مردِدرویش کا سرمایہ ہے آزادی ومرگ
ہے کسی اور کی خاطر یہ نصابِ سیم وزر
آج کل ہر طرف کسی نہ کسی لیڈر کی صد سالہ سالگرہ کا شوروغا سنا جارہاہے، جابجا لیڈروںکی جنم شتاپدیاں منائی جارہی ہیں لیکن برصغیر ہند و پاک کے مایہ ء ناز سپوت ،شعلہ بیان مقرر، جانباز مجاہد آزادی، درویش صفت قائد، دبے کچلے عوام کے غم خوار، فرنگی سامراج کے کٹر مخالف، تحریک آزادی کے سپہ سالار جس نے سارے برصغیر میںاپنی جادوبیانی سے طوفان برپا کردیاتھا، اس کی تقریب کو فراموش کردیاگیاہے۔ اس شخصیت کانام مولانا سید عطا ء اللہ شاہ بخاری ہے جنہیںرئیس الاحرار ، امیر شریعت پنجاب، بطل حریت، واعظ خوش بیان کے القاب سے بھی یاد کیا جاتاہے۔ مولانا سید عطا ء اللہ شاہ بخاری مجسم قربانی اخلاص ومحبت کے پیکر درویش صفت انسان، ممتاز سیاستدان، مذہبی رہنماء ، سوشل ریفامر، پارسا، حق گو ، اُردو فارسی اور عربی کے عظیم عالم، اعلیٰ پایہ کے شاعر تھے۔ ان کی زندگی جدوجہد آزادی کا روشن ترین باب ہے۔ ان کی آواز میں شیروں جیسی گونج تھی۔ ان کا شمار اپنے وقت کے صف اولین کے مقررین میںکیاجاتاتھا۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کے مقابلے کا مقرر برصغیر نے آج تک پیدا ہی نہیںکیا۔ ایسی شخصیت کوفراموش کردینا انتہائی احسان فراموش کے مترادف ہے۔
مولانا سید عطا ء اللہ شاہ بخاری کی پیدائش اب سے ٹھیک 128سال پہلے ریاست بہار کی راجدھانی پٹنہ میں 1891میں ہوئی تھی۔ ان کے والد کانام میر ضیاء الدین تھا۔ ان کی والدہ کانام سیدہ فاطمہ اندرابی ، نانا کانام حکیم حافظ سید احمد اندرابی تھاجو پٹنہ کے محلہ پوربی دروازہ میںرہتے تھے۔ مولانا کا خاندان روحانی دُنیا میں مانا ہواتھا۔ ان کے خاندان چونکہ بخار اسے ترک وطن کرکے آیا تھا، اس لئے بخاری کہلائے۔ مولانا ابھی چار برس کے ہی تھے کہ ان کی والدہ کاانتقال ہوگیا۔ 1912میںاکیس سال کی عمرمیں اکیلے ہی پنجاب کے شہر امرتسرمیں آکر مستقل طورپرآباد ہوگئے۔ ان کی شادی بھی امرتسر میں ہوئی۔ تقسیم برصغیر کے بعد امرتسر سے منتقل ہوکر پاکستان کے شہر ملتان پنجاب چلے گئے اور وہاں ہی 71سال کی عمرمیں 21اگست1961کو انتقال ہوا ۔ اُن کی لحد اِسی شہر میں موجود ہے۔
مولانا سید عطا ء اللہ شاہ بخاری کی سیاسی زندگی کاآغاز 1919میں رولٹ ایکٹ کے خلاف تحریک میں شمولیت سے ہوا۔ انہوںنے نہ صرف امرتسر پنجاب میںبلکہ پورے ملک میں فرنگی سامراج کے رولٹ ایکٹ کے خلاف تقاریر سے طوفان برپا کردیا۔ 9اپریل 1919کوامرتسر رام نومی کے تاریخی جلوس میں مولانا بھی شامل تھے۔ جس نے ہندو مسلم سکھ اتحاد کا بہترین نمونہ پیش کرکے اس جلوس کوخلاف سامراج مظاہرہ میںتبدیل کردیا تھا۔ 