منشی پریم چند کی مسلم دوستی۔۔قسط2

  پریم چند اسلامی تعلیمات سے بڑی حد تک متاثر تھے ۔ وہ اس بات کے معترف تھے کہ انسان کے بُرے اعمال کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہوتا ہے کہ اُس کا مذہب بُرا ہے بلکہ مذہب چاہے کوئی بھی ہو بذاتِ خود عظیم ہوتا ہے ۔ انہوں نے اپنے مضمون ’’کچھ اسلامی تہذیب کے بارے میں‘‘ میں اسلام کی عظمت اور تقدس سے متعلق اپنی رائے قائم کرتے ہوئے اسے ایک عظیم مذہب تسلیم کیا ہے ۔ پریم چند نے اسلام کے تصورِ انصاف ، سودخواری کی ممانعت ، تعلیم کی اہمیت اور افادیت ، مساوات ، بھائی چارہ ، تہذیب و آداب اور فن ِتعمیر کو بہت سراہا ہے ۔ بقول ان کے عمارت سازی میں شاید دنیا کی کوئی بھی قوم مسلمانوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی ۔ چنانچہ سودی کارو بار نے پوری دنیا میں افرا تفری پھیلا دی ہے لیکن اسلام وہ واحد مذہب ہے جس نے سود کے منفی اثرات کو مد نظر رکھ کر اسے حرام قرار دیا ہے ۔ مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اس کے بندوں کے ساتھ محبت کریں ۔اس طرح اسلام بھائی چارے پر بہت زور دیتا ہے ۔ دنیا میں امن و سکون قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ عدل و انصاف کی طرف بھر پور توجہ دی جائے ۔ منشی پریم چند اپنے مذکورہ مضمون میں اسلام کے تصورِ انصاف کی ستائش کرتے ہوئے اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اسلام کی روح اس کے فلسفہ انصاف میں چھپی ہوئی ہے ۔ 
’’ اسلام کی بنیاد انصاف پر رکھی گئی ہے ۔ وہاں سخی اور سوالی ، امیر اور غریب ، بادشاہ اور فقیر کے لیے صرف ایک ہی قانون ہے ۔ کسی کے ساتھ رعایت نہیں ، کسی کی طرفداری نہیں ۔ ایسی سینکڑوں روایتیں پیش کی جا سکتی ہیں جب بے کسوں نے بڑے بڑے طاقتور عہدیداران کے مقابلے میں انصاف کے بل پر فتح پائی ہے ۔ ایسی مثالوں کی بھی کمی نہیں جہاں بادشاہوں نے اپنے شہزادوں ، اپنی بیگمات یہاں تک کہ خود اپنے آپ کو انصاف کے آگے قربان کر دیا ہے ۔ دنیا کے کسی مہذب سے مہذب سوسائٹی کے اصولِ عدل کا اسلام کے اصولِ عدل سے مقابلہ کیجیے ۔ آپ اسلام کا پلڑا بھاری پائیں گے ۔ زوال پذیر ہونے پر سبھی قوموں کے اصول بے معنی ہو جاتے ہیں ۔ اس میں ہندو ، مسلم عیسائی کسی کی قید نہیں ۔ آج ہم مسلمانوں کو تعصب سے بھرا ہوا پاتے ہیں لیکن جس زمانے میں اسلام کا جھنڈا کٹک سے لے کر ڈینش تک اور ترکستان سے لے کر اسپین تک لہراتا تھا ۔ مسلمان بادشاہوں پر غیر مسلموں کو مامور کرنا تو معمولی سی بات تھی ۔ اس دور کی یونیورسٹیوں کے شیخ الجامعہ تک عیسائی اور یہودی ہوا کرتے تھے ۔ اس عہدے کے لیے صرف لیاقت اور تعلیم و مطالعہ کی شرط تھی۔ مذہب سے کوئی تعلق نہ تھا ۔ سبھی یونیورسٹیوں کے درواز وں پر یہ لفظ کھدے ہوئے تھے ۔ ’’ زمین کی بنیاد صرف چار چیزوں پر ہے ، دانشوروںکی ذہانت ، متقیوں کی عبادت ، جانبازوں کی فتوحات اور طاقتوروں کی انصاف پسندی ۔‘‘ 
