اسلام حکم دیتاہے کہ جب تم پر زمین تنگ کردی جائے تو ہجرت کر جا، روہنگیا ئی ہجرت کرکے بنگلہ دیش پہنچے جہاں پر ان کا گولیوں کے ساتھ استقبال کیا گیا، کئی مرگئے، کچھ زخمی ہوئے مگر مجال کہ کسی نے دنیا کے اس سوتیلے بچے کو جسے اس کا ملک بھی تسلیم نہیں کرتا، اپنانے میں حامی بھری ہو۔ انڈونیشیا، ملائشیا، تھائی لینڈ، سنگا پور، سری لنکا، کون سا ایسا ملک تھا جہاں انہوں نے رحم طلب نگاہوں سے پناہ کی اپیل نہ کی ہو۔ وہ بھارت گئے مگر وہاں بھی ردعمل مختلف نہ تھا۔ یہ تو فطرتِ انسانی ہے کہ وہ مہمان کو بھی چند دن سے زیادہ قبول نہیں کرتی۔ اسی لئے بنگلہ دیشی حکومت نے اپنا اصل رُخ دکھلایا اور جو پناہ گزین بنگلہ دیش میں محصور تھے انہیں فوری طور پر بنگلہ دیش سے نکل جانے کو کہا۔ یہ ساڑھے تین ہزار افراد خدا کے سہارے کشتیوں میں بیٹھ کر نکل پڑے کہ شاید کوئی ان پر مہربان ہوجائے مگر یہ تو دنیا کے لئے ایک پنگ پانگ بال کی حیثیت رکھتے تھے، بنگلہ دیش نے بال کو ہٹ کیا تو یہ سری لنکا پہنچا، وہاں سے ہٹ ہوئے تو تھائی لینڈ، وہاں سے ملائیشیا، وہاں سے انڈونیشیا، وہاں سے سنگاپور۔ دنیا کو کیا فکر کہ یہ انسانوں کی کیا دُرگت ہو رہی ہے، ان کے بھی کچھ حقوق ہیں، سب کو اپنا بارڈر محفوظ اور پناہ گزین سے پاک چاہئے تھا۔ 2013 میں پھر برما میں روہینگا مسلمانوں کے خلاف فسادات کیے گئے۔
برماکے ایک صوبہ ہے جسے دو ناموں سے پکارا جاتا ہے، نیا نام رخین اور پرانا نام اراکان!برما کے مغرب میں بے آف بنگال کے ساتھ واقع رخین ( Rakhine ) صوبہ جسے اراکان Arakan ) )کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، پانچ اضلاع پہ مشتمل ہے، جس میں 17 ٹان چھوٹے شہراور 1164 دیہات ہیں۔اراکان صوبہ کا کل رقبہ 36778 مربع کلومیٹر ہے۔اس صوبہ کی کل آبادی 2014 کی حکومتی مردم شماری کے مطابق 32 لاکھ افراد پہ مشتمل ہے لیکن اس تعداد میں سب سے اہم اور بنیادی بات یہ ہے، کہ اس مردم شماری میں مسلمانوں کو گنا ہی نہیں گیا!صرف اندازے سے مسلمانوں کی تعداد بتائی گئی۔انہیں روہنگیا یا روہنگن مسلمان کہا جاتا ہے۔روہنگیامسلمانوںکے مطابق اراکان صوبہ میں 2012 سے پہلے تعداد پچیس لاکھ سے زائد تھی۔ان کے علاوہ پورے اراکان صوبہ میں 380 سے زائد دیہاتوں کی پچانوے فیصد سے زائد آبادی روہنگیا مسلمانوں کی تھی، جن میں سے ہر گائوں کی آبادی چھ سے دس ہزار افراد تھی اور بقیہ 784 دیہاتوں اور 17 ٹانز میں بھی دس تا پندرہ فیصد روہنجن مسلمان آباد تھے۔حکومتی اعداد و شمار کے مطابق اراکان میں 52.2 فیصد بدھ 42.7 فیصد مسلمان 1.8 فیصد کرسچئن 0.5 فی صد ہندو اور بقیہ 2.8 فیصد دیگر اقوام ہیں۔برما میں 1962 کے مارشل لا کے بعد کچھ اصلاحات نافذ کی گئیں، جن میں تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والی اقوام کی رجسٹریشن لازمی قرار دی گئی، جن اقوام کی بھی رجسٹریشن کی گئی، مسلمانوں کو چھوڑ کے بقیہ تمام اقوام کو کچھ عرصہ بعد شناختی کارڈ بھی جاری کئے گئے،برما کے قانون کے مطابق جس شخص کے پاس برمی شناختی کارڈ موجود ہے، وہ برما میں کسی بھی جگہ سفر کرسکتا ہے، یا برما سے باھر