10اپریل1919کو امرتسر میں فرنگی حکمرانوں نے پُرامن جلوس پر گولیاں چلا کر بیس کے قریب ہندو مسلمانوں اور سکھوں کوشہید کردیاتھا۔ ان شہیدوں کو مشترکہ طورپر مولانا نے چوہدری بگامل کی معیت میں اپنے ہاتھوں سے مسجد خیر الدین میںغسل دیا۔ 13اپریل1919کو جلیانوالہ باغ کے خونیں واقعہ کے دوران مولانا سرگرمی سے تحریک آزادی میںکود پڑے۔ اس کے بعدانتہائی ظلم وستم ، قید وبند، گھریلو مصائب، انتہائی غربت بھی مولانا کواس پروقار راستے سے پھسلا نہ سکی۔ مولانا نے اپنی جوانی بلکہ ساری زندگی تحریک آزادی کی نذر کردی اور اس شعر پر پوری طرح سے عمل کیا۔
راستے میںرُک کے دم لے لوں، مری عادت نہیں
لوٹ کرواپس چلاجائوں مری فطرت نہیں
تحریک خلافت کے دوران 27مارچ 1921کو مولانا کو امرتسر میںگرفتار کرلیا گیااور انہیں تین برس قیدبا مشقت کی سزا ملی۔ یہ ان کی پہلی سزایابی تھی۔ اس کے بعد انہوںنے نمک ایجی ٹیشن ، سائمن ، کمیشن کے بائیکاٹ، انفرادی سول نافرمانی، جنگ میں انگریزوں سے ترک موالات کی تحریکات میںبڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ غرض کہ برطانوی سامراج کے خلاف کوئی بھی ایسی تحریک نہیں، جس میںمولانا نے نمایاں حصہ نہ لیا اور قید وبند کی صعوبتیں نہ جھیلیں ہوں۔ سائمن کمیشن کے خلاف لاہورمیں لالہ لاجپت رائے کے دو ش بدوش مولانا پہلی قطار میںتھے۔ تحریک آزاد ی کے دوران مولانا سات بار جیل گئے اور اپنی عمر کا ایک تہائی حصہ جیلوںمیں گزارا۔
1928میںمولانا نے انڈین نیشنل کانگرس سے بدظن ہوکر مجلس احرار الاسلام کی بنیاد رکھی ۔ وہ اس کے بانی صدر تھے۔ مجلس احرار نے برطانوی سامراج کے خلاف جدوجہد میں نمایاں حصہ لیا۔ تاریخ میں وہ سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔ مجلس احرار میںمولانا کے ہمراہ مولانا حبیب الرحمان لدھیانوی ، صاحب زادہ فیض الحسن، چوہدری افضل حق، آغازشورش کاشمیری، مولانا مظہر علی اظہر، شیخ حسام الدین، غازی عبدالرحمان ، قاضی احسان احمد شجاع آبادی، کامریڈ عبدالکریم وزیر آبادی اور دوسرے سینکڑوں جانباز اور نامور شخصیتیں شامل تھیں۔ مولانا کے علم اور عمل کا احترام کرکے علماء نے امیر شریعت پنجاب کے رُتبہ پرفائزکیا۔ مولانا کے علم وفضل اور جانبازی وشیردلی کاانداز ہ اس سے لگایا جاسکتاہے کہ وہ دارالعلوم دیو بند کے صدر المدر سین اور عالم مولانا انور شاہ جو کہ ایک لحاظ سے مولانا بخاری کے استاد تھے۔ 1930 میںلاہور کے انجمن خدا م الدین کے جلسے میں بخاری صاحب کے ہاتھ پر بیعت کی ۔ یہ بات حیرت انگیز تھی ۔ لیکن مولانا انور شاہ نے اس وقت کی نوجوان نسل کے قائد عطاء اللہ شاہ بخاری کی صلاحیتوں کا پورا اندازہ لگالیاتھا۔ اس سلسلے میں ’’انقلاب‘‘ لاہورمیں شائع شدہ ایک طویل نظم کے یہ مصرعے انتہائی قابل غور ہیں۔
