اللہ تعالیٰ کی حکمت کو کون جانتا ہے۔اسکے فیصلے حکمت پر مبنی ہوتے ہیں۔وہ اپنا فیصلہ سنانے میں کسی کا محتاج نہیں۔وہ جب جو چاہے کر سکتا ہے۔اسکے فیصلے حتمی ہوتے ہیں۔کسی کی مجال ہی نہیں کہ وہ اسکے کسی بھی حکم کے خلاف احتجاج کرے۔اسکے حکم کے آگے ہر کوئی سر خم ہو جاتا ہے۔انسان کی فطرت ہے کہ وہ جلد اپنے حاجات کو پورا ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہے۔جب اسکی خواہشات پوری ہوتی ہیں تو وہ خوشی سے پھولے نہیں سماتا ہے اور جب وہ پوری نہیں ہوتی ہیں تو غمگین ہو جاتا ہے،فکرمند ہوتا ہے اور پریشانی کے عالم میں چلا جاتا ہے۔انسان کی فطرت کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان جلد باز ہے یعنی وہ ہر کام کو جلد پورا ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہے۔کچھ ایسے بھی افراد ہیں جو صبر کا دامن تھامے رکھتے ہیں۔انہی لوگوں کے خوشگوار انجام کو دیکھ کر یہ الفاظ زبان پر بے ساختہ نکل آتے ہیں کہ'صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے'۔وہ لوگ عمر بھر اپنے صبر کے عوض مٹھاس کو محسوس کرتے ہیں۔صبر کرنے کے بعد جو چیز مل جاتی ہے وہ چیز یقیناً بہت ہی اچھی ہوتی ہے۔اور پھر اس چیز کی قدر و منزلت بھی بڑھ جاتی ہے۔
انسان کو سمجھنا چاہیے کہ ہم اس دنیا میں رہ رہے ہیں جہاں ہر کوئی خواہش پوری نہیں ہوتی ہے۔اگر ایسا ہی ہوتا تو پھر اسکا نام دنیا نہیں بلکہ جنت ہوتا۔لیکن انسان کی خواہشیں دن بہ دن بڑھتی جاتی ہیں۔یہاں تک کہ اسلام نے انسان کو اسطرح پیش کیا ہے کہ اگر اسے سونے کی ایک وادی دی جائیگی تو یہ اسی پر اکتفا نہیں کریگا، بلکہ دوسری سونے کی وادی کی تمنا کریگا۔اسے اطمینان قلب نہیں ہوگا۔اسی لیے کہا گیا ہے کہ قبر کی مٹی ہی اسکا پیٹ بھرے گی۔کسی شاعر نے کیا ہی اچھے طریقے سے اسی بات کو پیش کیا ہے۔
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارمان پھر بھی بہت کم نکلے
حقیقت میں وہی شخص افضل و برترہے جسے جب اللہ تعالیٰ جو کچھ بھی دے اس پر وہ شکر ادا کریں اور جن چیزوں کی انہیں بہت خواہش ہو اور انکو وہ نا ملے تو اس پر صبر کا مظاہرہ کرے۔یہ چیزیں ایمان کی نشانیوں میں سے ہیں۔شکر سے نعمتیں بڑھ جاتی ہیں اور صبر سے اللہ پاک نعم البدل عطا فرماتا ہے۔اچھے،نیک اور بصیرت والے اشخاص وہ ہوتے ہیں جو اللہ پاک کے فیصلوں کو حق جانے،انکااحترام کرے،انہیں دل و جان سے قبول کریں ،اسی میں خیر سمجھے اور وہ شخص معیاری نہیں ہیں جو اللہ پاک کے کسی فیصلے کو اپنی چاہت اور مرضی کے خلاف محسوس کرتے ہیں تو بہت جلداپنے مالک کے فیصلے کے خلاف بول اٹھتے ہیں،بہت ہی نا شائستہ الفاظ بولتے ہیں۔یہ دراصل اس عظیم اللہ کے فیصلہ کی حکمت کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہوتا ہے۔کاش اسے اس فیصلہ کی عظیم حکمت کا پتہ چلتاتو اپنے خالق و مالک کے ہر فیصلہ کو خوش دلی سے قبول کر لیتا۔
اپنے اردگرد جب دیکھتے ہیں تو بہت مثالیں ایسی ملتی ہیں جن کو دیکھ کر انسان فکرمند ہو جاتا ہے اور ایک الگ دنیا میں چلا جاتا ہے۔ہمارے مشاہدے میں ہے کہ بہت سارے ایسے میاں بیوی ہیں جو سالہاسال انتظار کرتے رہتے ہیں اور اس امید کے سہارے جیتے ہیں کہ کبھی نہ کبھی وہ وقت آئیگا جب انکی گود میں بھی بچہ ہوگا۔ وہ بھی اسے دوسروں کی طرح پیار کرینگے۔کچھ ایسے بھی غمگین چہرے ملتے ہیں جنہیں اگر چہ اللہ پاک اولاد نصیب کرتا ہے لیکن ایک ہی جنس کے یعنی بیٹیاں عطا کرتا یے پھر وہ بیٹے کے انتظار اور امید میں زندگی گزارتے ہیں۔ہر آنے والی بیٹی جو کہ رحمت ہوتی ہے اسکے لیے جیسے وہ غموں میں اضافہ کرتی ہے۔ ایسے لوگوں سے بھی ملاقات ہوتی ہے جو اپنی روزی روٹی کمانے کے لیے دن رات محنت اور جد و جہد کے بعد تھک جاتے ہیں۔ہر بار وہ یہی خواب دیکھتے ہیں کہ کب وہ دن آئے جب وہ بھی اس تھکان اور مشقت کی زندگی سے آزاد ہوکر راحت کی زندگی گزاریں۔ان سے بھی زندگی ملاتی ہے جو صحت اور تندرستی کے لیے ترستے رہتے ہیں۔وہ بیماری کی حالت میں اس امید میں وہ تکلیف کے دن گذارتے ہیں کہ وہ دن بھی آئینگے جب وہ صحت یاب ہونگے۔ان جوانوں سے بھی ملاقات ہوتی ہے جو اپنے روزگار کے لیے مختلف دفاتر کے چکر کاٹتے ہیں اور امید لگائے بیٹھے ہوتے ہیں کہ کب انہیں روزگار ملے گا، کب انکی مرادیں پوری ہونگی۔وہ بہت جد وجہد کر کے ،محنت کر کے جب نتائج اپنے حق میں نہیں دیکھتے ہیں تو بہت مایوس ہو جاتے ہیں، یوں صبر کا دامن ان سے چھوٹ جاتا ہے اور وہ مقدر کا شکوہ کر کے تھکے ہارے بیٹھ جاتے ہیں۔انہیں لوگوں کے بارے میں شاعر نے یہ شعر کہا ہے:-۔
نہ کر شکوہ مقدر سے، مقدر آزماتا جا
نہ ڈر منزل کی دوری سے،قدم آگے بڑھاتا جا
کہتے ہیں جو تھک کر بیٹھ جاتے ہیں وہ منزل کو نہیں پہنچ جاتے ہیں۔جو لوگ مسلسل کوشش کرتے ہیں اور اپنے معبود حقیقی پر مکمل توکل کرتے ہیں وہیں لوگ اپنی منزل مقصود کو پہنچتے ہیں۔ہاں غمگین ہونا فطرت انسانی میں داخل ہے لیکن وہ مایوس اور نا امید نہیں ہوتے ہیں۔وہ جانتے ہیں کہ اللہ پر توکل کرنے والے کبھی دھوکہ نہیں کھاتے ہیں۔انکے لیے انکا اللہ کافی ہوتا ہے اور اسی جذبے کی بنیاد ہر اللہ پاک انکی حاجتیں دیر سویر ضرور پوری کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ کبھی کبھار ان باتوں کا بھی مشاہدہ کراتا ہے جن سے اللہ کی قدرت کاملہ پر یقین کامل میں اضافہ ہو جاتا ہے۔چند دن پہلے میں نے ایک عورت کو اسکے شوہر کے ساتھ بینک پر دیکھا۔اسے اپنے اکاؤنٹ سے کچھ پیسے نکالنے تھے لیکن اس کی جگہ اسکا شوہر گود میں بچہ لیے ہوئے قطار میں کھڑا تھا۔جب اْسکی باری آئی تو بینک ملازم نے اسے پیسے دینے سے انکار کیا اور کہا کہ آپ اپنی بیوی کے اکاؤنٹ سے کچھ نہیں نکال سکتے ہیں۔بچہ اپنے پاس ہی رکھو اور اسے یہاں پر لاؤ۔اس نے جب بیوی کو لایا تو اسکی گود میں بھی چھوٹا بچہ تھا۔ بینک ملازم نے حیران ہو کر ان دونوں سے پوچھا کہ آپ دونوں کی گود میں یہ دو بچے ہیں یہ کس کے ہیں۔تو اس شخص نے بتایا کہ صاحب کیا بتاؤں یہ دونوں بچے ہمارے ہی ہیں۔بہت مدت کے بعد اللہ پاک نے عنایت فرمائیے،صاحب پندرہ سال کے بعد۔ہماری بہت تمنائیں تھیں کہ کب ہمارے گھر میں خوشیاں آئینگی۔سالہا سال دل شکستہ رہے۔شکر اللہ کا اب جب دیا تو ایک نہیں بلکہ دو خوبصورت بچے نصیب فرمائے۔وہ بہت زیادہ خوش تھے۔انکی خوشی کا انکے چہروں سے پتہ چلتا تھا۔انکا واقعہ سننے کے بعد جو لوگ وہاں پر تھے وہ نہایت ہی عجیب و غریب نگاہوں سے انکو دیکھتے رہے۔ ایسے واقعات سنکر یا دیکھ کر خوشی سے آنکھوں میں آنسوں آتے ہیں۔ایسے تو بہت واقعات ہیں جو انسان کی ایمانی کیفیت میں قوت بخشتے ہیں۔ ہم نے وہ واقعات بھی اپنی زندگی میں دیکھے ہیںجب آخری پل اور آخری لمحوں میں اللہ پاک نے لوگوں کی حاجات کو پورا کیا اور انکی امیدوں کو ٹوٹنے سے بچایا۔وہ دربار ایسا ہے جہاں دیر تو ہو سکتی ہے مگر وہاں اندھیرا نہیں ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ سمجھا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم اور فیصلہ کا مقرر ہوتا ہے۔بس صبر سے اس وقت کا انتظار کیا جائے۔توکل کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھے۔نا امیدی اور مایوسی سے بچنے کی مکمل کوشش کی جائے۔
رابطہ ۔ پاندوشن شوپیان، کشمیر