مادی کائنات کی گہرائیوں و وسعتوں کے بیچوں بیچ سائنس کی حیرت انگیز ترقی و ترفع اور اقبال و بلندی کے پس منظر میں انسان کا آج کی تاریخ میں بعض مسائل کے متعلق اپنی کم علمی اور نااہلی کا اعتراف کرنا ایک عام واقعہ نہیں ہے کہ جس کو نظر انداز کیا جائے۔بلکہ یہ ایک ایسا واقعہ ہے کہ جس کا اثر مستقبل میں تحقیق و تدقیق کے ہر پہلو میں نظر آئے گااور جس سے سائنس اور مذہب کے درمیان پیدا کی گئی خلیج رفتہ رفتہ کم ہوتی جائے گی۔سائنس کے اس اعتراف سے مذہب کے تئیں اس کے رویے میں مثبت تبدیلی کا اندازہ بآسانی لگایا جا سکتا ہے۔اس حوالے سے دور جدید میں سائنس اور مذہبی کتب (خصوصی طور پر قرآن) کے تقابلی جائزے کی کوششوں کا اہم رول ہے۔دور جدید میں سائنس کو قرآنی آیات کی روشنی میں جانچنے کی جو دلچسپی غیر مسلم محققین میں پیدا ہوئی ہے وہ نہایت اہمیت کی حامل ہے۔اگرچہ بائبل کا بھی موازنہ سائنس سے کیا گیا لیکن اس سے وہ نتیجہ اخذ نہ ہوا جو سائنسی تحقیق کے لئے مزید چاشنی پیدا کرتی۔اس ضمن ڈاکٹر موریس بکائلے کی کتاب کا مطالعہ مفید ہے۔ مذہب اور سائنس کے مابین خلیج مغرب میں پیدا ہوئی اور وہیں پر اس موضوع پہ کتابیں اور مقالات لکھے گئے۔اس موضوع نے مغرب ہی میں عالمگیریت حاصل کرکے سائنسی طبقے کے مذہبی اعتماد میں شکوک وشبہات پیدا کئے اور سائنس کو' ہر بلا کی دوا ہونے پر یقین کامل 'حاصل ہونے کا اعزاز حاصل کروایا۔مغرب میں سائنس نے اسی مذہب کو آڑے ہاتھوں لیا جس نے کئی صدیوں سے اس کا گلا گھونٹ کے رکھا تھا۔مغرب میں سائنس کا مذہب کے خلاف کھڑا ہونا دراصل ایک رد عمل تھا جس کا مذہب کے خلاف ظاہر ہونا فطری تھا۔اس ردعمل میں سائنس نے مغرب میں مذہب کی وہ خستہ حالی کی کہ اب شرم و حیا اور اخلاق و شرافت کا جنازہ نکل چکا ہے۔مغرب میں ہر ادارہ اور گھر مذہب کی گرفت سے نکل چکا ہے۔
مغرب میں مذہب کے ساتھ اس کے تعلقات کا عجیب معاملہ رہا ہے۔مغرب جب نام نہاد کلیسائی مذہب کی گرفت میں تھا تب بھی سکون کی تلاش میں سرگرداں تھا اور آج جبکہ سائنس نے اسے مادی خوشحالیوں سے بھر دیا ہے مسلسل سکون کا متلاشی ہے۔مغرب میں واقعتاً سائنس اور مذہب کے مابین تنازعہ ہے۔وہاں پر نہ ہی مذہب سائنس کی راہنمائی کر سکتا ہے اور نہ ہی سائنس مذہب کے ساتھ اتفاق کر سکتا ہے۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہاں کا مذہب تحریف شدہ کتابوں سے اخذکیا گیا ایک نظام ہے جس میں زیادہ تر انسانوں کی نفسانی خواہشات کی دخل اندازی کا اظہار عیاں ہے۔