کی ہے اک شاگرد کی استاد نے بیعت قبول
بڑھ گیا ہے مہر سے کس قدر رُتبہ ماہ کا
انقلاب آسماں دیکھو کہ اک ادنیٰ مرید
انور شاہ جیسا ہے عطاء اللہ کا
مولانا انور شاہ سید عطا ء اللہ شاہ بخاری سے اس قدر متاثرتھے کہ ہر وقت اُن کاحال احوال ہی نہیں پوچھتے رہتے تھے بلکہ علماء کوان کی تقلید کرنے کی ہدایت و تلقین کرتے تھے۔
مولانا سید عطا ء اللہ شاہ بخاری کی تقاریر میںعوام کی دلچسپی کا یہ عالم تھا کہ ان کی کوئی تقریر چھ گھنٹے سے کم نہیںہوتی تھی۔ بعض اوقات انہوںنے عشاء کی نماز کے بعدتقریر شروع کی اور فجر کی نماز کے موقع پر ختم کی۔ لیکن ہزاروں لاکھوں کا مجمع بت بنا سنتا رہتاتھا۔ اس مجمع میں اگر ایک تنکا بھی آگرے تو اس کی آواز سنی جاسکتی تھی۔ مولانا کی زبان میں جادو تھا۔ان کی تقریر اس قدر جذباتی ہوتی تھی کہ اگر حاضرین کورُلانے پر آتے تو لوگ زارو قطار اور زورزورسے رونے لگتے اور مولانا کی آنکھوں سے بھی آنسوئوں کی دھار بہہ نکلتی تھی اور پھر مولانا ہنسانے پر آتے تو لوگ کھلکھلاکر قہقہے مارنے لگتے۔ مولانا کی تقاریر سننے میں نہ صرف عوام بلکہ خواص بھی زبردست دلچسپی رکھتے تھے۔ مولانا کے گلے میں اتنا رس تھا ۔ مولانا کی قرآن کریم کی تلاوت کرنے کااندازنرالاتھا۔ اور انتہائی دلچسپ ہوتاتھا۔ جو سمجھتا تھا وہ تو سر دھنتا ہی تھا۔ لیکن جومعافی نہیںسمجھتاتھا ۔ وہ بھی سردھننے لگتاتھا۔ یہ ایک قابل امر واقع ہے کہ26اپریل1947کو جامع مسجد دہلی کے باہر مجلس احرارکا جلسہ تھا اور عطاء اللہ شاہ بخاری مقرر تھے۔ ان کی تقریر اور تلاوت قرآن کریم سُننے کے لئے لارڈ پیتھک لارنس جوکہ کرپس مشن کے سربراہ تھے۔ مولانا ابوالکلام آزاد اور پنڈت نہرو خصوصی طورپر شریک جلسہ ہوئے۔
مولانا سید عطا ء اللہ شاہ بخاری کو زیر کرنے کے لئے برطانوی استعمار پسندوں اور ان کے حاشیہ برداروں نے کئی حربے زیرِ کار لائے۔ لیکن وہ اس مرد مجاہد کی گردن طاغونی قوتوں کے آگے خم نہ کرسکے۔ اس طرح کی ایک کوشش سرسکندر حیات خان وزیر اعظم پنجاب نے بھی کی اور مولانا کے خلاف زیر دفعہ 103, 302وغیرہ کے تحت بغاوت وانگخیت قتل کا مقدمہ چلایا۔ اس مقدمے کی سماعت 11مارچ 1940کو لاہور ہائی کورٹ کے ایک بینج میںشروع ہوئی۔ جوکہ جسٹس ینگ اور جسٹس رام لال پر مشتمل تھا۔ اس مقدمہ کو ملک گیر شہرت ملی اور اس میںلدھارام نامی ہیڈ کانسٹبل چیف رپورٹر گواہ کی حیثیت میںپیش ہوا۔ لیکن بھری عدالت میںاس نے یہ اقرارکیا کہ اس نے بخاری صاحب کو تقریر کی رپورٹ اعلیٰ حکام کی ہدایت پر مرتب کی ہے ۔ اس سازش کوناکام کردیاگیا اورعدالت عالیہ نے شاہ صاحب کو باعزت طورپر بری کردیا۔
