ممتا بمقابلہ مودی

اسی  سال ہونے والے پارلیمانی انتخابات کیلئے ملک بھر میں سیاسی سرگرمیاں زوروں پر ہیں۔ تمام سیاسی پارٹیوں نے اپنی اپنی انتخابی مہم کا آغاز کردیا ہے۔ زیادہ زور اس بات پر دیا جارہا ہے بھاجپا کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لئے تمام مخالف پارٹیاں متحد ہوجائیں اور مخالف مودی اور بھاجپا ووٹوں کی تقسیم کم سے کم ہو۔ اسی سلسلہ میں ممتابنرجی سب سے آگے نظر آتی ہیں۔ چنانچہ وزیراعلیٰ مغربی بنگال ممتابنرجی نے کولکتہ میں ایک زبردست انتخابی ریلی منعقد کی، جس میں 16؍مخالف پارٹیوں نے شرکت کی، جب کہ 20 تا25لاکھ سے زائد عوام نے اس میں شرکت کی۔ اس طرح ممتابنرجی نے اپنی انتخابی مہم کو تقریباً بے مثال بنالیا۔ تاہم اس ریلی میں سونیا گاندھی، راہول گاندھی اور تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ کے چندر شیکھر راؤ کی کمی محسوس کی گئی۔ اس بات کو کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اگر مخالف جماعتیں بھاجپا کو اقتدار سے بے دخل کردیتی ہیں تو وزارتِ عظمیٰ کے عہدے کے لئے ممتابنرجی ایک اہم اور طاقت ور امیدوار ہوں گی۔ ممتابنرجی کے علاوہ اس عہدے کے لئے راہول گاندھی اور مایاوتی بھی اہم دعوے دار ہوں گے۔ تاہم بی جے پی کی شکست کی صورت میں ملک کا وزیر اعظم کون بنے گا ، اس کا فیصلہ تو بعد میں ہی ہوگا۔ تاہم ممتابنرجی نے اس ریلی کے ذریعہ جس شاندار طریقہ سے اپنا دعویٰ پیش کیا ہے وہ دوسرے تمام اُمیدواروں کے لئے قابل غور ہے۔ 
اس ریلی کے بارے میں چند اور باتیں نہ صرف اہم ہیں بلکہ دلچسپی کا بھی باعث ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ اس ریلی میں شریک ہونے والے اہم سیاسی قائدین میں مسلمان قائدین بہت کم تھے۔ فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور آسام کے مولانا اجمل کے علاوہ کوئی اہم مسلمان لیڈر سامنے نہیں آیا۔ کوئی ایسا مسلمان قائد اس ریلی میں نہیں تھا جو یہ کہنے کی جرأت رکھتا ہو کہ ’’میں مسلمانوں کی نمائندگی کرتا ہوں‘‘ اور سیکولر پارٹیوں کے مسلمان لیڈروں کی طرح یہ نہ کہے کہ ’’میں صرف مسلمانوں کا لیڈر نہیں ہوں‘‘ ۔سیکولر جماعتوں کے مسلمان قائدین اپنے آپ کو مسلمانوں کا قائد کہنے سے گریز کرتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر ممتاکی اس ریلی میں مسلم لیگ اور مجلس اتحادالمسلمین کا بھی کوئی قائد ہوتا! مسلمانوں کے مخلص قائدین خود کو اس قسم کے پلیٹ فارموں سے نہ جانے کیوں دور رکھتے ہیں اور سیکولر قائدین (بشمول ممتابنرجی مسلمانوں کی علیحدہ سیاسی جماعتوں اور سیاسی قائدین کو قابل اعتناء نہیں سمجھتی ہیں؟ تاہم اس معاملہ میں راقم الحروف کو مسلمان قائدین کی غلطی زیادہ نظر آتی ہے کیونکہ مسلمان قائدین سیکولر جماعتوں کے آگے خود کو پیش کرنے اور اپنے آپ کو منوانا نہیں چاہتے ہیں۔ حزب مخالف کی جماعتیں اگر مسلم قائدین کو اپنے اجلاسوں میں مدعو نہیں کرتی ہیں تو مسلمان قائدین کو چاہئے کہ وہ خود سیکولر جماعتوں کے قائدین سے ملیں اور ان کو واضح اور واشگاف الفاظ میں بتائیں کہ کوئی مسلم ووٹ بینک ہویا نہ ہو اگر سیکولر جماعتوں کو مسلمانوں کے ووٹ کی ضرورت ہے تو ہم سے مذاکرات کریں اور ہماری شرائط پر مسلم ووٹ حاصل کرنے کی بات کریں۔ افسوس کی بات ہے جو بھی مسلم جماعتیں یا قائدین ہیں وہ سیکولر جماعتوں پر اس طرح دبائو ڈالنا پسند نہیں کرتے ہیں یا ان میں اس بات کو کہنے کی ہمت اور صلاحیت ہی نہیں ہے چونکہ اب مسلمانوں میں مولانا محمد علی جوہر، محمد علی جناح اور بہادر یارجنگ جیسے قائدین نہیں ہیں۔ جیسا کہ ہم نے بارہا لکھا ہے کہ مسلم لیگ نے خود کو کیرالا کی حدتک محدود کرلیاہے اور ایم آئی ایم کے بے باک قائد اسد الدین اویسی بھی نہ جانے کیوں بہت زیادہ مستعداور سرگرم عمل نظر نہیں آتے ہیں؟ نیز یہ بات بھی اہم ہے کہ نام نہاد سیکولر یا خود کو قوم پرست کہنے والے مسلم قائدین خود کو کچھ کرتے نہیں ہے اور جب اسد الدین اویسی جیسے قائد آگے آتے ہیں تو نام نہاد مسلم قائدین ان کی راہ میں مشکلات کھڑی کرتے ہوئے ذرا بھی شرم محسوس نہیں کرتے ہیں اور یہ بات مسلمانوں کے مفادات کے خلاف ہے۔ 
07997694060