اسی پس منظر میں جدید سائنس کے آغاز پر مغرب میں انسان نے احمقانہ طور پر خدا کے وجود کا اس لئے انکار کرنے کی جرآت کی کیونکہ تسخیر ِ کائنات کی وہ کلید اس کے ہاتھ آئی تھی جو قرون وسطیٰ کے مسلمانوں سے نکل کر ان کے ہاتھ منتقل ہوئی اور جس سے گوناگوں ایجادات و اکتشافات کی چمک دمک نے مغرب کو خدا سے غافل کردیا۔مغرب نے مشرق کے مقابلے میں اس لحاظ سے جدید ہونے کے بدلے نہایت قدیم ہونے کا ثبوت پیش کیا۔
مسلمانوں نے منطقِ اسقرائی کا اصول قرآن مجید کی راہنمائی میں سمجھ کر سائنسی علوم کا افتتاح کر لیا لیکن حیرت انگیز ترقی کرنے کے باوجود خدا کی ذات کے متعلق بدگمانیاں پیدا نہ کیں۔اس کے برعکس کم ظرف مغرب نے سائنس کی گدی پر اپنا آپ براجمان کیا ہی کیا تھا کہ خدا ،رسالت ،وحی ،روح وغیرہ کے متعلق چہہ میگوئیاں شروع کردیں،عقائد،اعمالِ صالح، مذہب کو ہدفِ تنقید بنایا۔مشرق (اسلامی دنیا) اور مغرب میں مذہب کے متعلق سائنس کی ترقی کے ساتھ ساتھ یہ مختلف رویہ اس لئے پیدا ہوا کیونکہ مشرق میں مذہب کی صداقت و ثقاہت اور طہارت و اصلیت (Orginality)قوی تھی جبکہ مغرب میں مذہب حالت زار میں تب بھی تھا اور آج بھی ہے۔مسلمانوں نے مذہبی سائنسس میں جس نوعیت کے معیاری اصول و ضوابط اپنائے تھے مغرب ان سے آج بھی کوسوں دور ہے۔مذہبی علوم میں مسلمانوں نے نہایت اعلیٰ سائنٹفک طریقہ اپنا کر مذہب اور سائنس کے درمیان متوقع تنازعہ(conflict) کے امکانات کو ختم کیا تھا جب کہ مغرب اس قسم کا کوئی بھی اہتمام نہیں کر سکا جس کی وجہ سے مغرب میں سائنس کے ظہور کے ساتھ ہی مذہب مقابلے میں آگیا اور مذہبی عدالتوں نے سائنس کے نام لیواؤں کو اذیت ناک سزائیں دے کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔مغرب میں مذہبی اجارہ داری کا یہ عالم تھا کہ کسی کو کھانے پینے‘ شادی اور دیگر افعال میں اپنی مرضی شامل کرنا موت کو گلے لگانے کے مترادف تھا۔کلیسا نے ہر معاملے میں ایسے سخت عقائد اختراع کر رکھے تھے کہ جن سے سائنس کے تمام پہلو دبے ہوئے تھے۔سائنسی سوچ کو دبانے کی وجہ سے کلیسا نے یورپ کے اس عہد کو تاریکی میں رکھا۔اس ضمن میں اینڈ ریوڈکسن وائٹ (Andrew Dickson White) کی 1896میں طبع شدہ دو جلدی کتاب ’’A History of the wafare of science wi Theology in Christendom‘‘قابل ِ ذکر ہے۔ وائٹ کی اس کتاب میں کئی واقعات درج ہیں۔ان میں سے دو واقعات آپ ملاحظہ فرما کر مغرب میں مذہب کے نام پر سائنس کی احمقانہ مخالفت کا اندازہ کر سکتے ہیں :
