ۔ اسی مسجد شریف کے بالکل قریب مسجد رایہ ( پرچم اسلام والی مسجد) واقع ہے ۔ یہاں بھی شوق اور تعظیم کی داخلی دنیا سجدہ ریزیوں میں ڈھل گئی اور ہم نے نفل نمازاور دعا کی متاع سمیٹ لی ۔ اس مسجد کے بارے میں ابن ہشام کا کہنا یہ ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر چونکہ معلاۃ کی جانب سے آپ ؐ کا دورِ مسعود ہوا ، آپ ؐ نے یہاں ٹھہر کر صحابہؓ کو دین ِاسلام کی پرچم کشائی کی ہدایت دی۔ امام بخاری ؒ اپنی صحیح کے باب المغازی میں فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر نے حکم صادر فرمایا کہ آپ ؐ کا جھنڈا حجون کے اسی مقام پر زمین پر نصب کیا جائے ۔ اسی ساعت خوش بخت کی یاد میں حضرت عباس رضی ا للہ تعالیٰ عنہ کی اولاد میں سے عبداللہ بن عباس ؒ نے بعد میں یہاں مسجد رایہ کے نام سے یہ خانہ ٔ خدا تعمیر کیا ۔ یہ مروہ سے تقریباً ۵۵۰؍میٹرکی دوری پر واقع ہے ۔ مسجدالحرام کی قربت میں اُن مساجد میں جاکر نماز ودعا کا اپنامزا ہے ۔ واضح رہے کہ ان تینوں مساجد میں نماز پنج گانہ بھی باضابطہ اداہوتی ہے ۔ اس کے علاوہ بھی بہت سارے تاریخی اہمیت کے مقامات یہاں جابجا موجود ہیں ۔
کئی بار مکہ ٹاور کی سڑک سے گزرتے ہوئے میری نگاہ ایک ایسے سائن بورڈ پر مرکوز ہوئی جس پر تراحم جلّی حروف میں درج تھا،اس کے نیچے اردو اور انگریزی میں بالترتیب خیراتی ادارہ اور چیرٹیبل آرگنائزیشن کاترجمہ موٹے حروف میں لکھا ہوا دیکھا ۔ میں نے ازخودسمجھ لیا کہ تراحم کا مادہ چونکہ رحم ہے ،اس لئے ہو نہ ہو یہ کوئی خیراتی انجمن ہے ۔ کئی بار میں نے اس دوکان نما دفتر کادروازہ کھولا مگر ہر بار اسے مقفل پایا۔ میری خواہش تھی کہ اس ادارے کو کچھ تھوڑا بہت چندہ دے کر اپنی خطاؤں لغزشوں کا کفارہ اداکرسکوں۔ اتفاق سے ایک موقع پر دروازہ کھلاتھا تو اند ر گھس آیا۔ یہاں ادھیڑ عمر کا ایک عر ب کرسی پر براجمان تھا۔ سلیک علیک کے بعد میں نے ا س سے بات کرناچاہی مگر نہ میں عربی جانتا تھانہ وہ انگریزی سے شناسا تھا۔ اشاروں کی زبان میں اس نے بڑی خندہ پیشانی سے میری آمد کی غرض پوچھی تو میں نے کچھ ریال نکال کر اس کے ہاتھ میں تھمادئے۔ وہ صدقہ صدقہ کہتے ہوئے رقم گننے لگا، پھر رسید لکھ کر میرے حوالے کی ۔ وہاں عربی زبان میں کچھ بروشر اور جیبی اشتہار ات کو اُلٹ پلٹ کر میں نے یہ یہی اخذ کیا کہ یہ ادارہ غالباً غریب قیدیوں اور ان کے محتاج ومفلس متوسلین کی کفالت کے لئے سرکاری طور چندہ جمع کرتاہے ۔ اس نے یہ اشتہارات اور رسید میرے حوالے کئے اور میں نے شکریہ کے ساتھ اپنی راہ لی۔ کاش کہ میں اس سے یہ سوال کرسکتا کہ ادارے کے اغراض ومقاصد کیاہے ا ور یہ کہ یہ اسٹال زیادہ دن بند کیوں رہتا ہے لیکن زبان کا مسئلہ دونوں طرف سے آڑے آیا ۔ یہ میری بڑی بد نصیبی ہے کہ میں عربی جیسی عظیم زبان سے نابلد ہوں۔