عہد پریم چند میں جب بھی اسلام اور مسلمانوں پر من گھڑت الزامات لگا کر ان کے ناک نقشے کو بگاڑنے کی کوششیں کی گئیں تو پریم چند نے غیر جانبدار ہو کر نہ صرف کوششوں کی مذمت کی بلکہ اسلام کی صحیح ترجمانی کے لیے آگے آکر قلم کو بجائے تلوار استعمال کیا ۔ حالانکہ اس سلسلے میں ان کو بھی بار ہا ہدفِ تنقید ہونا پڑا ۔ چنانچہ اسلام دشمنوں نے ہمیشہ یہ الزام عاید کیا کہ یہ دین پیار و محبت سے نہیں بلکہ تلوار سے پھیلایا گیا ہے ۔ پریم چند نے اس طرح کے الزام کی جس طرح تردید کی شاید اور کوئی قلمکار نہیں کر سکتا ہے ۔ انہوں نے مستند تاریخی شواہد کے بل بوتے پر یہ حقیقت ثابت کر کے دی کہ اسلام کی تعلیمات میں ایسی کشش بدرجہ اتم موجود ہے جو عالم انسانیت کو اپنی طرف بآسانی راغب کر سکتی ہے ۔ 
’’ یہ بالکل غلط ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ۔ تلوار کی طاقت سے کوئی مذہب نہیں پھیلتا ۔ بھارت میں اسلام پھیلنے کی وجہ اونچی جاتیوں کے ہندوئوں کا نیچی جاتی کے ہندوئوں پر مظالم تھے ۔ اسلام کی آغوش میں آتے ہی تمام نا پاکیاں اور نا برابریاں دُھل جاتی تھیں ۔ وہ مسجد میں امام کے پیچھے کھڑا ہو کر نماز پڑھ سکتا تھا ۔ بڑے سے بڑے سید زادے کے ساتھ ایک دستر خوان پر بیٹھ کر کھانا تناول کر سکتا تھا ۔ وہاں کوئی نہیں پوچھتا تھا کہ فلاں شخص کیسا اور کس طبقے کا مسلمان ہے ۔ وہاں تو بھی مسلمان ہیں اس لیے نیچوں ( ہندوئوں کے نچلے طبقے ) نے اس نئے مذہب کا خوشی سے استقبال کیا اور گائوں کے گائوں مسلمان ہو گئے ۔ ان کی نظر میں اسلام ایک فاتح دشمن نہیں ایک فراخ دل (مذہب ) تھا ۔ اسلام تلوار کے زور سے نہیں بلکہ اپنے خصائل کے ظہور کی طاقت پر پھیلا ۔ اس لیے کہ اس کے یہاں سبھی انسانوں کے حقوق برابر ہیں ۔
مسلمانوں کے ساتھ ادبی رشتوں کے علاوہ پریم چند کو ان کے ساتھ گہرے گھریلو تعلقات بھی تھے ۔ بعض مسلم دوست ان کو افراد خانہ سے ذرا بھی کم نہیں سمجھتے تھے ۔ تہوار اور خوشی کے دیگر موقعوں پر ان کے مسلم رفقاء تحائف لے کر ان کے گھر تشریف لاتے تھے اور دن بھر کے پروگرام میں برابر حصہ لیتے تھے ۔ 