عیسائی علما نے زمین کی گولائی اور نقاط متقابل کے نظریات پر سخت اعتراضات کیے۔ انہوں نے پوچھا: ’’کیا کوئی اتنا بھی بے عقل ہو سکتا ہے جو اس بات پر یقین لے آئے کہ درخت اور فصلوں کے پودے نیچے کی طرف بڑھتے ہیں؟ یا بارش اور برف اوپر کی طرف گرتی ہیں‘‘ سینٹ آگسٹائن جیسے مذہبی رہنما نے کلیسا کو کرۂ زمین کے دونوں طرف متقابل نقاط کے نظریے کا سخت مخالف بنا دیا تھا اور ایک ہزار سال تک اس بات کو عقیدے کے حیثیت حاصل رہی کہ اگر زمین کی متقابل طرفین ہوں تو پھر بھی اس کی دوسری طرف انسان کا وجود نہیں ہو سکتا۔ غزہ کے پروکو پیس نے اس مسئلہ پر مذہب کا تمام زور صرف کر کے یہ اعلان کیا کہ زمین کی متقابل طرف ہو ہی نہیں سکتی کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو عیسیٰ مسیح دوسری طرف بھی جاتے اور دو بار انسانیت کے لیے مصائب برداشت کرتے۔ اس کے علاوہ بہشت‘ آدم‘ سانپ اور طوفانِ نوح دودو ہوتے لیکن چونکہ یہ صریحاً غلط ہے‘ اس لیے زمین کی متقابل طرفین نہیں ہو سکتی ہیں۔"
دوسرا واقعہ جو انہوں نے بیان کیا ہے :" 1770کے لگ بھگ یورپ کے مختلف حصوں میں ایک عجیب بات دیکھنے میں آئی۔ سائنس کی رائل اکیڈمی کو تفصیلی بیانات ارسال کیے گئے جن میں یہ کہا گیا کہ پانی تبدیل ہو کر خون بن گیا۔ اس کو مذہبی علما اور پادریوں نے فوراً خدائی قہر کی علامت قرار دیا۔ جب اس قسم کے معجزہ کو سویڈن میں دیکھا گیا تو ایک نامور نیچری لنائیس نے اس مظہر کا سائنسی مطالعہ کر کے یہ دریافت کیا کہ پانی چھوٹے چھوٹے سرخ جراثیم کی وجہ سے سرخ دکھائی دیتا ہے۔ جب اس دریافت کی خبر بشپ کو پہنچی تو اس نے اسے سخت الفاظ میں ’’شیطانی غار‘‘ کہہ کر مذمت کی اور اعلان کیا کہ ’’پانی کا سرخ ہونا قدرتی نہیں ہے‘‘۔ بے چارہ لنائیس بہادر آدمی نہیں تھا‘ اسے گلیلیو کا حشر اچھی طرح معلوم تھا۔ اس لیے اس نے پسپائی اختیار کی اور یہ اعلان کیا کہ اس معاملے کی حقیقت اس کی فہم سے بالا ہے۔"مذکورہ کتاب میں اس کے علاوہ بھی کئی اور مثالیں بیان کی گئی ہیں جن میں سائنسی تحقیق کے برخلاف کلیسا کا عتاب دیکھنے کو ملتا ہے۔اس ضمن میں ایک اور مثال ملاحظہ فرمائیں :ایک اعلیٰ درجہ کا پادری (آرچ بشپ) اشرا‘ انجیل مقدس کا مطالعہ کر کے اس نتیجے پر پہنچا کہ دنیا نے اتوار 23اکتوبر2004قبل مسیح کو صبح 9بجے جنم لیا تھا لیکن مدتوں پہلے مرے ہوئے سائنس دان وائی کلف نے فوسل اور ارضیات کا مطالعہ کر کے یہ کہا تھا کہ زمین چند کروڑ سال پرانی ہے۔ کلیسا نے مردہ وائی کلف کی یہ گستاخی معاف نہ کی۔ اس کی ہڈیاں قبر سے نکال کر ریزہ ریزہ کی گئیں اور سمندر میں پھینک دی گئیں تاکہ اختلاف اور شک کے جراثیم زمین کو آلودہ نہ کر سکیں۔"
