مقصوداحمدضیائی
ویسے تو جموں و کشمیر سارے کا سارا جمال قدرت کا مظہر ہے ، یہاں علم بھی ہے اور جہل بھی ہے، نشیب بھی ہے اور فراز بھی ہے، روشنی بھی ہے اور تیرگی بھی ہے، ابلتے چشمے بل کھاتی ندیاں اور جھرنے ذوقِ جمال اور روح کی تسکین کے لیے آخری درجے کا سامان ہیں غرضیکہ یہ وادی جمالِ فطرت کا ایک خاص عطیہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ خطہ کی انفرادیت و اختصاص اس حوالے سے بھی غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے کہ اس جنت نما خوبصورت خطہ نے ایسے جید باوقار و باکمال علماء و صلحاء پیدا کیے ہیں جن کی نظیر تاریخِ عالم میں خال خال ہی نظر آتی ہے۔ سیاسیات و سماجیات ، تہذیب و ثقافت ، صنعت و حرفت کے ساتھ ساتھ اس سر زمین سے تعلق رکھنے والے بے شمار افراد ایسے بھی ہیں کہ جنہوں نے مختلف میدانوں میں اپنی خدمات جلیلہ کے ذریعہ ایک مسلسل تاریخ رقم کی ہے۔ یہاں کی تعمیری فکر کی حامل شخصیات کے کہکشانی سلسلہ کی ایک زریں کڑی ماسٹر عبدالعزیز وانی پیدائش 1909ء متوفی 2020ء بھی تھے۔ جن کی حیات و خدمات کو بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی کی انتظامیہ کے ذمہ دار رُکن و صدر عالمی تحریک اردو جناب ڈاکٹر ذاکر ملک بھلیسی نے زیر قلم لایا ہے۔ اس گلدستہ کے مطالعہ سے میں ابھی ابھی فارغ ہوا ہوں، اس مجموعہ کے انتساب کے الفاظ کچھ اس طرح سے ہیں کہ
اللّٰہ تعالیٰ کے نام!جس نے انسان کو لفظ و معنی کا شعور عطا کیا۔
راجوری پونچھ کے لوگوں کے نام!جن کی شفقتوں و تعاون سے پیرپنجال میں علمی و ادبی کاموں میں مجھے اپنا کردار ادا کرنے کے لیے راہ ہموار ہوئی۔
میرے والدین و ان تمام اساتذہ کے نام! جن کی حسن تعلیم و تربیت ؛ نیک تمناؤں اور دعاؤں سے چمنستان علم میں سانس لینے کے قابل ہوا۔
پیشِ لفظ ماہر تعلیم جناب ایم این قریشی کے قلم گوہر بار سے ہے آں موصوف نے اس شعر سے پیش لفظ کا آغاز کیا ہے کہ:
جینا بھی تو ان کا جینا مرنا بھی تو ان کا مرنا
اک بانکپن سے جینا، اک بانکپن سے مرنا
بلاشبہ یہ شعر قاری کو کتاب کے مطالعہ پر مجبور کرتا ہے اور پیش لفظ کو مصنف کی محنت شاقہ پر مباکبادی کے ساتھ پیرپنچال خطہ کے عوام کی جانب سے اس شعر کے ذریعہ شکریہ ادا کرتے ہوئے ختم کرتے ہیں کہ:
معمار اسے کہتے ہیں جو اہل گلستاں میں
ترتیب نشیمن سے پہچان لیا جائے
تقریظ ۔معروف صاحب قلم جناب ڈاکٹر مشتاق احمد وانی اسٹنٹ پروفیسر اردو ، کے قلم سے ہے اور جاندار تحریر ہے۔
حرفِ اول۔ مصنف کے قلم سے ہے اور دریا بکوزہ ہے اور پھر ماسٹر عبدالعزیز وانی مرحوم کی حیات و خدمات کے تعلق سے سے مندرجہ ذیل مضامین درج ہیں۔
پیرپنچال خطہ کا تعارف ، وانی قوم، کشمیر سے تھنہ منڈی ہجرت، عبدالعزیز وانی کا خاندان، پیدائش و بنیادی تعلیم، تعلیم کے لیے سفر میر پور، علامہ اقبال سے ملاقات، 1932ء کا واقعہ راجوری میں مسلم کانفرنس، گوجرجاٹ کانفرنس، سرکاری ملازمت، خطہ میں تعلیمی شعور، ڈوگرہ حکومت کا زوال، سیاسی و سماجی مشغولیات، غلام رسول آزاد کے ساتھ کشمکش، شیخ محمد عبداللہ کے ساتھ دوستی، شیخ محمد عبداللہ کا خط، شیخ محمد عبداللہ کا اظہار تشکر ، مرزا محمد افضل بیگ کا خط ، سرکاری نوکری سے سبکدوشی و وفات، فاروق مضطر والد کے نقش قدم پر گامزن، شاگردوں اور رفیقوں کے تاثرات، میر عبدالسلام، احمد شناس، خورشید بسمل ، نثار راہی، پروفیسر محمد اسداللّٰہ وانی، جاویدانور، مصنف کی پیرپنچال کے تئیں خدمات : لیاقت علی چودھری، مصنف ڈاکٹر ذاکر ملک بھلیسی : تعارف ، جان محمد، مرحوم عبدالعزیز وانی : تصاویر کی زبانی، شکریہ نامہ : فاروق مضطر، حرف آخر، حوالہ جات۔ مندرجات کے بعد دو قیمتی اقتباسات ہدیہ قارئین ہیں۔
(ص : 100) ادیب اریب جناب میر عبدالسلام صاحب راجوروی نے کمال کی تحریر لکھی ہے وہ لکھتے ہیں کہ ’’ اس دنیا میں زیادہ تر لوگ بڑے بڑے مناصب ، بڑے بڑے عہدوں ، بڑی بڑی کوٹھیوں، بڑے شاہانہ اور امیرانہ طرز زندگیوں اور ظاہری نمود و نمائش اور ٹھاٹھ باٹھ سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔ مگر ایسے لوگ جب اپنی حکمرانیوں اعلیٰ منصوبوں اور دولت و ثروت کی اسباب و وسائل سے محروم ہوجاتے ہیں تو انسانی مخلوق میں زندہ ہونے کے باوجود بھی مردوں میں شمار ہوجاتے ہیں۔ اس کے باوجود لاکھوں اور کروڑوں انسانوں میں کچھ نایاب انسانی چہرے ایسے بھی ہوتے ہیں جو نہ کسی خاص منصوبے پر رہے ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کی زندگی میں کبھی امراء و صاحب ثروت لوگوں کی طرح زندگی گزارنے کی ہوس و حرص رہی ہوتی ہے بلکہ وہ انسانی سماج میں ایک عام انسان کی طرح زندگی گزارنے میں اپنا دائمی اور قلبی سکون و راحت محسوس کرتے ہیں ،یہ قلبی اور دائمی سکون جس انسان کو حاصل ہوجائے وہ دونوں جہانوں میں کامیاب ترین انسان ہے اور سب سے بڑا نیک بخت انسان کہا جا سکتا ہے، یہی وہ قلی سکون و اطمینان ہے جو من کی دولت کی شکل میں اللّٰہ رب العزت کی طرف سے اس کے چنیدہ بندوں کو ہی حاصل ہوتا ہے۔ من کی دولت کی ضد تن کی دولت ہے۔ جس کو قرآن مجید نے لہو و لعب کھیل تماشہ کا نام دیا ہے شاعر مشرق علامہ اقبالؒ نے قرآن مجید کے اس عقیدے کو کچھ اس طرح بیان کیا ہے کہ:
من کی دنیا من کی دنیا سوز و مستی جذب و شوق
تن کی دنیا تن کی دنیا سود وسودا مکروفن
من کی دولت ہاتھ آتی ہے تو پھر جاتی نہیں
تن کی دولت چھاؤں ہے آتا ہے دھن جاتا ہے
مرحوم ماسٹر عبدالعزیز وانی انسانی سماج کے اسی طبقہ ثانی میں سے تھے۔ فرمایا کہ وہ اپنے آپ میں ایک گلستاں تھے ،جس گلستاں کی خوشبو انسانی سماج کے ہر طبقے میں ہر موسم میں یکساں مہکتی رہتی تھی۔
(ص : 194) ماسٹر عبدالعزیز وانی مرحوم کے نقش جمیل صاحبزادے اور میرے انتہائی کرم فرما جناب فاروق مضطر صاحب کا شکریہ نامہ یوں تو سارے کا سارا ہی ’’حرف حرف جوئے خون ہے‘‘ تاہم درج ذیل سطور اس قابل ہیں کہ ان کو بار بار پڑھا جائے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں تک یہ پیغام پہنچایا جائے، بلاشبہ جناب فاروق مضطر صاحب ماہر سماجیات ہونے کے ساتھ ساتھ دوراندیش شخصیت بھی ہیں سچ یہ ہے کہ ان کی اس قابلِ تعریف تحریر نے ہی عاجز کو اس گُلدستہ پر تبصرہ لکھنے پر آمادہ کیا وہ فرماتے ہیں کہ ’’ جو قوم اور سماج اپنے محسنوں کی قدر نہیں کرتا ، اپنے اچھے اور بڑے لوگوں کی قدر نہیں کرتا، اپنے دانشوروں علم دوستوں ہنر مندوں اور فلاح و تعمیر کے بے لوث مشن سے جڑے لوگوں کو پہچانتا یا مانتا نہیں، قبل از مرگ بھی اور بعد از مرگ بھی! یقینًا وہ بد نصیب سماج ہے۔ خدائے تعالیٰ لازماً ایسے لوگوں کے اوپر سے برکتوں اور شفقتوں کا سایہ ہٹا دیتا ہے اور انہیں ہر طرح کی آزمائشوں کے لیے اکیلا چھوڑ دیتا ہے اور اس سماج میں بڑے اور رہنماء لوگوں کو پیدا کرنا بند کر دیتا ہے۔ لہٰذا ہر مہذب قوم اور سماج کی تہذیبی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے HEROES کو ہمیشہ یاد رکھے اور گاہے گاہے اپنی آئندہ نسلوں کے سامنے رول ماڈل کے طور پر پیش کرتی رہے تاکہ اعلیٰ تہذیبی اور انسانی قدروں کا تسلسل بنا رہے۔‘‘
انسان کی سیرت سازی اور تعمیر شخصیت میں جتنی چیزیں مؤثر ہیں ، ان میں نیک لوگوں کے تذکرے نمایاں مقام رکھتے ہیں، کیوں کہ یہی وہ پاکیزہ نفوس ہیں، جن کا مطالعہ گری میں ممتاز رول ادا کرتا ہے۔ ہندوستان ’’مردان راہ داں‘‘ پیدا کرنے میں سدا سے ہی بلند مقام رہا ہے۔ اٹھنے کو تو یہاں سربہ فلک شخصیات اٹھیں مگر وقت کی ستم ظریفی کہ گزرتے دنوں کے دھندلکوں میں ایک طرف تو ان کا لوحِ مزار دھندلا ہوتا چلا گیا اور دوسری طرف ان سے وابستہ یادیں ضبط تحریر میں کماحقہ نہ آسکیں۔ جن کی روشنی سے نسلِ نو منزل کی سمت گامزن ہوسکے۔ بلاشبہ زیرتبصرہ کتاب اسی خلا کو پُر کرنے کی ایک روح پرور کوشش ہے۔ مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ مصنف نے یہ بھی کوشش کی ہے کہ یہ نوشتہ جامعیت کا بھی آئینہ دار ہو، زبان شگفتہ رواں اور شیریں ہے۔ معلومات چشم کشا ہیں ، منقولات معتبر کتابوں سے ہیں۔ کتاب کے مطالعہ سے محسوس ہوتا ہے کہ اس کے مصنف نے اس نقش کو سامنے لانے میں اپنی پوری کاوش جھونک دی ہے۔ اہم بات یہ کہ کتاب کے مضامین اس کی جابجا شہادت دیتے ہیں کہ صاحب قلم ماہر نفسیات بھی ہیں ادبی اخلاقی اور تہذیبی امور کے نکتہ داں اور اکتساب نتائج کے حوالے سے نکتہ سنج بھی ہیں، ان کے مضامین سے حقائق زندگی اور مقاصد حیات کا ایک صحیح نقشہ صفحہ ذہن پر ابھرتا ہے نیز اس کو پڑھ کر خطہ کا شاندار ماضی اور تابناک حال دکھائی دیتا ہے جو یقینًا ایک کمال ہے اور یہ کمال بھی سب کو عطا ہوتا نہیں ہے۔ مصنف کتاب اس تصنیف پر اہل علم کی طرف سے شکریے کے مستحق ہیں کہ انہوں نے لگ بھگ ایک درجن کتابوں سے مراجعت کرکے یہ بیش بہا ’’کشکول‘‘ تیار کیا ہے۔ عاجز دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہے۔
آخری بات : سوانحی طرز کی تحقیقات میں یہ کتاب اپنے علمی و ادبی معیار اور وقار کے لحاظ سے بلاشبہ ایک قابل قدر اضافہ ہے کتاب میں مطالعے کے لیے بہت کچھ ہے تمام باتوں پر روشنی نہیں ڈالی جاسکتی ہے نہ اس کی گنجائش ہوتی ہے، تبصرے کا خلاصہ یہ ہے کہ کتاب ’’ ہردل عزیز ‘‘ محنت سے لکھی گئی کتاب ہے اس کی کمپوزنگ ، طباعت اور سرِورق انتہائی خوبصورت دیدہ زیب اور فرحت نظر ہے۔ ساتھ ہی مجلد بھی ہے سوانحی طرز کی کتابوں سے دلچسپی اور ذوق رکھنے والوں کے ہاتھوں تک اس کی رسائی ہونی چاہیے صاحب سوانح کے لیے مغفرت اور بلندئ درجات کی دعا فاضل مصنف کے واسطے زیادتی علم کی التجاء اور قارئین کے لیے ذوق مطالعہ کی تمنا۔