مکہ معظمہ سے رخصت لینے کی گھڑیاں قریب تر ہوتی رہیں، بالفاظ دیگر یہاں ہمارے قیام کی اُلٹی گنتی چل رہی ہے ۔ اب مدینہ منورہ کا رخت ِسفر باندھنے کی مبارک ساعتوں کا بے تابانہ انتظار دل و جگر پر حاوی ہونالازمی تھا۔ حرمین نہ ختم ہونے وا لی بہاروں کانام ہے ، یہاں ہر لمحہ ہر ساعت گل وبلبل والا معاملہ چلتا ہے ، ان پر ہمہ وقت یکسان طوراللہ کی رحمتیں برستی ہیں، ان میں ایک گلشن ہے تو دوسرا گلستان ہے مگر نہ جانے یہ سوچ کر کہ ہمیں اب کعبہ مشرفہ سے وداع لینا ہے ، دل کباب ہورہاتھا؟ یہاں ایک ایک نماز غنیمت سمجھ کر ہم زیادہ تر مطاف میں نمازیں اداکرتے رہے اور سبھی ساتھیوں کو کعبہ سے جدا ہونے کا خیال کلیجے پر چھری بن کر اندر ہی اندرنیم بسمل کررہاتھا کہ آنسوؤں کا پیمانہ بھی گاہے گاہے ضبط کے بندھن توڑ کر لبریز ہوتا رہا ۔ بے شک دیارِ حبیب ؐ جانے کی مسرتیںرُواں رُواں میں کیف و تلذذ کی مٹھاس بھر رہی تھیں، ا شتیاق کی بے تاب موجیں دل کے سمندر میں اضطراب پیدا کررہی تھیں،روح کی بے تابیاں عروج پر تھیں کہ وقت کا پہیہ سمٹ کر کب قافلہ ٔ عشاق کو آقائے مدنی ؐ کے شہر جنت فزاکا دیدار نصیب کرے، کب ہمارا قافلہ حرم ِ مدینہ کے ذرے ذرے کو بوسہ دینے کا شرف پائے، کب مسجد نبویؐ کی سحر انگیز اذان اور روح پرور نماز کی صورت میں ہم اپنی جبین ِ نیاز ا للہ کے حضور شکرانے میں جھکانے کااعزازپائیںلیکن کعبہ سے وداع لینے کی حسرتیں بھی طبیعت پر کچھ کم بار گراں نہ گزر رہی تھیں۔ شوق کا پنچھی بچھڑنے اور ملنے کی ان بے بیان کیفیات میں یہ نکتہ لے کر بیٹھا: ہم کیا ہماری بساط کیا؟ ایک لمحہ کے لئے ذرا سوچئے کہ پیغمبر اعظم وآخر صلی ا للہ علیہ و سلم نے بھی ایک بار مجبوری کی حالت میں اپنے دل کے قرار اور جگر کے سکون اس وطن مالوف سے اسلام کے دفاع میں ہجرت کی ، دوسری بار مدینہ میں اسلام کی بقاء کے لئے مکہ سے جدائی اختیار کی۔ اس لامثال قربانی کے صدقے جایئے! اسی سرزمین ِنور وسرور میں پیدا ہونے والے سعید روحوں نے سندھ وہند ،چین واسپین، مصر وروما تک دنیائے انسانیت کو پیغام ِ دین پہنچاننے کے لئے اپنے گھربار ، عزیزواقارب، رشتہ وپیوند، مال ومتاع غرض اپنی تمام دنیوی دلچسپیاں ترک کر دیں ، سمندروں کو پاٹ دیا ، صحراؤں کو پار کیا ، پہاڑوں پر چڑھے ، اُترائیوں میں اُترے، برف وباراں سے رُکے نہ موسم کی تپش و ٹھنڈک کو خاطر میں لایا ، یہی کرتے کرتے اللہ کے دین کی ابدی روشنی اس غیر متزلزل ایمان سے لوگوں تک پہنچاتے رہے کہ بندگان ِ خدا نوراسلام سے منور ہوں تو اس کے عوض اللہ کی طرف سے انہیں خوشنودیٔ رب کی خلعت اوردائمی جنت کا انعام نصیب ہو گا ۔ یہ عظیم المر تبت لوگ اپنوں سے اب دیارِ غیر میں ابدی آرام فرماہیں ۔
نوٹ :بقیہ اگلے جمعہ ایڈیشن میں ملاحظہ فرمائیں ، ان شاء اللہ