مولانا سید عطا ء اللہ شاہ بخاری کی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ ان کے سیاسی مخالفین بھی ان کا بے حد ادب واحترام کرتے تھے۔ حفیظؔ جالندھری مسلم لیگ کے حامی تھے اور بخاری صاحب مسلم لیگ کے کٹر مخالف ، حتیٰ کہ حفیظؔ جالندھری نے جب ’’نیرنگِ طلسمات ہے افرنگ کی دُنیا‘‘ کے عنوان سے نظم لکھنے کے بعد ایک انگریزی عورت سے شادی کی توبخاری صاحب نے بھرے مجمع میں اُن کا مذاق اُڑایا تھا لیکن حفیظؔ جالندھری نے بخاری صاحب کے متعلق جورائے ظاہر کی، وہ قابل ملاحظہ ہے۔ حفیظؔ جالندھری نے کہا ’’ دورِ اول کے مجاہدین اسلام سے ایک سپاہی راستہ بھول کر اس زمانے میں آنکلاہے ۔وہی سادگی، مشقت پسندی، یکسر عمل اخلاص ا ور للہیت جواُن میںتھی، وہ عطااللہ شاہ بخاری میںہے‘‘۔
مولانا سید عطا ء اللہ شاہ بخاری اپنے عقائد کے لحاظ سے انتہائی راسخ العقیدہ تھے۔ زندگی میںجو موقف انہوںنے اپنائے رکھا، اُسی کوتااختتام زندگی اپنائے رکھا۔ وہ تقسیم برصغیر کے مخالف اور مسلم لیگ کے نظریہ سے مخالفت رکھتے تھے۔ اگرچہ انہیںکانگریس سے بھی اختلاف رائے تھا لیکن وہ دونوں سے الگ رہ کر ’’مجلس احرار‘‘ کے پلیٹ فارم سے اپنا نظریہ بیان کرتے رہے۔ 1946میں جب کہ مسلم لیگ کی مقبولیت اور نظریہ ٔپاکستان کی قبولیت مسلم عوام میںاپنی آخری حدود تک پہنچ گئی ۔ اُس وقت بھی مولانا سید عطا ء اللہ شاہ بخاری برصغیر کی تقسیم کے خلاف بر سر پیکار رہے ۔ مولانا بخاری اورمجلس احرار نے شہید گنج کے تنازعہ میںشہید گنج کی واگزاری کی پوری کوشش کی لیکن جب پنجاب ہائی کورٹ نے اس کے گردوارہ ہونے کااعلان کردیا تو عوام الناس کوفتنہ وفساد سے بازرہنے کی تلقین کی۔ اس کے باعث ان کے سیاسی مخالفین نے ان پر سخت اتہام بازیاںکیں لیکن وہ اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ پاکستان بننے کے بعد بھی شہید گنج مسجد نہ بن سکی اور گوردوارہ ہی رہا تو 1958میں لاہور کے دلی دروازہ کے باہر بخاری پھر گرج دار آواز میں پوچھا کہ بخاری پر الزام تراشی کرنے والوں نے پاکستان بننے کے بعد شہید گنج کو گوردوارہ سے مسجد کیوں نہیںبنایا؟ حکمرانوں کے پاس ا س سوال کا کوئی جواب نہیںتھا۔ تنگ نظرہندو بخاری کو کٹرمسلمان اور فرقہ پرست سمجھتے تھے اور بعض لوگ ان کے خلاف کفر کے فتوے صادرکرتے رہے۔ مولانابخاری کسی کی بھی پرواہ کئے بغیر اپنے موقف پر مضبوطی سے قائم رہے اور علامہ اقبال کے اس شعر کا مصداق بنے رہے ؎
زاہد تنگ نظر نے مجھے کافر جانا
اورکافر یہ سمجھتا ہے کہ مسلماں ہوںمیں
مولانا سید عطا ء اللہ شاہ بخاری صد ق دلی اور مردانہ وار طریقہ سے تادم آخر اپنے موقف پر قائم رہے۔ نہ حکومتی جبر وتشدد انہیں مرعوب کرسکا اورنہ طمع ولالچ اُن کے پائوں میںلغزش پیدا کرسکے،نہ عوام کی کم فہمی اورتنگ نظری کے باعث کئی بار الگ تھلگ ہونے کا احساس انہیں اپنی راہ سے ڈگمگا سکا۔ شاید علامہ اقبالؔ نے ان کے ہی متعلق یہ شعر کہاتھا ؎
