برماکے مسلمانوںکاوجود زخموں سے چور چور ہے ۔مددکے لئے آنکھیں انکی راہ تکتے تکتے تھک چکی ہیں ۔ظلم سہتے سہتے بازو ان کے شل ہوچکے ہیں۔ عصرحاضرمیں پوری دنیا میں سب سے زیادہ بہنے والا لہو روہنگیاکاہی ہے ۔اس وقت سفاکیت کی جوتاریخ رقم ہورہی ہے کشمیر، فلسطین ،شام ،عراق، افغانستان اور میانمار سمیت پوری دنیا میں خون گرتا ہے تو مسلمان کا ۔دنیا میں بہت بڑی تعداد یعنی ڈیڑھ ارب ہونے کے باوجود مسلمانوںکالہو اس قدر ارزاں ہے کہ اس کے گرنے پر کسی کو افسوس تک نہیں ہوتا ۔مسلمانوں کی بستیوں کی بستیاں اجڑ رہی ہیں ،بچوں کو کاٹا جارہا ہے ،مائوں ،بہنوں اوربیٹیوں کی عصمتیں تارتارکی جارہی ہیں ۔دنیا کی اکانومی کا ایک بڑاحصہ عرب مسلمانوں کے ہاتھ میں ہونے کے باوجود مسلمان غلامی ،بے بسی ،لاچاری مسکینوں ،غریبوں اور مجرموں کی حیثیت سے زندگی گزاررہے ہیں ۔ آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو بھی رنگون (میانمار)برمامیں ہی جلاوطنی کے دن گزارنے پر مجبور کیا گیا اور آج بھی رنگون میں اس کی قبر مغل سلطنت کے زوال اور برطانوی سفاکیت کے نوحے سناتی نظر آتی ہے۔میانمار کی قریبا 5 کروڑ 60 لاکھ کی آبادی میں 89 فیصد بودھ، 4 فیصد مسلمان تقریبا َساڑھے 22 لاکھ، 4 فیصد عیسائی، 1فیصد ہندو اور 2 فیصد دوسری قومیں آباد ہیں۔ یہاں پر اسلام کی آمد کے آثار 1050 سے ملتے ہیں جب اسلام کے ابتدائی سالوں میں ہی عرب مسلمان تجارت کی غرض سے برما آئے اور پھر یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ سات صوبوں کے اس ملک میں مسلمانوں کی اکثریت رخائن یااراکین میں آباد ہے اور یہاں تقریبا ً6 لاکھ مسلمان بستے ہیں جنہیں روہنگیا کہا جاتا ہے۔آیئے دیکھتے ہیں کہ اراکان کے مظلوم مسلمان کون ہیں اوران پرکب کب قیامتیں ڈھائی گئیں۔
روہنگیاتیسری صدی ہجری میں برما کے ساحلی علاقوں میں سمندری راستے سے اسلام کی دعوہ و تبلیغ کے لئے آنے والے ان عرب تجاراور مبلغین کی اولاد ہیں، جو اپنے خاندانوں سمیت یہاں بسلسلہ تجارت اور تبلیغ واشاعت دین کے لئے آئے، اور پھریہیں رچ بس گئے ۔برما کی تاریخ اٹھا کر دیکھا جائے تو مسلمانوں پر اس طرح کی قیامتیں ٹوٹنے کے کئی واقعات ملتے ہیں۔ 1559 میں بدھ عقائد کی آڑ میں مسلمانوںکے لئے جانور ذبح کرنے پر پابندی لگا دی گئی۔ حتی کہ عید الاضحی کے موقع پر بھی کسی مسلمان کو اجازت نہیں تھی کہ وہ کسی جانور پر چھری چلا سکے۔ 1752 میں اس قانون کومزیدکساگیااورایک بارپھراعلان ہواکہ خبردارکوئی جانورذبح نہ ہونے پائے کیونکہ سرکارکی طرف سے جانوروں کے ذبح پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ 1782 میں تو بادشاہ بودھاپایہ نے پورے علاقے کے مسلمان علما ئے کرام کو سور کا گوشت کھانے پر مجبور کیا اور انکار پر ان سب کو قتل کر دیا گیا۔ برما کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ اس واقعے کے بعد 7دن تک برما کی سر زمین پر سورج بے نوررہااوراس نے اپنی جلالت کومدہم رکھا ۔ جس پر بادشاہ نے اپنے گناہوں کا اقرار کیا، معافی مانگی۔برماجسے آج میانمار کے نام سے جاناجاتاہے پر انگریزوں نے1824 میں قبضہ کیا تھااوربرما برٹش انڈیا کا ایک صوبہ رہا ہے۔ اس دوران بھی بے چارے مسلمانوں پربرق گرتی رہی اورجب 1938 میںبرمی بودھ برطانوی فوجوں کے خلاف جنگِ آزادی لڑنے میں مشغول تھے تو گولیوں سے بچنے کے لئے مسلمانوں کو بطور ڈھال استعمال کرتے رہے۔
1824 تا 1948 برمابرٹش انڈیاکاحصہ بنارہا،لیکن سلطنت انگلشیہ کے زوال کے ساتھ ہی برماآزادہوگیا۔برطانوی حکومت سے 1948 میں آزاد ہونے والی چھوٹی چھوٹی ریاستوں کی فیڈریشن پہ مشتمل اس ملک کا نام ’’انڈیپنڈنٹ یونین آف برما ‘‘رکھا گیا۔چین، لاس، بھوٹان، نیپال، تھائی لینڈ، کے ساتھ اس کے زمینی راستے ہیںجبکہ بنگلہ دیش اور انڈیاکے ساتھ اسکاسمندری راستہ ہے ۔ مرقومہ بالاسات ممالک میں گھرے دو لاکھ اکسٹھ ہزار مربع میل پہ مشتمل رقبے اور تقریبا پانچ کروڑ کی آبادی والے اس چھوٹے سے ملک کا دارالحکومت رنگون ہے ، اب اس کانیا نام رنگون ہے۔ اس ملک کو برٹش انڈیاسے آزادی ملنے سے قبل تاجروں کی جنت سمجھا جاتا تھا، یہی وجہ تھی کہ 1824 میں برما پہ برٹش گورنمنٹ کے قبضہ اور اسے برٹش انڈیا کا ایک صوبہ قرار دینے کے بعد برٹش انڈیا کے بڑے بڑے تاجروں جن میں گجراتی کاٹھیاواڑی مسلمانوںجوبھارتی صوبہ گجرات اور کاٹھیا واڑ کے رہائشی ہیں,کے علاوہ ہندئووں اور پٹھانوں کی بھی ایک چھوٹی سی تعداد بھی شامل تھی, نے تجارت اور رہائش کے لئے برما کے سب سے بڑے شہر رنگون کو چنا۔
برما منتقل ہونے والے عرب تجار کے علاوہ بھارتی گجراتی مسلمان، بہت تھوڑی تعدادمیں ہندو، ایک سو کے قریب پٹھان، دنوں میں کروڑوں میں کھیلنے لگے اور حالات اس مقام پہ آ پہنچے کہ پورے برما کی اقتصادی شہ رگ کے مالک مسلمان بن گئے!یہ متمول مسلمان اتنے زیادہ مال و دولت کے باوجود اتنے پکے دین دار تھے کہ انہوں نے نہ صرف پورے برمامیں مساجد و مدارس کے جال بچھایا بلکہ وہ سعودی عرب، ساوتھ افریقہ، کینیا، ملاوی، موزمبیق، مڈغاسکر، یوگنڈا، نائجیریا، ہندوستان میں مساجد، بڑے بڑے مدارس اور ہاسپٹلز کی سرپرستی اور مالی اعانت کرتے تھے!مسلمانوں کی دین پہ فداکاری برمی بدھسٹوںکو ناپسنداورناگوارتھی اوروہ برماکی آرمی کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف ناپاک سازشوں میں جٹ گئے ۔ مسلمانوں کے خلاف گھیرائوتنگ کردیاگیا جس کے نتیجے میںبودھوں اورمسلمانوں کے مابین تنائوپیداہوا ۔ چونکہ منصوبہ بڑامنصوبہ بندتھاجوبرمی فوج اوربرمی بدھسٹوں کے مابین طے پاچکاتھا،اس لئے دو مارچ 1962 ء کو برمی آرمی نے برمامیں مارشل لگادیا!مارشل لگاتے ہی ڈکٹیٹر اور اس کے ساجھے داربودھوں نے مسلمانوں کی املاک لوٹ لیں، ان کے بنک اکانٹس منجمد کردئے، کاروبارز پہ قبضہ کرلیا، اور ان کے بڑے بڑے گھروں کو سرکاری تحویل میں لے لیا، کل تک جو لوگ لاکھوں ٹیکسز اور فلاح عامہ کے کاموں میں اپنی خوشی سے صرف کرتے تھے، انہیں کوڑی کوڑی کو محتاج کردیا۔