جانے کے لئے پاسپورٹ بنواسکتا ہے، جس کے پاس شناختی کارڈ موجود نہیں، وہ شخص دن کی روشنی میں صرف اپنے شہر میں گھوم پھر بھی سکتا ہے، محنت مزدوری یا چھوٹا موٹا کاروبار بھی کرسکتا ہے، لیکن رات کو صرف اپنے ہی گھر میں سو سکتا ہے، اپنے ہی شہر میں کسی بھی قریبی ترین عزیز چاہے وہ بیٹا بیٹی ہو یا باپ ماں کے گھر میں رات کو قیام کرنے سے قبل اسے پولیس کو اطلاع کرکے ان سے اجازت حاصل کرنا ضروری ہے، اگر کوئی شخص بلا اجازت اپنے کسی عزیز کے گھر میں ٹھہرتا ہے، تو شکایت ہونے پہ اسے کم از کم ایک ماہ کے لئے جیل میں ڈال دیا جاتا ہے، مالی جرمانہ اتھارٹیز کی صوابد ید پہ ہے، جتنا مرضی کرلیں، میزبان پہ علیحدہ اور مہمان پہ علیحدہ!
برما میں نافذقانون شہریت کے ذریعے سے برمی شہریت کا حصول ناقابل حصول بنادیاگیا، بنیادی طور پہ یہ قانون بنایا ہی صرف مسلمانوں کے لئے کیا گیا تھا،مسلمان ہی واحد قوم تھی کہ جس نے اپنے دین کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھا، اور اپنے اسلامی کلچر اور رسم و رواج سے بھی بندھے رہے، ہزاروں میں کسی ایک کے علاوہ اکثریت نے اپنی اور اپنے بچوں کی شادیاں مسلمانوں ہی میں کیں، یوں وہ ایک ایسے ملک میں جہاں کے مجموعی قومی اعداد و شمار میں تمام مسلمانوں کی مجموعی تعداد 4.3 فیصد سے زائد نہیں تھی، اپنا مذہبی تشخص صدیوں تک برقرار رکھنے میں کامیاب رہے، حالانکہ اسی ملک میں کرسچن آبادی کی تعداد 6.2 فیصد ہے، لیکن جو پابندیاں مسلمانوں پہ ہیں، وہ ان پہ نہیں، بلکہ انہیں برمیز یعنی پہلے درجہ کے شہری کی مراعات حاصل ہیں،اراکان میں رہنے والے روہنگیامسلمان نہ تو سرکاری ملازمت حاصل کرسکتے ہیں، اور نہ ہی اسٹیٹ کے فری اسکولز میں اپنے بچوں کو داخل کرواسکتے ہیں، اور نہ ہی ان کی نوے فیصد سے زیادہ اکثریت نے آج تک اپنے ملک کے دارالحکومت کا تو کیا، اپنے ہی صوبہ میں اپنے ضلع کے علاوہ بقیہ چار اضلاع کا منہ دیکھا ہے، کیونکہ انہیں ایک مقام سے دوسرے مقام تک جانے کے لئے سفری اجازت نامہ بھی کسی بدھسٹ کی سفارش اور بھاری رشوت کے حصول کے بعد جاری کیا جاتا ہے، اور یہ دونوں کام ان کے مسلمان ہونے اور غریب ہونے کی وجہ سے مشکل نہیں ناممکن ہوتے ہیں۔
اراکان میںپچاس کی دہائی میں علیحدگی کی تحریک شروع ہوئی جوبلالحاظ مذہب وملت تھی لیکن سفیدکتاکالے کتے کابھائی ہوتاہے ،کے مصداق بالآخراراکان کے بدھسٹوں نے اس تحریک کاساتھ چھوڑدیا جس کے باعث مسلمانوں پہ عرصہ ٔ حیات تنگ کردیا گیا تو مسلمانوں نے ہلکا پھلکا احتجاج کا سلسلہ شروع کیا، لیکن 1962 کے مارشل لا کے بعد پورا ملک ایک جیل خانہ میں تبدیل ہوگیا تھا اور پھر اس جیل کے اندر ایک اور جیل تھی جس کے قیدی صرف مسلمان تھے، چاہے وہ اراکان میں تھے، رنگون میں تھے، یا ملک کے دیگر حصوں میں، ان پہ روزگار اور تعلیم کے مواقع مکمل بند کردئے گئے، کچھ عرصہ بعد رنگون اور دیگر صوبوں میں حصول تعلیم کے لئے کچھ چھوٹ دے دی گئی، لیکن اراکان میں مسلمانوں کی اکثریت چونکہ انتہاء غریب تھی، اکثریت کھیتی باڑی، ریڑھی، ٹھیلا، اور ماہی گیری کے کاموں سے منسلک تھی، انہیں کسی بھی چھوٹ کے قابل نہ سمجھا گیا، عام بدھسٹ آبادی تو ان معاملات سے لاتعلق رہی، لیکن سرکاری اتھارٹیز یعنی فوج، پولیس، اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ظلم و ستم کا وہ بازار گرم کئے رکھا کہ الامان الحفیظ!اگر کوئی شخص کسی ناروا سلوک یا ظلم وستم پہ ذرا سی آواز بھی بلند کرتا تو اس کے پورے خاندان کو صفحہ ہستی سے مٹادیا جاتا، مارشل لاء سے قبل جو تھوڑی بہت چھوٹ تھی ،فوجی راج کے بعد اتنی ہی زیادہ سختی کردی گئی،تاہم لاوا اندر ہی اندر پکتا گیا۔پہلی بار 1978 میں چند لوگوں نے اس ظلم و ستم کے خلاف احتجاج کیا تو روہنگیامسلمانوں کے علاقوں میںملٹری کریک ڈائون کیا گیا، سینکڑوں کو بے دردی سے شہیدکردیاگیا، ہزاروں کو جیلوں میں بھردیاگیا، ہزاروں لاپتہ ہوگئے، اور دو لاکھ سے زائد لوگ سمندری راستہ سے بنگلہ دیش میں داخل ہوئے، بہت تھوڑے لوگ بنگلہ دیش میں رکے زیادہ تر بنگلہ دیش سے پاکستان، سعودیہ، تھائی لینڈ، ملائشیا، انڈونیشیا اور دیگر ممالک میں جابسے۔اس زمانے میں نہ تو کسی غیر ملکی کو اراکان صوبہ میں داخلہ کی اجازت تھی، اور نہ ہی کوئی روہنگیامسلمان اپنے ضلع کے صدر مقام کے علاوہ کہیں آجا سکتا تھااور وہ بھی خصوصی اجازت کے ساتھ اور نہ ہی کسی انٹرنیٹ یا سوشل میڈیا کا کوئی تصور موجود تھا۔اس زمانے میں انٹرنیشنل خبروں کے لئے وائس آف امریکہ یا بی بی سی لندن کی ریڈیو سروسز ہی دو ذرائع تھے، لیکن ان کی توجہ اور دلچسپی کے لئے اس وقت اور بہت سے معاملات تھے، خصوصا ًافغانستان میں روس کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ اور شہنشاہ ایران کے ایران میں کروٹیں لیتا انقلاب !اس لئے ان دونوں عالمی نشریاتی اداروں کی توجہ سے روہنگیامسلمانوں کا قتل عام اور دربدری محروم رہی، جب کہ نام نہاد امن کے پرچارک فرقہ پرست دہشت گرد ظلم و بربریت کا ناچ ناچتے رہے اور انسانیت ان کے امن کے پھولوں سے لہولہان ہوتی رہی۔اس کے بعد1992میںایک بارپھر ملٹری کریک ڈائون ہوااورمسلمانوں کوتہ وتیغ کیاگیا۔روہنگیائی مسلمانوں کا قتل عام حالیہ تاریخ کا بدترین اورمنظم قتل عام ہے ۔ یہ بات حیرت انگیز ہے کہ عالمی ضمیر اس قتل عام پر مسلسل خاموش رہنا کیسے گوارا کررہا ہے؟حالانکہ اس ضمن میں عالمی برادری کی طرف سے عزم نو کے ساتھ نئی سفارتی اور دفاعی کوششیں شروع کئے جانے کی اشد اور فوری ضرورت ہے۔ روہنگیائی مسلمانوں کی حالت ِزار انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں کے علا وہ ان عالمی فورموںکیلئے بھی ایک امتحان ہے کہ جودنیامیں امن قائم کتنے کادعوی رکھتے ہیں۔ برمی بودھوں کی دہشت گردی پرکوئی بول نہیں رہاجب کہ مہذب دنیا انسانی اقدار کالحاظ رکھنے کی پابندہے۔
روہنگیائی مسلمان مہاجرین کی موجودہ حالت زار اُمت مسلمہ کے لیے ایک سوالیہ نشان ہے ۔ برما میں مسلح بدھسٹ فرقہ پرست عناصر جس طرح وہاں کے بے یار و مدد گار مسلمانوں کا قتل عام کرکے، انہیں جلائے وطن ہونے پر مجبور کیا جاتا ہے اور ان کی ہجرت کے بعد فوج اور سرکاری انتظامیہ کی واضح مدد سے ان کی زمینوں اور مکانوں پر جبری قبضہ کیا جاتا ہے لیکن ستاون مسلمان ممالک کے حکمران اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں اور اقوام متحدہ اور دیگر عالمی ادارے تماشائی کا رول ادا کرکے گویا اس قتل و غارت گری کی خاموش حوصلہ افزائی کے مرتکب ہورہے ہیں ۔ کیا دنیا کے اتنے بڑے بڑے مسلمان ممالک جو قدرتی وسائل اور وسعت اراضی سے مالا مال ہیں ، ان چند لاکھ مسلمانوں کو اپنے ممالک میں عارضی طور پر بھی پناہ فراہم نہیں کرسکتے ہیں ؟ کیا دنیائے انسانیت انسانی ہمدردی اور اخوت سے بالکل ہی محروم ہوچکی ہے اور مظلوم و معتوب انسانوں کی آہ و فغان کو بھی سن نہیں پا رہے ہیں ؟ ہزاروں روہنگیائی مسلمان پناہ کے لیے در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں اور کوئی بھی ملک انہیں پناہ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ اس کے نتیجہ میں سینکڑوں کی تعداد میں یہ بے کس آئے روز کھلے سمندروں میں کشتیوں کو اپنی پناہ گاہیں بنانے پر مجبور ہوئے ہیں اور آس پاس کے ممالک انہیں اپنی سرحدوں کے اندر داخل ہونے نہیں دے رہے ہیں ۔ انسانوں کے ساتھ انسانوں کا یہ سلوک تاریخ کا ایک ایسا المیہ ہے جس کی بہت ہی کم مثالیں دور ظلمت کی تاریخ میں بھی مل پاتی ہیں ۔ انسانی حقوق کی علمبرداری کا دعوی کرنے والے جیسے زمین سے ہی غائب ہوگئے ہیں کہ انسانیت کی کھلی پامالی بھی ان کو نظر نہیں آرہی ہے۔
حق یہ ہے روہنگیائی مسلمانوں کے حالات ہماری سوچ سے زیادہ سنگین ہیں ، جونظرآرہا ہے وہ صرف کچھ جھلکیاں ہیں جو کچھ لوگ اس جہنم زار سے باہر نکال لاکر دنیا تک سوشل میڈیا کے ذریعے مختلف شکلوں میں پہنچاتے ہیں ۔عالمی برادری ابھی تک اس مسئلہ کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی ۔عالمی برادری کو چھوڑئیے مسلم ممالک بھی روہنگیائی مسلمانوں کی امداد سے منہ موڑے ہوئے ہیں ۔ہمیں مسلکی ، قومی،لسانی اور سرحدی اختلافات کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپنے ان مظلوم ترین بھائیوں کی مدد کے لئے کچھ کار آمد اور موثر انداز میںکر نے کے علاوہ میانمارکی حکومت کو مجبورکرنا ہوگا کہ وہ روہنگیائی مسلمانوں کو بنیادی حقوق دے ۔انسانی حقوق کی تنظیموں کو میانمارمیں ہونے والے انسانیت سوز مظالم کو لے کر اقوام متحدہ سمیت دیگر اداروں پرآوازاٹھانا ہوگی ۔اس وقت روہنگیائی مسلمانوں پر جو ظلم وستم ہورہا ہے وہ اس قدر شدید ہے کہ لوگ ہولوکاسٹ کو بھول جائیں گے لیکن میڈیا بھی ریٹنگ کے چکر میں انسانیت پرہونے والے مظالم کے خلاف آواز نہیں اٹھا رہا ۔ ستم بالا ئے ستم یہ کہ اقوام متحدہ کے کئی تحقیقاتی اور امدادی مشنز کو برما میں داخلے سے روک دیا گیا لیکن اس باوجود اقوام متحدہ اہل برما کے حق میں کوئی واضح اسٹینڈ لیتی ہوئی نظر نہیں آتی۔ برمی حکومت کی قائد آنگ سان سوچی کہنے کونوبل انعام یافتہ خاتون ہیں۔ یہ کیسا نوبل امن انعام ہے جو ایک ایسی ڈائن نماعورت کو دیا گیا جس کے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے رنگین ہیں اور جس نے کبھی بھی وسیع پیمانے پر مسلمانوں کی نسل کشی کے جرم کے خلاف دوبول بھی نہ بولے؟ ماضیٔ قریب تک اپنے تمام انٹرویوز میں اس نے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کا یکسر انکار کیا ہے اور اس تمام قتل عام کو’’ دوطرفہ خوف کا نتیجہ‘‘ قرار دیا۔ اب بڑی بے تکلفی سے برمی مسلمانوں کی نسلی تطہیر کو مسئلہ کشمیر سے مشابہ قراردے رہی ہے۔ اگرچہ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں کا مطالبہ یہ ہونا چاہیے کہ آنگ سان سوچی کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں انسانیت کے خلاف جرائم اور جارحیت پر مقدمہ چلا یا جائے لیکن ان تنظیموں کا ٹریک ریکارڈ یہ بتاتاہے کہ اس نے آج تک کبھی بھی کشمیری اور فلسطینی عوام کے ساتھ ہونے والے انسانیت سوز مظالم پر آواز نہیں اٹھائی ۔ مزید برآں اہل برما کے ساتھ ہونے والے انسانیت سوز مظالم کو پچھلے کئی برسوں کے دوران الیکٹرونک میڈیا پر بھی خاطر خواہ کوریج حاصل نہیں ہو سکی۔ ظلم کی یہ انتہا کہ برما کے مظلوم مسلمان بے چارگی اور بے نوائی کے عالم میں مر رہے ہیں اور دنیا بھر میں مسلم ممالک کے سربراہان ان کی حالت زار پر خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ مسلم ممالک میںقومی ریاستوں کے تصور نے امت کے دردمشترک اور قدر مشترک پر اتنی گہری ضرب لگائی ہے کہ آج اگر کسی ایک مقام پر مسلمان مظلوم یا معتوب ہوں تو دیگر اقوام وممالک سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کی آنکھ بھی نہیں پھڑکتی کیونکہ وہ اپنے آپ کو اس ظلم سے محفوظ ومامون سمجھتے ہیں۔ یہ خود غرضی ، خود فریبی اور نفسا نفسی اس حد تک آگے بڑھ چکی ہے کہ ایک ہی وطن اور ملک میں بسنے والے افراد بھی قومی لسانی تقسیم اور اختلاف کی وجہ سے ایک دوسرے کے دکھ درد کو صحیح طریقے سے محسوس نہیں کرپاتے ۔قرآن مجید کی سورت الحجرات میں اللہ تعالی نے اس حقیقت کو واضح کیا ہے کہ بے شک مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ اسی طرح حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ مسلمانوں کی مثال ایک جسد واحد کی مانند ہے کہ جسم کے ایک حصے میں درد ہو تو باقی سارا جسم بھی اس درد کو محسوس کرتا ہے ؎
اخوت اس کو کہتے ہیں چبھے کانٹا جو کابل میں
تو ہندوستان کا ہر پیرو جواں بے تاب ہو جائے
روہنگیوں کے انسانی المیے پر اقوام عالم بالخصوص امت مسلمہ کو جہاں پر اپنا کلیدی کردار ادا کرنا چاہیے، وہیں پر یہ بات بھی زیر نظر رہنی چاہیے کہ مسلم دنیا کے واحد ایٹمی قوت پاکستان ایک نظریاتی اسلامی ریاست ہے اور اس مناسبت سے ا س کا ایک رول بنتاہے ۔ اسے خاص کر ترکی کے سربراہ رجب طیب اردوعان سے سبق حاصل کرنا چاہیے کہ وہ کس طرح اس مسئلے پر اسلامی اخوت اور بھائی چارے کا مظاہرہ کر تے ہوئے تمام ممکنہ تدابیر اختیار کرنے پر آمادہ وتیا رہیں۔ سعودی عرب جو اس سے قبل بھی دو لاکھ روہنگیا مسلمانوں اپنے ملک پناہ دے چکا ہے ،وہ بھی اس مسئلے کو اقوام متحدہ کی سطح پر اٹھانا چاہتا ہے۔ بہر حال روہنگیا کہ زخم مسلمانوں کے دل وجگر پر درد کی ٹیسیں اٹھارہاہے مگر ابھی تک ہم دماغ سے یہ طے نہیں کر پاتے کہ برمی مسلمانوں کا قتل عام کو کیسے روکا جائے اور انہیں کس طرح سلب شدہ حق ِ حیات دلایاجائے ۔ ( ختم شد)