حال و احوال
حسرت ظہور
کسی بھی سماج کی مجموعی تعمیر و ترقی کے لیے کئی طرح کے محرکات کا عمل دخل رہتا ہے۔ روحانی اقدار پر حامل سماجی ڈھانچہ پاکیزہ، بے باک سیاسی نظام، انصاف پر مبنی قوانین کا عمل دخل اور شفاف و فائدہ بخش علوم و فنون کا چلن وغیرہ وغیرہ۔ لیکن ایک محرک جس سے ہم لوگ کبھی دانستہ اور کبھی نادانستہ طور پر خاطر میں نہیں لاتے ہیں اور یوں مذکورہ بالا محرکات سے بھی استفادہ حاصل کرنے میں اکثر ناکام رہتے ہیں، وہ معاشی استحکام ہے۔ صاحب رائے لوگوں کا ماننا ہے کہ معاشی استحکام یا کہ مادی ضرورتوں کی فراوانی کی اہمیت اور افادیت کو نظر انداز کر کے ہم سماج کی تعمیر و ترقی میں از خود رکاوٹ اور ٹھہراؤ پیدا کرتے ہیں اور تو اور اس بھول اور غفلت کی وجہ سے سماج میں رہ رہے ہر کس و ناکس پر طرح طرح کے منفی اور مضر اثرات کا مرتب ہونا بھی طے ہے، گو کہ کچھ لوگوں کی رائے ہےکہ مفلسی ایک آسمانی فیصلہ ہے جس کے سامنے کوئی علاج سود مند نہیں ،اس لئے تہی دستی اور فارغ البالی دونوں کا تعلق اللہ کی مشیت پر مبنی ہے، اس نے اپنی مرضی کے مطابق جسے چاہا آسودہ کر دیا اور جس سے چاہا رزق کی تنگی میں مبتلا کر دیا۔ ان لوگوں کی نظروں میں غربت و مفلسی کا مجوزہ علاج بس صبر و اکتفا ہے، لیکن حقیقتاً اس طرح کی تاویل تقدیر کا صحیح مفہوم نہیں ہے بلکہ سراسر گمراہی ہے۔ ایک طرف معاشی عدم استحکام سماج کی سلامتی اور سماجی قدروں کی تعمیر کی راہ میں زبردست رکاوٹ کا باعث ہوتا ہے اور دوسری طرف افلاس انسان کے اخلاق، افکار اور خاندان کے تانے بانے میں بگاڑ کا موجب بن جاتا ہے ۔اتنا ہی نہیں بلکہ غربت اور افلاس انسان کے ایمان کے لیے بھی خطرہ کا سبب بن جاتا ہے۔ ہمارے اسلاف نے بجا طور پر کہا ہے کہ جب غریبی اور مفلسی کسی بستی کا رخ کرتی ہے تو بے دینی بھی اس کے پیچھے پیچھے ہو لیتی ہے۔ غریبی وہ لعنت ہے جو عقل کو ششدر اور اچھے اچھوں کو بے دین بنا دیتی ہے۔ حضرت ذوالنون مصری ؒ نے فرمایا ہے کہ بے صبر اور فاقہ کش بدترین کافر ثابت ہوتے ہیں اور یوں بھی صبر کا مادہ لوگوں میں کم ہی ہوتا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث اپنی جگہ پر بالکل درست ہے ،جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، قریب ہے کہ غریبی کفر تک پہنچا دے (طبرانی)۔ ایک اور حدیث میں غریبی کے اثرات کا احاطہ کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ خدایا میں کفر اور فقر سے تیری پناہ چاہتا ہوں (ابو داؤود)۔ مشہور صحابی حضرت ابوذر غفاریؓ فرماتے ہیں کہ مجھے ڈر ہے کہ تہی دست اور فاقوں کا مارا بھوک سے تنگ آکر قتل غارت گری کا پیشہ نہ اپنا لے۔ یہ امر مسلم ہے کہ غریبی کا اثر بد انسان کی سیرت تک ہی محدود نہیں رہتا ہے بلکہ اس کے افکار و خیالات بھی بڑی حد تک اسرت اور تنگدستی سے متاثر ہوتے ہیں ۔