ہیلو! آپ کون؟
’اوہ۔۔۔ نہیں پہچانا۔۔۔ ہاں پہچانو گے بھی کیسے۔۔۔ تیس سال کا عرصہ بہت لمبا عرصہ ہوتا ہے۔‘‘
دیکھئے محترمہ ۔۔۔ آپ پہلے اپنا تعارف تو کروائیے۔۔۔
’’ہاں۔۔۔ ہاں۔۔۔ وہ تو میں کروائونگی ہی، لیکن آپ بتایئے۔۔۔ آپ خیریت سے ہیں نا۔‘‘
ہیلو! محترمہ ۔۔۔ شائد آپ نے رانگ نمبر ملایا ہے۔
’’ہاہاہا! رانگ نمبر ۔۔۔ بالکل نہیں۔۔۔ میں نے زندگی میں کبھی کوئی رانگ لائن چُنی ہی نہیں۔ آج یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے؟‘‘
محترمہ کون ہیں آپ۔۔۔؟ شائد آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔
’’ہاہاہا! غلط فہمی۔۔۔ بالکل نہیں۔۔۔ میں نے تیس سال بعد بھی فوراً آپ کو آپ کے لب و لہجہ سے پہچانا۔ ویسے کا ویسا ہی ہے، اب بھی۔۔۔‘‘
’’لو جی سُنیے اب۔۔۔ میں دوبئی سے بول رہی ہوں۔۔ اپنا نام بعد میں بتائوں گی۔۔۔ میں تیس سال بعد آپ کو فون کررہی ہوں۔۔۔ آپ کو شائد یقین نہیں آرہا ہے۔ ذرا یاد کیجئے۔ ویسے تو تیس سال بہت لمبی مدت ہوتی ہے نا۔۔۔ ایسے کیسے آپ کو آسانی سے یا دآئے گا۔ ان تیس سالوں میں، میں کہاں سےکہاں پہنچ گئی۔۔۔ شادی، نوکری۔۔ بچوں کے سلسلے میں مختلف۔۔۔ ایک منٹ۔۔۔ ہولڈ آن پلیز۔۔۔ ٹورنٹو سے میرے بیٹے کا فون ہے۔۔۔ ہاں تو میں یہ کہہ رہی تھی کہ آج سے تیس سال پہلے ۔۔۔ ہاں یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے بعد میں ۔۔۔۔‘‘
اے محترمہ؛ پہلے تو یہ بتایئے کہ آپ ہیں کون اور میرا نمبر آپ کو ملا کہاں سے؟
’’ہاہاہا! کہاں سے ملا مطلب ۔۔۔ میں بھی تو ادب نواز ہوں۔ ایک اردو رسالے میں آپ کا نمبر ملا اور کہاں۔۔۔ اور ہاں اُس رسالے میں آپ کی ایک پیاری سی غزل بھی پڑھ لی۔۔۔۔ مجھے غزل پڑھ کر تیس سال پہلے کا وہ واقعہ بھی فوراً یاد آیا جب آپ نے میری فرمائش پر ایک بغیر مقطع کے غزل میرے نام منسو ب کی تھی۔ کیوں کہ میں نے ہی آپ سے کہا تھا کہ اس غزل کا مقطع میں خود کہوں گی۔‘‘
محترمہ میری یاداشت اب آپ جیسی تیز نہیں رہی۔۔۔ مجھے کچھ زیادہ یاد نہیں آرہا ہے۔
’’اچھا۔۔۔ کوئی بات نہیں۔۔۔ پہلے میری بات سنیئے۔ پھر ہوسکتا ہے کہ آپ کو بھی کچھ کچھ یاد آجائے سنانے کے لئے۔۔۔ میرے ہسبنڈ ایک کنسٹرکشن کمپنی میں ڈپٹی جنرل منیجر ہیں۔۔۔ میں خود ایک NGOچلا رہی ہوں۔۔۔۔ ایک بیٹا آسٹریلیا میں ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں چیف ایگزیکٹو ہے۔۔۔ دوسرا بیٹا ڈاکٹر ہے اور وہ ٹورنٹو میں ایک بڑے ہسپتال میں تعینات ہے۔ اکلوتی بیٹی پی ایچ ڈی مکمل کرنے کے بعد سان فرانسسکو میں بیاہی گئی۔ اُسکا ہسبنڈ وہاں ایمیگریشن دفترمیں ایک اعلیٰ عہدہ پر فائزہ ہے۔۔۔۔
اچھا۔۔۔ ایک منٹSorry… Just wait…. there is a call from WHO۔۔۔۔
اچھا ۔۔۔ تو میں کہہ رہی تھی۔۔۔ اوہ وہو۔۔۔ میں کبھی کتنی عجیب ہوں۔۔۔ میں باتیں کرتی گئیں اور آپ سے پوچھا بھی نہیں کہ آج کل آپ کہاں ہیں۔۔۔ کیا کررہے ہیں۔۔۔ کتنے بچے ہیں۔۔۔ کتنی پراپرٹی ہے۔۔۔جی ! آپ ایک دم چُپ کیوں ہیں۔۔۔ Why are you silent‘‘
محترمہ! کیا بتائوں۔۔۔ تیس سالوں تک اُس غزل کا مقطع نہ بن سکا۔۔۔ گھر کیسے بنتا۔۔۔ گھر بنانے کا خیال کبھی آیا ہی نہیں۔۔۔ میں ایک جھونپڑی نما مکان میں تنہا رہتا ہوں۔ اندر ایک بلی دن بھر چوہوں کی تاک میں رہتی ہے۔ صحن میں ایک خارش زدہ بوڑھا کتا صبح سے شام تک اونگھتا رہتا ہے۔ ٹوٹا پھوٹا پرانا پھاٹک ہمیشہ اس اُمید پر کھلا رہتا ہے کہ جس کے نام یونیورسٹی میں اپنی غزل بغیر مقطع کے نذر کی تھی، وہ ایک دن ضرورآئے گی اور میری غزل کا مقطع پورا ہوگا۔
���
موبائل نمبر؛9906575631