رات کو امیر سونے والے برمی مسلمان صبح اٹھے تو غریب تھے۔مسلمان تاجروں میں سے کئی تخت نشینوں کو تخت دار پہ لٹکا دیا گیا۔اس بدترین صورت حال کے پیش نظرلاکھوں مسلمان صرف اپنی اور اپنے بچوں کی جانیں بچاکے گرتے پڑتے تھائی لینڈ، پاکستان، بنگلہ دیش ،انڈیااوربعض پاکستان میں پناہ گزین ہوئے، ان میں سب سے زیادہ تعداد میں لوگ پہلے پہل پاکستان میں آکے کراچی میں آباد ہوئے اور پھر ان میں سے بہت بڑی تعداد انگلینڈ، یورپ، امریکہ، کینیڈا، اور سعودیہ میں جاکے آباد ہوگئے۔سعودی عرب میں 4 لاکھ، پاکستان میں 2 لاکھ، بنگلہ دیش میں 2012 تک 5 لاکھ، تھائی لینڈ میں 1 لاکھ، انگلینڈ میں 50 ہزار،جن میں سے انگلینڈ کے ایک شہر شیفیلڈ میں پانچ سو سے زیادہ گھرانے آباد ہیں،ملائشیا میں 41 ہزار، انڈونیشیا میں 12 ہزار، اور امریکہ میں بھی 12 ہزار ہیں۔برطانیہ سے آزادی کے بعد مسلمانوں کا پہلا قتل ِعام 1962 میں ہوا جب فوجی حکومت نے اقتدارسنبھالنے کے بعد مسلمانوں کو باغی قرار دے کر ان کے خلاف آپریشن شروع کردیا، جو وقفے وقفے سے 1982 تک جاری رہا اور اس میں کم و بیش 1 لاکھ مسلمان شہید ہوئے اور اندازا 20 لاکھ کے قریب مسلمان اس دور میں بنگلہ دیش، بھارت اور پاکستان کی طرف ہجرت کرگئے۔ برما کی فوجی حکومت نے 1982 کے قانون شہریت کے تحت روہنگیا نسل کے 8 لاکھ افراد اور برما میں موجود دوسرے دس لاکھ چینی و بنگالی، مسلمانوں کو شہری ماننے سے انکار کر دیا اور ان مسلمانوں کو اپنے علاقوں سے باہر جانے کی اجازت دینے سے بھی انکار کر دیا جس وجہ سے وہاں رکنے والوں پر عرصہ حیات مزید تنگ ہوگیا۔
روہنگیا مسلمانوں کی مظلومیت کی ایک تاریخ 1997 میں بھی رقم کی گئی جب 16 مارچ 1997کو دن دیہاڑے بے لگام بودھ راخین صوبے کے شہرمندالے کے مسلم اکثریتی علاقوں میں داخل ہوگئے اور مسلمانوں کے خون سے اپنی پیاس بجھانے لگے۔ گھروں، مسجدوں ،قرآن پاک کے مقدس نسخوں اوردینی کتابوں کو نذرِ آتش کردیا گیا، دکانوں کو لوٹ لیا گیا اور مسلمانوں کو ہجرت پر مجبور کردیا گیا ۔ اس فساد کی اگلی قسط 15 مئی سے 12 جولائی 2001 کے دوران اس وقت دیکھی گئی جب بودھوئوں نے ایک مسجد پر حملہ کرکے عبادت میں مصروف نمازیوں کو قتل کر دیا اور اس فساد کے نتیجے میں 11 مساجد شہید، 400 سے زائد گھروں کو نذرِآتش اور کم و بیش 200 مسلمانوں کوشہیدکردیا ۔ 1962 سے میانمار فوجی حکومت کے زیر اثر تھا۔ 2010 میں الیکشن ہوئے جس کے نتیجے میں طویل آمریت کا یہ سورج 2011 میں غروب ہوا اور ملک میں ایک نام نہاد جمہوری حکومت تشکیل دی گئی۔ اس دوران روہنگیا مسلمانوں نے بھی اپنے بنیادی انسانی حقوق اور شہریت کا مطالبہ دہرایا لیکن بڑی سختی کے ساتھ یہ آواز دبا دی گئی۔ مسلم کش فسادات کی ایک قسط مئی 2012 میں بھی نشر ہوئی جب ایک بودھ لڑکی نے اسلام قبول کرلیا جس پر بودھ بہت رنجیدہ ہوئے اور لڑکی کو گھر بدر کردیا، لڑکی نے مسلم آبادی میں پناہ لے لی۔ چند دن بعد اس لڑکی کی لاش ملی ۔ مسلمانوں نے الزام لگایا کہ بودھوئوں نے اپنی خفت مٹانے کے لئے اسے قتل کیا ہے جب کہ بودھوئوں نے تین مسلمان نوجوانوں کو اس قتل کا ذمہ دار قرار دے دیا۔ اس معاملے نے علاقے کے حالات کافی کشیدہ کر دئیے۔ اس کے بعد 3 جون 2012 کو بودھ بھکشوئوں نے زائرین کی ایک بس روکی اور اس میں سے عمرہ کی ادائیگی کرکے واپس آنے والے 10 مسلمان علما ء کو باہر نکال کرموت کے گھاٹ اتار دیا اور بس جلا دی۔ ساتھ ہی ساتھ بودھوئوں کی جانب سے مسلم اکثریتی علاقوں پر بھی دھاوا بول دیا گیا۔ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی اس قتل ِعام پر بہت واویلا کیا مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ پہلے پہل تو مقامی حکومت کی جانب سے اسے صاف جھٹلا کر حیلے بہانے کئے جاتے رہے اور متاثرہ علاقوں میں کرفیو لگادیا اور فوج بھیج کر صحافیوں کو فساد زدہ علاقوں سے نکال دیا گیا مگر اگست 2012 میں برطانوی ٹی وی چینل چینل فور نے ایک دستاویزی رپورٹ نشر کی جس میں دکھایا گیا کہ کس طرح مسلمان، کیمپوں میں جانوروں والی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اس کے علاوہ رپورٹ میں قریبا 10 ہزار مکانات کا ملبہ بھی دکھایا گیا جس کے بعد اقوامِ متحدہ کے ادار برائے پناہ گزین نے اپنی رپورٹ جاری کی جس کے مطابق تشدد کی اس لہر میں کم از کم 80 ہزار مسلمان اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔ اقوامِ متحدہ کی ایک اعلی عہدیدار نوی پلے نے انتظامیہ کے سلوک و رویے کے حوالے سے بھی ایک رپورٹ دی کہ مقامی پولیس اور بدامنی پر قابو پانے کیلئے بھیجے جانے والی فوج بھی بے گناہ مسلمانوں کو ہی نشانہ بنا رہی ہے۔
پھرجولائی 2012 میں برطانوی نشریاتی ادارے نے بنگلہ دیش کے کیمپوں میں مقیم روہنگیا مسلمانوں پر ایک رپورٹ شائع کی جس میں اکثر نے کہا کہ ان کے عزیزوں اور رشتہ داروں کومیانمار کی فوج نے قتل کیا۔ اکتوبر 2012 میں جب مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی نے مسلمانوں کی مدد کے لئے میانمار میں دفتر کھولنے کی اجازت طلب کی تو میانمار کے صدر نے نہ صرف اجازت دینے سے انکار کر دیا بلکہ یہ بھی کہا کہ اس طرح کے دفاتر لوگوں کی خواہشات سے مطابقت نہیں رکھتے۔ ہیومن رائٹس واچ نے بارہا عالمی برادری کے سامنے بے شمار ٹھوس دستاویزی اور تصویری ثبوت پیش بھی کئے اور اس ضمن میں اقوامِ متحدہ کے اس وقت کے سیکرٹری جنرل بان کی مون سے بھی اپیل کی کہ وہ تشدد روکنے میں اپنا کردار ادا کریں لیکن ساری کوششیں بے سود رہیں۔ دوسری جانب میانمار کی عالمی شہرت یافتہ لیڈرآنگ سان سوچی نے مسلمانوں کو صبر کی تلقین کرتے ہوئے یہاں تک کہا کہ مسلم دنیاکے رہنمائوں کو مسائل کی بنیاد دیکھے بغیر کسی خاص مقصد کے لئے کھڑے نہیں ہو جانا چاہئے، انسانی حقوق کی تمام تنظیموں نے اس پر سوچی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ انہیں اس قسم کے ردعمل پر سخت مایوسی ہوئی ہے۔ پھر2012 میں عین عید الاضحی کے موقع پر جانوروں کو ذبح کرنے پرمزیدسخت پابندی لگا دی گئی جس کے نتیجہ میں عیدالاضحی کے روز مسلمانوں پرہونے والے حملوںمیں 50 مسلمان شہیدہوئے اور ویسے بھی جہاں انسانوں کا گلا کاٹا جا رہا ہو وہاں سنت ِابراہیمی ؑکی یاد میں جانور نہ کاٹنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور فرق پڑتا ہی کسے ہے،تمام عالم ہی چپ چاپ تماشا دیکھنے میں مصروف ہے۔ میانمار کی حکومت اور اس کا موقف کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ میانمار کے صدر نے تو جولائی 2012 میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے صاف الفاظ میں کہا تھا کہ اس سارے مسئلے کا حل صرف یہی ہے کہ یا تو مسلمانوں کو ملک بدر کیا جائے یا پھر انہیں مہاجر کیمپوں میں منتقل کیا جائے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ اور اقوامِ متحدہ سمیت کئی عالمی اداروں نے حکومت سے غیر جانبدارانہ تحقیقات کا بارہا مطالبہ کیا ہے مگر ہمیشہ ٹال مٹول سے کام لیا جاتا رہا۔ ان عالمی اداروں کی کاوشوں سے مسلمانوں پرکئے جانے والے حملوں کی تحقیقات کیلئے 2012 میں مسلمانوں، بودھ، عالمی اور مقامی لوگوں پر مشتمل ایک کمیشن بھی تشکیل دیا گیا مگر عین وقت پر میانمار کی حکومت نے اقوامِ متحدہ کی قیادت میں کمیشن کو قبول کرنے سے انکار کردیا ۔ پھر مسلمانوں پرہورہے ان حملوں میں ایک ٹھہراؤ سا آگیا لیکن بعد میں یہ ثابت ہوا کہ یہ ٹھہراؤ ایک بڑے طوفان کا پیش خیمہ تھا کیونکہ اس کے بعد فسادات کی لہر راخین سے نکل کر برماکے سب سے بڑے شہر رنگون تک پہنچ گئی۔ اس تمام عرصے کے دوران متاثرہ علاقوں میں کرفیو لگا رہا جب کہ مسلم ممالک اور انسانی حقوق کے دعوایدار روز روز کی اس چخ چخ اور بک بک سے تنگ آ چکے تھے۔اسی دوران 2013 میں مسلمانوں کی نسل کشی کیلئے میانمار کے دو صوبوں میں ایک سے زیادہ بچے پیدا کرنے پر بھی پابندی عائد کردی گئی جب کہ ان کے خلاف قتل و غارت گری کا بازار گرم کرنے کا سلسلہ بھی ساتھ ساتھ چلتا رہا۔ بودھوئوں سے تو کسی کو کوئی گلہ بھی نہیں تھا کیونکہ وہ اپنے انداز میں گوتم بدھ کے اہنسائی فلسفہ کو نکار رہے ہیں ۔اُن کا فلسفہ ٔ اخلاق یہ تھا کہ جس نے کسی جانور کو بھی قتل کیا تو وہ ایسے ہی ہے جیسے اس نے کسی انسان کو قتل کیا۔ میانمار کے بودھ بھکشوئوں نے اسے یہ معنی پہنا لئے کہ جس نے کسی انسان کو قتل کیا تو وہ ایسے ہی ہے جیسے اس نے کسی جانور کو قتل کیا۔ البتہ مسئلہ توروہنگیا مسلمانوں کا تھا کہ وہ کہاں جاتے، کس کو دکھڑے سناتے۔
(بقیہ جمعرات کےشمارے میں ملاحظہ فرمائیں)