ماضی قریب میں ہمارے جن اسلاف نے قرآن و سنت کے گل ِسر سبدکو خون جگر دے کر سینچا، اُن میں میر محمد المعروف میر عالم صاحب کا نام نامی مشہورو معروف ہے۔ میر صاحب 22 ؍فروری 1927 کو دیارونی بتہ مالو کے ایک زمیندار خاندان میں تولد ہوئے ،والد محترم کا نام میر عبدالرحمن تھا۔ ابتدائی تعلیم بیسک اسکول امیراکدل سے حاصل کی، غربت و پسماندگی کا دور تھا۔ تعلیم زیادہ دیر جاری رکھ نہ سکے لیکن یہ اللہ کا اُن پر فضل خاص تھا کہ کم پڑھا لکھا ہونے کے باوجود ذہانت اس قدر اچھی تھی کہ بڑی بڑی کتب کا مطالعہ کرتے تھے ،گھر کا ماحول بہرحال دینی تھا، ایک جانب خاندان میر واعظ کا ڈنکا بجتا تھا تو دوسری جانب مولانا انور شوپیانی ؒ صاحب مولانا غلام بنی مبارکی ؒ صاحب ، مولانا عبدالغنی صاحب ؒکا غلغلہ تھا۔ میر عالم صاحب ؒ کے خاندان کو دونوں سے عقیدت تھی اور اکثر مولانا انور شوپیانی ؒ صاحب اور مولانا غلام نبی مبارکی صاحب ؒمیر صاحب کے گھر آ جاکر اخذ واستفادہ کر تے تھے۔ اپنے والد گرامی کے انتقال کے بعد مولانا عبدالغنی شوپیانی ؒ کے فرزندانِ ذی شان مولانا عبدالقیوم صاحبؒ اور مولانا بشیر صاحبؒ میر صاحب کے یہاں آتے جاتے ۔ اللہ تعالیٰ سب کو جوارِ رحمت میں جگہ دے۔ آمین
میرعالم صاحب طبعاً شاعر تھے۔زندگی کے ایک مرحلے پر شعر گوئی اُن کا مشغلہ بن گیا اور اللہ تعالیٰ کا فضل ِ خاص سے اُن کے کلام کا موضوع و عنوان اول تا آخر دین حق رہا۔ اُنہوں نے ہر صنف سخن میں طبع آزمائی کی، حمد باری تعالیٰ لکھی تو بے مثال لکھی، نعت خوانی میں قدم رکھانہ صرف یہ کہ خوب صورت نعت کہی بلکہ نعت کو بہر حال نعت ہی رہنے دیا، اسے مناجات اور استغاثہ نہ بننے دیا۔ اپنے اشعار میں مجالس توحید کا ذکر کیا تو آج بھی پڑھنے والا جھوم اٹھتا ہے۔ اخوت و بھائی چارے پر قلم اُٹھایا تو حق ادا کر دیا ،مکہ و مدینہ کے تعلق سے اُن کی شاعری انسانی ارواح کے لئے غذائے ایمان ثابت ہوئی۔ حجاج کرام سفر محمود پر روانہ ہوتے تو میرعالم صاحب کا قلم اُس وقت بھی خاموش نہیں بیٹھتا، اُنہیںمناسک حج قرآن و سنت کے احکامات کے تحت انجام دینے کی تلقین کرتا ۔اس مبارک سفر کے تعلق سےکس خوب صورت انداز میں حجاج کرام کوپندو نصائح سے نواز تے ۔ ایک نظم میں اپنے حسین انداز میں مکہ میں بارگاہ ِ توحیداور دیارِ مدینہ میں روضہ پاک کی حاضری کے لئے رقت آمیز دُعائیں کرتے ہیں۔اسی طرح عدل فاروقی ؓکے حوالے سے احسن انداز میں طویل گفتگو کی ہے کہ پڑھتے پڑھتے قاری اپنے آپ کو بالکل اُسی زمانے میں خودکو موجود محسوس کرتا ہے۔ کئی سبق آموز حکایات اپنے اشعار میں ایسے بیان کی ہیں جیسے موتیوں کو ایک لڑی میں پرویا ہو۔ ان نصائح کو پڑھنے اور ان سے درس حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ چونکہ زمانہ بے حجابی کا ہے ، قدرتی طور میر عالم صاحب کویہ چیز دل میں کھٹکتی تھی۔ بے پردگی ،عریانیت اور اخلاق سوزی کے خلاف اُن کے شعر وکلام نے خوب احتجاج کیا ہے۔ تلبیس ابلیس کے عنوان سے جواشعار کہے ہیں،باربار پڑھنے سے بھی جی نہیں بھرتا ۔