’’پریم چند ہولی کا تہوار بڑے جوش و خروش سے مناتے تھے ۔ ان کے کئی مسلمان دوست ان سے ہولی ملنے آئے۔ ساتھ میں پھولوں کے باہر اور عبیر بھی لائے ۔ ان لوگوں نے پریم چند کو گلال لگا کر پان کا بیڑا پیش کیا۔ پریم چند بھی ان لوگوں کو گلال لگا کر سب سے گرم جوشی سے بغل گیر ہوتے ۔ اُن ہی دنوں شورانی دیوی کی ایک کہانی ’’قربانی‘‘ بھی ترجمہ ہو کر اُردو کے کسی رسالے میں شایع ہوئی تھی۔انہوں نے وہ پرچہ پریم چند کو پیش کیا اور اُس کہانی کی تعریف کرتے ہوئے انھیں مبادکباد دی ۔ از آں بعد سب نے مل کر کھانا کھایا ۔ ان کے جانے کے بعد پریم چند اور ان کی اہلیہ میں آپس میں اِدھر اُدھر کی گفتگو ہوئی ۔ دورانِ گفتگو پریم چند نے کہا: ’’ جس دھرم ( ہندو دھرم ) میں رہ کر لوگ دوسروں کا چھوا ہوا پانی نہیں پی سکتے اس دھرم میں میرے لیے گنجائش کہاں … انگریزوں کے یہاں ہزاروں بچھڑے کاٹ کاٹ کر بھیج دیے جاتے ہیں ان سے کوئی نہیں کہتا کہ ان بچھڑوں کو مت بھیجو لیکن مسلمان گائے کی قربانی کرتے ہیں تو دنگا فساد ہو جاتا ہے ۔ ہندو بھی بھیڑ بکری دیوی کو بَلی چڑھاتے ہیں کیا اُن میں جان نہیں ہوتی ۔ ‘‘  
پریم چند کو جب بھی اپنے مسلمان رفقاء دعوت پر بلاتے تھے تو وہ بھی انتہائی شوق اور رغبت سے دعوت میں شرکت کرتے تھے ۔ ان کا اعتقادتھا کہ مسلمانوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے یا ان کے گھروں میں کھانے پینے سے ہندو دھرم کو کسی قسم کا زک نہیں پہنچ سکتا ہے ۔ ان کے سامنے ہر ایک مذہب اپنی اپنی جگہ عزت اور احترام کے لائق ہے ۔ وہ قدامت پرست ہندوئوں کی کھڑا کی گئی رکاوٹوں سے ہر گز گھبراتے نہیں ۔ پریم چند کے بعض مسلم دوست ان کے ساتھ والہانہ محبت کرتے تھے ۔ وہ یقینا ایک روح د و قالب کے مصداق اپنی محبت اور شفقت بھری دوستی کا مظاہرہ کرتے تھے ۔ ایک بار منشی علاج کے سلسلے میں لکھنؤ تشریف لے گئے جہاں وہ اپنے ایک اور دوست شنکر نگم کے گھر میں نا کافی جگہ ہونے کی وجہ سے ’’ سوریا ہوٹل ‘‘ میں قیام پذیر ہوئے لیکن ان کے ایک مسلم دوست عبدالحکیم کو ان کا ہوٹل میں رہنا بہت معیوب لگا اور ان کو اپنے گھر لے گئے ۔ اس واقعہ کا ذکر ان کے فرزند ، امرت رائے نے یوں کیا ہے : 
’’ عبدالحکیم صاحب کا گھر بہت چھوٹا مگر دل بہت بڑا تھا۔ ایک دن وہ جبراً منشی جی کو سوریا ہوٹل سے اپنے گھر اٹھا لائے ۔ ا ب منشی جی کو زیادہ روز لکھنؤ نہیں ٹھہرنا تھا مگر حکیم نہیں مانے اور اپنے گھر اٹھا لائے ۔ بالکل سگے بھائی کی طرح ان کی سیوا کی ۔ کموڈ تک صاف کیا۔ دھنو کو سلا دیتے اور خود رات بھر جاگتے ۔ مگر چہرے پر شکن نہیں … منشی جی کی حالت روز بروز بگڑتی جا رہی تھی ۔ زندگی سے نراش ہو گئے تھے ۔ ‘‘ 
پریم چند کی شریک حیات شورانی دیوی نے بھی اس واقعہ کا ذکر پریم چند کی ہی زبانی یوں کیا ہے : 