ہوا ہے گو تندوتیز لیکن چراغ اپنا جلا رہاہے
وہ مردِدرویش کہ جس کو حق نے دئے ہیں اندازِ خسروانہ
بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کشمیر النسل تھے۔ ان کے آباء واجداد ضلع بارہمولہ میںقصبہ پٹن کے قریب موضع کریری کے باشندے تھے اور یہیں سے جا کر انہوںنے ملک کے دیگر حصوںمیں رہائش اختیار کی تھی۔ بخاری صاحب کو کشمیر کے حالات و واقعات سے بہت دلچسپی تھی اور وہ اس خطہ کے زبردست خیر خواہوں میں سے ایک تھے۔ مولانا بخاری کی کوششوں اور اعانت کا نتیجہ تھا کہ تحریک حریت کشمیر کے ابتدائی ایام میں مجلس احرار نے تحریک کی بھر پور مدد کی اور اپنے ہزاروں رضا کارتحریک میںگرفتار کروائے لیکن شیخ عبداللہ کی قلابازیاں، تگڑم بازیوں اور موقع پرستیوں کو عطاء اللہ شاہ بخاری اور مجلس احرار کے دیگر اکابرین قبل از وقت ہی سمجھ کر یہاں کے معاملات سے دست کش ہوگئے۔ شاید عطاء اللہ شاہ بخاری پہلی شخصیت اور مجلس احرار پہلی سیاسی جماعت تھی ،جس نے شیخ عبداللہ کے اصل سیاسی چہرے کو ابتداء میں بھانپ لیاتھا۔ اس سے ان کی بالغ نظری کی داد دینی پڑتی ہے۔ شیخ عبداللہ نے اپنی سوانح عمری اور دیگر تحریرات کے ذریعے جموںوکشمیر میںمجلس احرار اورمولانا عطاء اللہ شاہ بخاری کونہ صرف کم تردکھانے کی ناکام کوشش کی ہے بلکہ ان کی اصلیت کو مسخ کرنے کی بھی کوشش کی ہے لیکن جموں وکشمیر کے عوام کی بیداری اور تحریک حریت کشمیر کی آبیاری میں سید عطا ء اللہ شاہ بخاری اور مجلس احرار نے جو کردار ادا کیا ہے،جب صحیح معنوںمیں تاریخ مرتب ہوگی تو تاریخ میں اُن کے کارنامے سنہری حروف میں لکھے جائیں گے اور ان کی اہمیت کو کم کرکے دکھانے والے اوراقِ تاریخ کی دھول میںغرق ہوجائیں گے۔ اس وقت اس کا عمل جاری ہے۔
وقت کی غالب کشمیر ی لیڈر شپ سے بیزاری کے باوجود اس ریاست کے میر پور ضلع کے سیاسی کارکنوں کے حضرت مولانا بخاری اور مجلس احرار کے ساتھ تعلقات انتہائی پر خلوص رکھنے میں راجہ محمد اکبر ، مولانا عبداللہ سیاکھوی، غازی عبدالرحمن، مولانا عبدالکریم ، حاجی عبدالوہاب کے علاوہ راقم( کامریڈ کرشن دیو سیٹھی) بھی شامل ہیںجنہوںنے مولانا بخاری کے زانوئے ادب میں سیاست اورخطابت کا ذوق وشوق سیکھا۔ ان حضرات کی تحریر اور تقریر میں جوروانی، شگفتگی و صفائی ہے، اس میں مولانا عطاء اللہ شا ہ بخاری کا بہت عمل دخل ہے۔ اگرچہ مولانا بخاری کو ہم سے جدا ہوئے 71؍سال کا عرصہ گزر چکاہے اور اُن کو فوت ہوئے بھی 57برس ہوگئے ہیں لیکن مولانا بخاری کی یاد ابھی تک ہمارے دلوںسے محو نہیںہوئی۔ ہم انہیں ہمیشہ ہدیۂ تبریک پیش کرتے ہیں۔
(بقیہ بدھ کے شمارے میں ملاحظہ فرمائیں)