یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ گزشتہ چار سال سے ملک ِ عزیزمیں ہندوتود وادیوں کی فرقہ پرستی یعنی مسلم دشمنی عروج پر ہے۔ یوں تو سالہا سال سے ہر دور میں مسلم دشمنی دن بہ دن بڑھتی رہی ہے لیکن جب سے آر ایس ایس نے مودی کے نام پر اقتدار سنبھالا ہے، مسلم دشمنی میں قابل لحاظ اضافہ ہوگیا ہے۔ حال ہی میں جو واقعات ہوئے وہ اس کا ثبوت ہیں۔ 2019ء میں ہونے والے عام انتخابات کے پیش نظر بھاجپا کو اپنی کامیابی کا امکان اسی میں نظر آتا ہے کہ وہ ملک کے عوام کو مذہب کے نام پر تقسیم کرے، ان میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت اور شکوک وشبہات پھیلائے کیونکہ بی جے پی سرکار کے پاس کوئی ایسا کارنامہ یا خدمت نہیں ہے جس کے بل پر وہ عوام سے ووٹ مانگیں ۔اسی لئے فرقہ پرستی کو فروغ دینے کیلئے زعفرانی بر گیڈ سرگرم عمل ہے۔ گائے کے تحفظ کے نام پر انسانوں کو قتل کیا جارہا ہے، رام مندر کا مسئلہ زور و شور سے اُٹھایا جارہا ہے ، طلاق ثلاثہ بل سامنے لایا گیا ہے، اور آر ایس ایس کے دیرینہ ایجنڈے کو مختلف اقساط میں نافذ کرنے کی منفی کوششیں کی جارہی ہیں۔ یہ بات محتاج وضاحت نہیں کہ آر ایس ایس ایجنڈے کو نافذ کرنا مسلم دشمنی کے فروغ کے لئے ضروری ہے کیونکہ آر ایس ایس کا ایجنڈا سر تا سرمسلم دشمنی پر مبنی ہے۔
حال ہی میں مسلم پرسنل لاء میں مداخلت کی سنگھی کوشش کو کامیاب بنانے کے لئے طلاق ثلاثہ کی سزا بل لوک سبھا میں عددی طاقت کی بنا پر بھاجپا نے پاس کروالیا ( دُھندلا ساامکان ہے کہ بھاجپا راجیہ سبھا میں بھاجپا بل کو کامیاب نہیں کرواسکے گی) تاہم طلاق ثلاثہ کے نام پر مسلم پرسنل لاء میں مداخلت کا آر ایس ایس کے خواب کی تعبیر شروع ہوگئی ہے گوکہ اس معاملہ میں مٹھی بھر شکم پرست ضمیر فروش مسلمانوں اور خاص طور پر نام نہاد ترقی پسند (دراصل مسلم دشمن) خواتین نے بھی بی جے پی کی اپنے طور بڑی مدد کی مگر یہ سب ضرور منہ کی کھائیں گے ۔
گائے کے تحفظ کے نام پر اب تک صرف مسلمانوں کو نشانہ بنایا جاتا تھا لیکن اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ایک ہندو پولیس انسپکٹر سبودھ سنگھ اور پولیس کے سپاہی سریش پرتاپ سنگھ کو نام نہاد گائے سیوکوں نے قتل کردیا۔ اس سے زیادہ بڑا لمیہ یہ ہے کہ اترپردیش کے وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ نے اپنے پولیس افسروں کی ہلاکت سے زیادہ گائے کا ملک میں تحفظ نہ ہونے پر اظہارِ تشویش کیا۔ اسی سلسلہ میں دہلی سے قریب واقع مضافاتی شہر نوئیڈا کے ایک پارک میں مسلمانوں کو جمعہ کی نماز ادا کرنے سے نہ صرف روکنے کا حکم دیا بلکہ پارک میں نماز نہ ہو،اس کے لئے پارک میں پانی بھردیا گیا۔ اس طرح کی حرکتیں ملک کے سب سے بڑے صوبے اترپردیش کے انتظامیہ کی مسلم دشمنی کی ثبوت ہے۔ اس مسلم دشمنی کے سرپرست اعلیٰ کوئی اور نہیں یو پی کے وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ ہیں۔ اس طرح کی اشتعال انگیز حرکات و اقدامات سے وزیر اعظم نریندر مودی کا لا علم رہنا ناممکن ہے۔ ویسے بھی جب قانون شکنی اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے اور ان پر جان لیوا تشدد کے واقعات آر ایس ایس کے ایجنڈے پر ہی عمل درآمد ہے جس کی ذمہ داری اربابِ حل وعقد کو سونپی گئی ہے تو بھلا وزیراعظم مسلم دشمنی کے ان کارناموں سے کیسے بے خبر رہ سکتے ہیں؟ ان گھمبیر حالات کے باوجود مودی جی مسلسل خاموش بیٹھے ہیں گوکہ کسی ریاست میں نظم و نسق کو متاثر کرنے اور تشدد اور قانون شکنی کے واقعات کی وزیر اعظم پر کوئی ذمہ داری نہیں ہوتی ہے لیکن یہ سب کچھ حد سے زیادہ ہوجائے تو ان باتوں سے ملک کا وزیر اعظم بری الذمہ نہیں رہ سکتا ۔ مسلمانوں سے متعلق معاملات میں مودی کی خاموشی ان کی حکمت ِ عملی کا ایک سوچا سمجھا حصہ ہے۔ حالانکہ مسلمانوں سے متعلق مسلم دشمن مسائل (مثلاً طلاق ثلاثہ) پر مسلم خواتین سے زبانی زبانی ہمدردی جتانے کو مودی جی اپنا فرض سمجھتے ہیں تاہم ملک بھر میں خواتین کے ساتھ جو خراب سلوک ہوتا ہے اور خاص طور پر مسلم خواتین پر ہندوتودوادیوں کے مظالم (جس میں گجرات 2002) کا مودی کو کبھی احساس تک نہ ہوا۔ یہ مسلم دشمنی کے واقعات سے ملک بھر کے ہندوتود وادی بھاجپا اور مودی سے خوش تو ہوسکتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان کی خوشی بھاجپا کو دوبارہ برسر اقتدار لاسکتی ہے؟
Ph: 07997694060
Email: [email protected]