جیسا کہ عرض کرچکا ہوں کہ جس دور میں وہ پیدا ہوئے یا اُن کے دادا و والد صاحب تولد ہوئے ہوں، میر واعظ خاندان کا طوطی بولتا تھا۔ اس لئے اس خاندان سے خاص مراسم و عقیدت تھی۔ بدیں وجہ تاریخ اقوام کشمیر سے اس خاندان کی بتدائی تاریخ کا ایک حصہ منظوماً میںقابل داد انداز میں پیش کیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ا س خاندان کی دینی ملی اور تعلیمی خدمات کو بھی بہت سراہا ہے۔ کشمیر میں تعلیمی بیداری پید ا کرنے کے لئے میر واعظ رسول شاہ صاحب ؒ کی مساعیٔ جمیلہ اورمیر واعظ محمد یوسف شاہ کشمیری ؒ صاحب نے کشمیری زبان میں قرآن حکیم کا جو ترجمہ اور مختصر تفسیری حواشی لکھی ہے، اُس بارے میںمیر عالم کے فی ا لبدیہہ اشعار واقعی ہر کس وناکس سے داد دپا کر رہتے ہیں۔
بہر حال میر محمد صاحب ایک راسخ العیقدہ مسلمان تھے اور قرآن و سنت کی ترویج و اشاعت اُن کی زندگی کا مقصد اول تھا۔ وہ تحریک توحید کے ساتھ وابستہ رہے، اس کے ہر حکم کی تعمیل ساری زندگی کردی، مولانا عبدالرشید طاہری صاحبؒ کی بے حد تکریم کرتے تھے، اور اُن کے تبحر علمی کے زبردست قائل تھے۔تحریک ِتوحید وترویج ِسنت جن صبرآزما حالات سے گذرتے ہوئے کامیابی کے مراحل ترقی کرتی رہی ،وہ طویل زمانہ تک اُس کے مشاہد و مددگار بنے رہے ، بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ وہ اس تحریک و تنظیم کے فروغ و پھیلاؤ میںنہ صرف عملاً سربکف رہے بلکہ اس توحیدی مشن کی کامیابی کے لئے ہمہ وقت ساعی وداعی رہے۔اس حوالہ سے اُن کی نظمیںاور اُن کے اشعار آج بھی دِلوں میں حرارت اور قلب میں گرما ہٹ پیدا کردیتے ہیں کہ توحیدی تحریک کس قدر ان کے دل و جان میں سرایت کرگئی تھی۔ آپ نے مولانا انور صاحب شوپیانیؒ کے کئی اشعار کی تضمین فرمائی ہے۔ توحید و سنت کا شیدائی ہونے کے ناطے میر عالم مرحوم کے کلام پر بس یہی رنگ غالب رہا، بات کسی بھی موضوع پرہو، توحید و سنت لازماً اس میں گھلی نظر آتی ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ اُن کے فرزند گرامی میر عبدالقیوم صاحب نے مرحوم کے کلام کے ایک بڑے حصہ کو’’ کلیات میر محمد ‘‘کے نام سے زیور طباعت سے آراستہ کراکے شائع کیا ہے۔
میر عالم صاحب ؒ کی زندگی کا ایک اور پہلویہ تھا کہ وہ ایک بے لوث داعیٔ حق تھے، ایک اچھے اورمنجھے ہوئے خطیب تھے، بات کرنے کا اپناایک منفرد انداز تھا ،تقریر و خطاب میں مشتعل نہیں ہوتے تھے، تلخ بات بھی لذیذانداز میں کہنے کا ملکہ رکھتے تھے ۔میرعالم صاحب ؒ طبابت میں بھی مہارت رکھتے تھے، اس لئے اس پیشے سے منسلک ہوکر بازار بٹہ مالو سری نگرمیں ایک دکان بھی تھی ،جہاں وہ جلدکی بیماریوں کا علاج کرتے تھے۔بہرحال22 جنوری2002 ء کو آخر وہ گھڑی آہی گئی جب ان کے نام پروانۂ اجل آگیا اور وہ 75 سال کی عمر میں سفر آخرت پر روانہ ہوئے۔ میرصاحبؒ آج ہم میں نہیں لیکن اُن کی داستان ِزندگی کے خوشنما اوراق ہر جانب بکھرے پڑے ہیںجو حسین بھی ہیں خوبصورت بھی اور دل نشین بھی ؎
مثل ایوانِ سحر مرقد فروزاں ہو تیرا
نور سے معمور وہ خاکی شبستان ہوتیرا
فون نمبر9419080306