چنانچہ امام ابو حنیفہ ؒ فرماتے ہیں کہ جس کے گھر میں کھانے کو کچھ نہ ہو ،اُس سے مشورہ نہ لو، یہ اس لیے کہ اس شخص کے خیالات پراگندہ ہوتے ہیں اور یہ ایک نفسیاتی مسئلہ ہے کہ ذہنی ہیجان اور جذبات کے رؤ میں بہنے والے کی رائے پختہ نہیں ہوا کرتی ہے ،اسی لئے مشہور ہے کہ پیٹ کی پکار کے آگے ضمیر کی آواز بھی دب جاتی ہے۔ آدمی ناداری اور افلاس کے ہاتھوں مجبور ہو کر کبھی وہ سب کر گزرتا ہے جسے نہ عقل سلیم گوارا کرتی ہے نہ ہی انسانی شرافت اور مروت اسے پسند کرتی ہے اور یہ مشاہدہ ہے کہ غریبی کے دباؤ سے متاثر ہو کر آدمی اخلاقی قدروں اور اس کے پیمانوں کو بھی بدل ڈالتا ہے اور دین و مذہب کی اس کی نظر میں کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی، بلکہ اس کا ذہن وساوس اور شکوک کی وادیوں میں سرگردان و حیران رہتا ہے۔ مذکورہ بالا فرمودات اور حقائق کی روشنی میں اب اس بات میں کوئی دوراے نہیں ہے کہ معاشی عدم استحکام ہر لحاظ سے ایک فرد بشر کے لیے باعث رنج و الم ہے۔ لہٰذا جب کسی سماج سے وابستہ اور جڑے ہوئے افراد مالی ضرورتوں کے حوالے سے پریشان وپشیمان ہوں تو کیسے ممکن ہے کہ وہ سماج ترقی کے منازل طے کرے ،بلکہ یہ بات بھی بعید از امکان ہے کہ اس سماج یا قوم سے وابستہ مختلف معاملات صحیح سمت کی جانب گامزن ہوں ،اس تناظر میں اگر ہم وادی کشمیر کی بات کریں تو اقتصاریات کے تعلق سے دور دور تک یاس اور نا امیدی کے گھنے بادل چھائے ہوئے ہیں ۔آج یہاں کا مزدور کاشتکار، دستکار، ڈرائیور، درزی، فیری والا، خونچے والا، مرکبان، گلکار، ترکھان، لوہار وغیرہ وغیرہ سبھی دستِ نگر بنے ہیں، غربت اور افلاس کی بڑھتی شرح سے آج ہر صاحبِ بصیرت کی آنکھ نم ہے اور کیوں نہ ہو،
ہر شاخ پر اُلو بیٹھا ہے
انجام گلستان کیا ہوگاکشمیر میں اقتصادی بدحالی کے لیے کوئی ایک خاص وجہ ذمہ دار نہیں ہے بلکہ کئی طرح کے ایسے مسائل و معاملات ہیں ،جنہوں نے یہاں کی معیشت کو تہس نہس کر کے رکھ دیا ہے اور آج آبادی کی ایک کثیر تعداد معاشی عدم استحکام کی چکی میں پسی جا رہی ہے۔ اب یہ بات بھی اپنی جگہ پر اہم اور معنی خیز ہے کہ نہ ہی ہماری سرکار اس حقیقت سے بے خبر ہے کہ لوگ غربت اور مفلسی کا رونا رو رہے ہیں اور نہ ہی ہمارے ماہرین اقتصادیات کے لئے یہ تلخ حقیقت ڈکی چھپی ہے کہ اس خطۂ ارض پر ہر بدلتے دن کے ساتھ اقتصادی پسماندگی کا گراف بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ ہاں اس تناظر میں فقط یہی کہا جا سکتا ہے کہ ؎
مرض بڑھتا ہی گیا جوں جوں دوا کی
کشمیر کے معاشی منظر نامے پر اب آنے والے کل میں کیا کیا تبدیلی یا بدلاؤ وقوع پذیر ہو جائے گا بلاشبہ چشم وا اسے دیکھے گی۔
(مضمون نگار، گورنمنٹ گرلز ہایر سیکنڈری سکول صورہ میں لیکچررہیں)
[email protected]: