قیصر محمود عراقی
کتب بینی ایک ایسا بہترین شوق اور محبوب مشغلہ ہے جس کے بدلے ہفت اقلیم کی سلطنت بھی ہیچ ہے ۔ اگر آپ کتب بین واقع ہو ئے ہیں اور رات کو اپنی خواب گاہ سے محض اس لئے دور رہتے ہیں تا کہ آپ اپنا قیمتی وقت عظیم لوگوں کی صحبت میں گزاریں تو یہ آپ کے لئے بہت ہی مبارک اور اچھا شگون ہے ۔ یہ عادت جس شخص کے اندر پیدا ہو گئی اُس کو سارے جہاں کے خزانوں کی چابیاں مل گئیں ۔ اس کے بر عکس جو شخص کتب بینی کی لذت سے محروم رہا وہ دنیا کی بہترین نعمت کے ذوق سے محروم رہا ۔یاد رکھیں ! کتب بینی ایک ایسا عمل ہے جو آپ کو فرش سے عرش اور خاک سے افلاک تک پہنچا دیتا ہے ۔ علم کی دولت سے مالا مال شخص خود بھی راہِ راست پر چلتا ہے اور دوسرے کے لئے بھی مشعل راہ کا کام دیتا ہے ۔یہ کسی کی اجارہ داری نہیں بلکہ ہر وہ شخص جس کے اندر جذبہ ، لگن ، شوق اور مستقل مزاجی کی صفات موجود ہو، اس عمل کو پروان چڑھا کر علم کے سمندر سے دُر نایاب سمیٹ سکتا ہے ۔ ہمارے اسلاف میں یہ وصف حمیدہ بدرجہ اُتم موجود تھی اسی لئے آج ایک طویل زمانہ گزرنے کے باوجود بھی اُن کے نام آسمان علم کی اُفق پر جگمگارہے ہیں ۔ امام غزالیؔ ، ابو نصر الفارابی ، ابن سینا ، ابن رشد ، ابن الہیشم جابربن حیان اور الکندی جیسے جلیل القدر اشخاس کی کتابیں آج بھی یورپ اور امریکہ کے کتب خانوں کی زینت ہیں ۔ویسے تو ہمارے اسلاف میں علمی دنیا کے وہ وہ قد آور ستون موجود ہیں جن کے ناموں اور کارناموں کا احصادشوار ہے مگر انہوں نے ہمیشہ اپنے اسلاف کو مطالعہ اور ’’ کتب بینی ‘‘ کا ذوق اُبھارنے کا درس دیا ۔ اسلامی دنیا کے علاوہ دنیا کے دیگر گوشوں میں علم کی تا بانی سے عالم کو منور کر نے والے اور ہر سو اُجاگر پھیلانے والے ایسے لوگ گذرے ہیں جن کا اوڑھنا بچھونا ہی کتب بینی اور کتاب دوستی تھا ۔ اما م زہری ؒ کے مطالعہ کا یہ عالم تھا کہ ادھر اُدھر کتابیں ہو تیں اور اُن کے مطالعہ میں ایسے مصروف ہو تے کہ دنیا و مافیہا کی خبر نہ رہتی ، بیوی اُن کے اس عادت سے سخت پیچ و تاب کھاتی ، ایک دفعہ بیوی نے بگڑ کر کہا ’’ اللہ کی قسم یہ کتابیں مجھ پر تین سوکنوں سے زیادہ بھاری ہیں ۔ میکالے کا قول ہے کہ ’’ وہ شخص نہایت ہی خوش نصیب ہے جس کو مطالعہ کا شوق ہے ؟ مشہور انگریز شاعر شیلے کہتا ہے ’’ مطالعہ ذہن کو جلا دینے کے لئے اور اس کی ترقی کی لئے بہت ضروری ہے ۔ ‘‘ امریکہ کا مشہور صدر ابراہیم لنکن کہتا ہے ’’ کتابوں کا مطالعہ دماغ کو روشن کر تا ہے ‘‘۔ والٹیر کا قول ہے وحشی اقوام کے علاوہ تمام دنیا پر کتابیں حکمرانی کرتی ہیں ۔رینے ذیس کا رئیس کتب بینی کے بارے میں کہنا ہے کہ ’’ تمام اچھی کتابوں کا مطالعہ کر نا ایسے ہی ہیں جیسے ماضی کی بہترین اشخاص کے ساتھ گفتگو کی جا ئے ۔ کتب بینی ایک بہترین مشغلہ بھی ہے ۔ چنانچہ ہمارے معاشرے میں آج بھی ایسے زندہ کر دار موجود ہیں جو کتب بینی جیسے عظیم الشان کام کو بطور مشغلہ اختیار کئے ہو ئے ہیں اور دن دو گنی رات چوگنی علم کے خزانوں میں سے موتی چننے میں مصروف اور اپنا حصہ سمیٹنے میں مشغول ہیں ۔ اکثر نوجوان کتب بیزار ہی واقع ہو ئے ہیں ۔ وہ اپنی نظر کے سامنے ’’ کتاب ‘‘ کے علاوہ ہر چیز کی موجودگی بر داشت کر سکتے ہیں ۔ کتاب پڑھنا اُن کے لئے جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔ وہ دنیا کی ر نگینوں ، فضول اور واہیات مجلسوں ، ڈراموں اور فلموں کو کتب بینی کے عوض خرید چکے ہیں اور اس سودا پر بہمہ و جود راضی و قانع ہے ۔ ایک بڑی تعداد نوجوانوں کی ایسی بھی ہے جو کھیل کود ، ناچنے تھرکنے ، نت نئے فیشن اختیار کر نے ، ملبوسات کے نئے اسٹائلز زیب تن کر نے، بالوں کی تراش خراش درست کر نے اور خوب سے خوب تر بلکہ خوب رو ہو نے میں اپنا قیمتی وقت ضائع کر رہے ہیں ۔ انِ اُمور سے کئی گنا اہم کام اُن کی نگاہ میں فضول ، بے معنی ، بے وقعت اور ہیچ ہیں ۔ ایسے لوگوں کے ان معاشرتی رویوں اور بے کار مشغولیات کا ایک سبب ان کے والدین بھی ہیں جو ان کی اصلاح ، تر بیت کو ہمیشہ کے لئے خیر باد کہہ چکے ہیں ۔وہ اپنے بچوں یا نوجوان بیٹوں کو عمر عزیز کی بہاروں سے زیادہ سے زیادہ لطف اندوز ہو نے کا درس دے کر اُن کے مستقبل کو ہی نہیں بلکہ قوم کے مستقبل کو بھی مخدوش کر دیتے ہیں ۔ اس لئے کہ یہی نونہالان قوم کل ملک و ملت کی کشتی کے ناخدا بنیں گے ۔ نتیجہ کے طور پر ایک ایسی نسل پیدا ہو رہی ہے جو تعلیم کے زیور سے محروم اور لغویات کی بھر مار کا پلندا ہے ۔ یہ کتب بینی سے دوری اور ُبعد ہی کا نتیجہ ہے کہ ہمارے نوجوانوں میں اپنے اسلاف کی قدر دانی اور مر تبہ شناسی کا عنصر ناپید ہے ۔ اساتذہ اور ہمسایہ کے حقوق سے عدم واقفیت اپنے عروج پر ہے۔ اس سے زیادہ پرُ خطر باعث تشویش قابل غور اور قابل اصلاح بات یہ ہے کہ نئی نوجوان نسل کا رویہ اپنے والدین کے ساتھ بھی قابل افسوس ،قابل ماتم اور قابل مذمت ہے ۔ اگر ہم اپنی نئی نسل کو کتب بینی کی لذت ، حلاوت ، شیر بینی اور چاشنی سے آگاہ کریں اور انہیں مطالعہ کا خوگر بنائیں ۔ ایسے مشرقی روایات کی پاسداری کا پابند بنائیں اور سچے مسلمان ہو نے کا درس دیں تو قوی امید اور امکان ہے کہ ہمارے معاشرے میں بڑے پیمانے پر حقیقی معنوں میں تبدیلی آ جائے گی ۔
رابطہ۔ 6291697668