منشیات اور ہمارا سماج

فرد قائم ربطہ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں 
موج ہے دریا ہے اور بیرون دریا کچھ نہیں 
ہم سبھی اس حقیقت سے آشنا ہیں کہ سماج کا ہر فرد سماج کی تشکیل میں اپنا اہم رول ادا کرتا ہے ۔پھر چاہے وہ مثبت ہو یا منفی ۔ ماشاء اللہ اگرمثبت ہی مثبت ہو تو سماج اعلیٰ اخلاقی قدروں کے ساتھ ساتھ پروان چڑھتا ہے اور خدانخواستہ منفی ہو تو اخلاقی گراوٹ سماج کا مقدر بن جاتا ہے ۔
موجودہ حالات کے تناظر سے اگر سماج کے مسائل پر طائرانہ نظر ڈالیں تو بہت حد تک مایوسی کے بادل چھائے دکھائی دیتے ہیں کیوں کہ آپسی اتفاق ، اتحاد ، برادری ، چھوٹے بڑے کا احترام اور سماجی مسائل کا حل ڈھونڈنے میں دانش وروں کے مشورے اور تجاویزحاصل کرنے کا عمل تو اب حقیقت سے بعید لگتا ہے سبھی اپنے آپ کو D-Best سمجھتے ہیں اور اگلے کو ادنیٰ ، نکمااور کم ظرف ۔بقول مولانا رومی ؒ  ؎
ایک دل توڑ کر تونے مسجد بنائی 
ایک مان توڑ کر تو نے نماز پڑی 
کسی کو رُلا کر تورب کو راضی کرنے چلا 
کسی کو ستا کر تو حج کر آیا 
 تونے نیکی کر کے گناہ گار کو حقیر جانا 
اے یہ سب کرنے والے بہتر تھا کہ تو گنا ہ 
کر کے انسان رہ جاتا
نیکی کر کے خدا نہ بنتا 
ایسی صورتحال میں حساس طبیعت والا اور باشعور طبقہ کر ے تو کیا کرے ۔ وہ جہالت کے سامنے خاموش رہنے میں ہی اپنی خیریت محسوس کرتے ہیں۔
میرا آج کا موضوع اصل میں منشیات کا بے جا استعمال اور اس بدعت سے سماج میں پھیل رہے وبا کا قلمع قمع کرنے پر روشنی ڈالنی تھی ۔ مگر جب تک نہ میں سماج کے ٹھیکداروں کا ذکر کروں تب تک سماج کے کسی بھی مسئلہ کا حل ڈھونڈنا مشکل ہے۔
ہمارے بزرگ کہا کرتے تھے ۔ جس کی لاٹھی اُس کی بھینس ۔ آج کے دور ِ آشوب میں یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ سماج کے ایک طبقہ کے پاس ناجائز طریقے پر اکٹھی کی گئی دولت کے انبار لگے ہوئے ہیں، جو انہوں نے غیر قانونی دھندے چلا کر حاصل کی ہے ۔ اُن دھندوں میں منشیات کا کاروبار بھی شامل ہے ۔ اس دھندے کی بدولت خود غرض و لالچی عناصر راتوں رات لکھ پتی اور کروڑ پتی بن جاتے ہیں۔ وہ لوگ ہمارے معصوم نوجوانون کو بہلا پھسلا کر اس دلدل میں جھونک دیتے ہیں اور ان کا مستقبل تاریک بنا کر اپنے اونچے محل کھڑے کردیتے ہیں ، ساتھ میں اپنی تجوریاں ناجائز دولت سے بھرتے ہیں ۔
چوں کہ منشیات کا دھندہ بہت قدیم ہے اور آج تک اس مسئلہ سے نمٹنے کے لئے خاطر خواہ اقدامات ممکن نہیں ہوئے ۔ سرکاری سطح پر لاتعداد کو ششوں کے باوجود یہ دھندہ اپنے عروج پر ہے ۔
جہاں سماج کے ذمہ دار شہری اس بدعت کو روکنے میں اپنا اہم رول ادا کرسکتے ہیں وہاں اس کاروبار میں ملوث افراد کے خلاف حکومت سخت قانونی کارروائی عمل میں لانے میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہ کریں تو بہتر ہے۔
اِس بدعت کے شکار عام طور پر نوجوان ہوتے ہیں بالخصوص وہ نوجوان جنہیں والدین و دیگر رفقأ کی طف سے پوری توجہ نہیںملتی ، شفقت سے محروم رہتے ہیں اور دوسرے وہ جنہیں روزگار وقت پر حاصل نہیں ہوتا ہے وہ ٹینشن ، کنفوژن اور فرسٹریشن کے شکار ہوتے ہیں اور اس بدعت کے عادی ہوجاتے ہیں ۔
یہاں میں والدین ، اساتذہ ، سماجی اراکین اور ذمہ دار افراد سے التماس کروں گا کہ وہ اپنے ارد گرد کے ماحول پر کڑی نگاہ رکھیں اور اپنا قیمتی وقت ، صلاحیت اور قوتیں بروئے کار لا کر نوجوان نسل کو اس برائی سے بچالیں۔یہاں میں اپنے عزیز نوجوانوں سے بھی مود بانہ گزارش کروں گا کہ وہ منشیات کی لعنت کو خیر باد کہہ کر صحت مند زندگی گزاریں ۔ بقول شاعر  ؎
پیاسا رہو نہ دشت میں پانی کے منتظر 
مارو زمین پہ پائوں کہ پانی نکل پڑے 
اپنا زمانہ آپ بناتے ہیں اہل دِل 
ہم وہ نہیں جن کو زمانہ بنا گیا
نوجوان ملک و قوم کی ریڑ ھ کی ہڈی کی مانند ہوتے ہیں ۔ تمام بزرگوں کی نظریں نوجوانوں کی صلاحیتوں اور قابلیت پر ٹکی ہوتی ہیں ۔ والدین بھی اپنے نوجوان بچوں سے بہت ساری اُمید یں لگائے ہوتے ہیں کہ اُن جوان بچے اُن کے بڑھاپے کا سہارا بنیں ۔ نوجوان تابعداری اور فرمانبرداری کے فرائض انجام دیتے ہوئے اپنے والدین اور بزرگوں سے دعائیں حاصل کریں اور دین و دنیا میں فلاح و کامیابی پائین ۔بقول اقبال ؒ   ؎
ملت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ 
پیوستہ رہ شجر سے اُمیدِ بہار رکھ 
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ آج کے نوجوانوں کو بہت سارے مسائل کا سامنا ہے۔ اُن میں سب سے بڑا مسئلہ بے روزگاری کا ہے ۔ بدقسمتی سے  اس مسئلہ کے حل کے لئے نہ سرکاری نہ نجی سطح پر کوئی ٹھوس اقدامات اٹھائے جارہے ہیں ۔ لیکن ہمارے نوجوانوں کو اللہ کے فضل و کرم پر یقین رکھتے ہوئے محنت و مشقت کر کے اپنا روزگار تلاش کرنے کے اقدامات کرنے چاہئیں ۔ نہ کرنا اُمیدی اور مایوسی کے دلدل میں پھنس کر منشیات کو اپنائیں۔ 
 اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے :َاللّٰہُ خَیْرُالرَّازِقِیْنَo ۔ اللہ سب سے بہتر رزق رسان ہے۔
 اللہ پر مکمل بھروسہ کر کے اور نیک راہ کی تلاش میں اپنا رزق ڈھونڈیں ۔ ان شاء اللہ ضرور کامیابی حاصل ہوگی۔