مغرب بیچارہ ہر اعتبار سے تاریکی میں تھا۔مذہب کے نام پر جو ظلم وہاں پر جاری تھا اس سے آج بھی رونگٹے کھڑے ہو تے ہیں۔یہ لوگ مذہب کی انتہائی تحریف شدہ شکل کو مانتے تھے اور آج بھی بظاہر چند رسومات کی حد تک مانتے ہیں۔مغرب میں عیسائیت کی شکل میں جو مذہب موجود تھا وہ مشرکانہ امیزش اور کلیساؤں کی خود ساختہ مفروضات کا اسقدر خطرناک فرنٹ تھا کہ گلیلیو کو اس سے مقابلہ کرنے کی پاداش میں پوری عمر قید میں گذارنی پڑی۔مذہب اور سائنس کے نام پر جو گرماگرم بحث ایک صدی سے جاری ہے اس میں مذہب کو کافی حد تک نااہل ،تنگ نظر، آرتھوڈکس، عقل مخالف، پسماندہ اور اذکار رفتہ ثابت کیا گیا تھا۔اسی بحث کا نتیجہ اسیکولرازم کی شکل میں برآمد ہوا اور پوری سیاسی تحریکات میں اسیکیولرازم کو ہر مسئلہ کا نجات دہندہ قرار دیا گیا۔ان مباحث میں مغربی دنیا کے ساتھ مسلم دنیا کا ذہین طبقہ بھی شامل ہو کر اسلام کو دیگر مذاہب کی طرح سمجھنے لگ گیا۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسلام کو سائنس کا مخالف ابتداء میں بڑے پیمانے پر سمجھا جانے لگا۔حالانکہ مذہب کا جو عیسائی ایڈیشن (انتہائی تحریف شدہ) عقل و منطق کا مخالف پہلے ہی سے تھا لیکن قرآن کو نہ سمجھنے کی وجہ سے اسلام کو بھی اسی زاویے سے دیکھا جانے لگا جس سے عمومی طور پر اسلام کو ایک مذہب کے طور پر دیکھا گیا۔یہ ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے کہ اسلام کو قرآن و حدیث سے سمجھنے کی کوشش کرنے کے بنسبت اس کو خارجی ذرائع سے سمجھا جانے لگا۔اسلام سائنس کا محاسبہ کرنے کے ساتھ ساتھ اسے راہنمائی بھی فراہم کرتا ہے۔سائنس جن جن مقامات پر رک جاتی ہے اسلام بحیثیتِ مذہب وہاں پر سائنس کو صحیح راہ دکھانے کے ساتھ آگے جانے کی تحریک فراہم کرتا ہے۔
مغرب میں سائنس کے خلاف مذکورہ بالا قسم کا ماحول جب پیدا ہوا تو بعد میں آنے والے محققین و مبصرین نے ہر مذہب کو کلیسا اور عیسائیت کے زاویے سے سمجھنا شروع کیا جس سے ایک لوگوں میں ایک عمومی مزاج پیدا ہوا کہ ہر مذہب بشمول اسلام کو بھی سائنس اور ترقی کا دشمن سمجھا جانے لگا۔حالانکہ آج سائنس جب قرآن کی آیات پر تحقیق کرکے ان کی تصدیق کر رہی ہے تو اسلام کا بحیثیتِ ایک سائنٹفک مذہب ہونا ثابت ہوریا ہے۔مسلمانوں نے قرآن مجید کی راہنمائی میں سائنس کے جس روشن عہد کو عروج بخشا اس میں سائنس کا مذہب کے ساتھ ٹکراو ایک لایعنی موضوع تھا۔مسلمانوں کے اس روشن سائنسی دور میں یورپ جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں سانسیں لے رہا تھا جس کے متعلق مشہور مصنف ڈی۔ کیمبیل نے لکھا ہے۔ ’’اسلامی سائنس کے دور میں یورپ میں تاریک دور تھا اور کٹّرپن، ظلم،گنڈہ تعویز اور ٹونے ٹوٹکے کی برائیاں عام تھیں۔‘‘
(مضمون جاری ہے۔ایک نئے پہلو کے ساتھ اگلی قسط انشاء اللہ اگلی سوموار کو شائع کی جائے گی)
رابطہ۔ [email protected]