’’ پریم چند بولے ، کئی روز رات بھر دست آتے رہے شاید ڈاکٹر نے جلاب دے دیا تھا ۔ میں نے ہی دھنو سے لکھوایا تھا کہ چلی او ۔ کیونکہ دست مجھے آتے تھے تو رات کموڈ حکیم جی کو خود صاف کرنا پڑتا ۔ حکیم دیوتا ہے ۔ اُس کی شرافت کیا بتائوں ؟ انہوں نے میری سیوا جی جان سے کی ۔ دس دن وہا ں تھا ۔ تب تک حکیم جی سوئے نہیں ۔ دھنو کو سلا کر رات بھر وہ میرے پاس بیٹھے رہتے تھے ۔ ایسا شریف آدمی میں نے نہیں دیکھا ۔ ایسے مسلمان پر ہزاروں ہندو قربان ہو سکتے ہیں ۔ اس نے جیسی میری سیوا کی اس کی تعریف میں کیا کروں ۔ میں اچھا ہو گیا تو ان کی سیوا میں کروں گا ۔ ‘‘  
 پریم چند کی اکثر تخلیقات کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ نہ صرف متحدہ قومیت کی حمایت کرتے تھے بلکہ دل و جگر سے اسلام اور پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کے مداح خواں تھے ۔ وہ ہر طرح کی سماجی برائیوں اور بدعتوں کا جواب اسلامی تعلیمات کی روشنی میں دیتے تھے بلکہ ان کا حل بھی اسی مذہب کے ضابطۂ اخلاق میں تلاشتے تھے ۔ پریم چند اسلامی تہذیب کو دنیا بھر تہذیبوں پر ترجیح دیتے تھے ۔ ان کے مطابق دنیا کے اطراف و اکناف میں اگر کہیں بھی انسانیت کی روح پائی جاتی ہے تو اس کا سہرا فقط اور فقط اسلامی تہذیب کے سر ہی باندھا جا سکتا ہے کیونکہ یہ ایک واحد مذہب ہے جس نے انسان کو اُس کے سہی اور حقیقی مقام کا احساس دلایا اور اس کی جانب راغب کیا اس کا ثبوت پریم چند کے تحریر کردہ مضمون ’’ کچھ اسلامی تہذیب کے بارے میں ‘‘ سے ملتا ہے ۔ 
 اسلام نے باقی تمام تہذیبوں کو بہت پیچھے چھوڑ دیاہے ۔ وہ اصول جن کا سہرا اب کارل مارکس اور روس کے سر باندھا جا رہا ہے حقیقت میں عرب کے ریگستان سے باہر آئے تھے اور پہلی بار یہ بات کہنے والا عرب کا وہ اُمی تھا جن کا نام محمد ﷺ ہے ۔ محمد ﷺ کے سوا پورے عالم میں اور کون مذہبی رہنما ہوا ہے جس نے خدا کے سوا کسی انسان کے سامنے سر جھکانے کو گناہ ٹھہرایا ؟ حضرت محمد ﷺ کے سجھائے ہوئے معاشرے میں بادشاہ کا مقام ہی نہیں تھا ۔ انتظامیہ کا کام کرنے کے لیے صرف ایک خلیفہ مقرر کر دیا گیا تھا جسے قوم کے کچھ مخصوص لوگ چن لیں ۔ اس قانون سے انہوں نے اپنے آپ کو بھی آزاد نہیں کیا اور دلی خواہش کے باوجود اپنے چچیرے بھائی اور داماو حضرت علی ؓ  کو خلیفہ نہیں بنایا ، حالانکہ ان کا مقام وہ تھا کہ ان کے صرف ایک اشارے پر حضرت علی ؓ کو خلیفہ چن لیا جاتا اور اس چنے ہوئے خلیفہ کے لیے کوئی وظیفہ ، کوئی تنخواہ ، کوئی جاگیر ، کوئی رعایت نہ تھی ۔ یہ صرف ایک اعزازی عہدہ تھا ۔ اپنے گزارے کے لیے خلیفہ کو دوسروں کی طرح محنت مزدوری کرنی پڑتی تھی ۔ ایسے ایسے عظیم شخص جو ایک بڑی سلطنت کی رہنمائی کرتے تھے ، جن کے سامنے بڑے بڑے بادشاہ ادب سے سر جھکاتے تھے ، جن کے اشارے پر بادشاہتیں بنتی بگڑتی تھیں ، وہ جوتے سی کر یا قلمی کتابیں نقل کر کے ، یا بچوں کو پڑھا کر اپنا روز گار پیدا کرتے تھے ۔ حضرت محمد ﷺنے کبھی پیشوائی کا دعویٰ نہیں کیا ۔ خزانے میں ان کا حصہ بھی وہی تھا جو ایک معمولی سپاہی کا ۔ انہیں مہمانوں کے آجانے کی وجہ سے اکثر زحمت اٹھانی پڑتی تھی ، فاقے کرنے پڑ جاتے تھے گھر کی چیزیں بیچ ڈالنی پڑتی تھیں پر کیامجال کہ اپنا حصہ بڑھانے کا خیال بھی دل میں آئے ۔ دوسری قوموں میں پیر ( گرو ، استاد ) کے چلن نے جتنی گڑ بڑی کی ہے ا س سے تاریخ سیاہ ہو گئی ہے۔ عیسائی مذہب میں پادریوں کے سوا اور کسی کو انجیل پڑھنے کی آزادی نہ تھی ۔ ہندو سماج نے بھی شودروں کی تخلیق کر کے اپنے سر کلنک کا ٹیکہ لگا لیا ۔ پر اسلام پر اس کا دھبہ تک نہیں ۔ غلامی کا چلن تو اس وقت پورے عالم میں تھا لیکن اسلام نے غلاموں کے ساتھ جس قدراچھا سلوک کیا ، اس پر اسے نا ز ہو سکتا ہے ۔ ایسے غلاموں کی کمی نہیں ہے جو اپنے مالک کے بعد اس کے تخت پر بیٹھے اور اس کی بیٹی سے نکاح کیا ، اور کس سماج نے چھوٹے طبقوں کے ساتھ یہ فراخدلی دکھائی ہے ؟ ان طبقوں کے ساتھ اسلام نے جو سلوک کیے ہیں انہیں سامنے رکھا جائے تو دوسری قوموں کا سلوک وحشیانہ معلوم ہوتا ہے ۔ کس سماج میں عورتوں کا جائیداد اتنا حق مانا گیا ہے جتنا کہ اسلام میں ؟ یوں عقل اور دولت کا ٹکرائو ہمیشہ رہا ہے اور ہمیشہ رہے گا ، لیکن اسلام نے سماج کے کسی طبقے کے پیروں میں بیڑی نہیں ڈالی ۔ وہاں ہر شخص سماج میں اتنی ترقی کر سکتا ہے جتنی کا وہ حقدار ہو ، اس کے راستے میں کوئی رکاوٹ ، کوئی روڑا نہیں ۔ ہمارے خیال میں وہی تہذیب سب سے بلند ہونے کا دعویٰ کر سکتی ہے جو فرد کو زیادہ سے زیادہ ترقی کا موقع دے ۔ اس لحاظ سے بھی اسلامی تہذیب کو کوئی کمتر نہیں ٹھہرا سکتا ۔ ‘‘ 
’’ اسلام میں عوام کو اپنی طرف راغب کرنے کی جتنی طاقت ہے اتنی اور کسی تہذیب میں نہیں ہے ۔ جب نماز پڑھتے وقت ایک مہتر اپنے کو شہر کے بڑے بڑے رئیس کے ساتھ ایک ہی قطار میں کھڑا پاتا ہے تو کیا اس کے دل میں خوشی کی ترنگیں نہیں اٹھنے لگتی ہوں گی ؟ اس کے برخلاف ہندو سماج نے جن لوگوں کو نیچ بنا دیا ہے ، ان کو کنوئیں کی جگت پر بھی نہیں چڑھنے دیتا ، انہیں مندروں میں گھسنے نہیں دیتا ۔ یہ اپنے سے ملانے کے نہیں ، ا پنے سے الگ کرنے کے طریقے ہیں ۔ مذہب اسلام اور اسلامی تہذیب کو دنیا میں جو کامیابی ملی ہے وہ تلوار کے زور سے نہیں ، اسی بھائی چارے کی وجہ سے ملی ہے ۔ آج بھی افریقہ میں عیسائیت کے مقابلے میں اسلام کی تبلیغ زیادہ ہو رہی ہے ، حالانکہ عیسائیوں کے پاس للچانے کے سامان زیادہ ہیں اور یہاں صرف نا م اللہ کا ہے ۔ ‘‘ 
( ختم شد )
صدر شعبہ اُردوگورنمنٹ ڈگری کالج بیروہ کشمیر
موبائیل  09419022648
ای میل:  [email protected]