مینا لنگاڈیہ
کھیلنا عام طور پر آپ کی فٹنس اور صحت کو بہتر بنانے کا ایک بہترین طریقہ ہے۔ اس سے نہ صرف آپ کا جسم صحت مند رہتا ہے بلکہ آپ کا دماغ اور دماغی صحت بھی تندرست رہتی ہے۔ دراصل، کھیل جیسی سرگرمیاں آپ کے خون کی گردش، موڈ اور دماغی صحت کو درست رکھتی ہیں۔ ایک طرف جہاں کھیل آپ کی فٹنس کے لیے بہتر ہے وہیں دوسری طرف اس میں کیرئیر بنا کر کھلاڑی ملک کا نام بھی روشن کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت بھی ’’کھیلو انڈیا‘‘ کے ذریعے کھیلوں اور کھلاڑیوں کو زیادہ سے زیادہ فروغ دے رہی ہے۔ انہیں پریکٹس کے لیے تمام سہولیات فراہم کی جارہی ہیں۔ غیر ملکی کوچز کو کنٹریکٹ کیا جا رہا ہے۔ اس کے خوشگوار نتائج بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ اب پہلے سے زیادہ کھلاڑی ایتھلیٹکس میں تمغے جیت رہے ہیں۔لیکن اس کا ایک اور رخ بھی ہے۔ آج کے دور میں اس میں بھی صنفی امتیاز نظر آتا ہے، کھیل کو کھیل نہیں سمجھا جاتا ہے۔ لڑکوں کے مقابلے لڑکیوں کو کھیلوں میں آگے آنے کے لیے کم پروموٹ کیا جاتا ہے۔ ملک کے کچھ دیہی علاقے ایسے ہیں جہاں لڑکیوں کا کھیلنا بھی منع ہے۔ ایسی ہی ایک مثال ہمیں اتراکھنڈ کے باگیشور ضلع میں واقع گڑوڈ بلاک کے گنی گاؤں میں نظر آتی ہے جہاں لڑکیاں ابھی تک کھیلوں سے محروم ہیں۔ یہاں تک کہ اسکول میں بھی انہیں کھیلنے سے منع کیا جاتا ہے۔ کھیلوں میں دلچسپی ہونے کے باوجود گاؤں کی ایک نوعمر اور 12ویں جماعت کی طالبہ کویتا کہتی ہیں کہ ’’لڑکیوں کے لیے کھیلنا بہت ضروری ہے۔ پہلے جب میں 10ویں جماعت میں پڑھتی تھی، مجھے کھیلنے کا بہت شوق تھا۔لیکن یہاں کے لوگ ہمارے گھر والے ہمیں باہر نہیں جانے دیتے ہے۔کہتے ہیں کہ کھیل کر کیا کرنا ہے؟ پڑھائی پر دھیان دو۔لیکن میرا ماننا ہے کہ کھیل اب تعلیم کے تحت ایک مضمون بن گیا ہے، اب سکول اور کالج میں کھیل کو ایک مضمون کے طور پر پڑھایا جا رہا ہے۔ جس میں لڑکیاں اپنا مستقبل بنا سکتی ہیں لیکن آج بھی ہمارے گاؤں میں لڑکیاں کھیلوں سے محروم ہیں۔‘‘
گاؤں کی ایک اور نوجوان، 18 سالہ ہیما راول کہتی ہیں کہ گنی گاؤں میں لڑکیوں کو کھیلنے کی ترغیب نہیں دی جاتی۔ یہاں تک کہ اگر کوئی لڑکی کھیل کے میدان میں آگے بڑھنا چاہتی ہے اور وہ کھیلنے میں بھی اچھی ہے تو اسے کھیلنے کی اجازت نہیں ہے۔ ایسے میں گھر والوں کا کہنا ہے کہ شادی کے بعد کھیل کود نہیں، صرف گھریلو کام ہی کام آئے گا۔ یہی وجہ ہے کہ مواقع نہ ملنے کی وجہ سے کہیں نہ کہیں ہماری قابلیت، شناخت اور سوچ دب کر رہ جاتی ہے۔ اس حوالے سے گاؤں کی 25 سالہ خاتون گیتا دیوی کا کہنا ہے کہ یہ سچ ہے کہ جس طرح لڑکوں کے لیے کھیلنا ضروری ہے اسی طرح لڑکیوں کے لیے بھی کھیلنا ضروری ہے کیونکہ جو آزادی لڑکوں کو حاصل ہے وہ لڑکیوں کے لیے بھی ہونی چاہیے۔ انہیں بھی اپنی زندگی اپنے طریقے کے مطابق گزارنے کا حق ہے۔ اگر کوئی لڑکی کھیل کے میدان میں اپنا مستقبل بنانا چاہتی ہے تو اسے یہ حق ملنا چاہیے۔ ہمارے گاؤں میں لڑکیوں کے کھیلنے کے لیے آواز اٹھانے کی ضرورت ہے، کیونکہ لوگ سوچتے ہیں کہ لڑکیاں کھیل کر کیا کریں گی؟آخر کار اسے شادی اور گھر کے کام سنبھالنے پڑتے ہیں۔دوسری جانب 45 سالہ رجنی دیوی کا کہنا ہے کہ ہم بچپن میں بہت کھیلتے تھے، جب ہم گلی ڈنڈا کھیلتے تھے تو لوگ ہمارا مذاق اڑاتے تھے، کہتے تھے کہ لڑکوں کی طرح کھیلتی ہے۔ہم لڑکیاں اپنی پسند کے کھلونے بھی نہیں کھیل سکتی ہیں۔ میں سوچتی تھی کہ ایسی پابندی صرف ہم پر ہی کیوں؟ہم گاؤں کے سادہ لوگ ہیں، ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ دنیا میں اور بھی بڑے کھیل ہیں جن میں لڑکیاں اپنا مستقبل کھیلتی ہیں، لڑکیاں کر سکتی ہیں۔ وہ تمام کھیل جو آج لڑکے کرتے ہیں۔آج لڑکیاں ہر میدان میں آگے نکلنے کے باوجود بھی کھیلوں کے میدان میں ان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔کہیں ہم خود وہ یہ نہیں سمجھتے کہ لڑکیوں کے لیے یہ بہت ضروری ہے۔ وہ بھی کھیلیں۔ انہیں زندگی میں اپنی پسند جیتنے کا حق بھی ہے۔‘‘
دوسری جانب 74 سالہ معمر خاتون پنولی دیوی کا کہنا ہے کہ’’ہم اس زمانے کے لوگ ہیں جب ہماری شادیاں کھیلنے اور کودنے کی عمر میں ہوا کرتی تھیں۔ میری بھی 13 سال کی عمر میں شادی ہو گئی۔ جب میں اپنے سسرال میں اپنی عمر کے لڑکوں اور لڑکیوں کو کھیلتے دیکھتی تھی تو مجھے بھی کھیلنے کا احساس ہوتا تھا۔ ایک دفعہ میں اپنے کھیت کا کام چھوڑ کر اپنی عمر کی لڑکیوں کے ساتھ کھیلنے چلی گئی تھی۔ جس کے بعد میری ساس نے مجھے بہت ڈانٹا کیونکہ شادی کے بعد لڑکیوں کے کھیلنے پر پابندی تھی۔ پھر چاہے اس کی عمر چھوٹی ہی کیوں نہ ہو؟‘‘ اس سلسلے میں سماجی کارکن نیلم گرانڈی کا کہنا ہے کہ ہماری زندگی میں صحت مند رہنے کے لیے کھیلنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کھانا اور پڑھنا۔ اس سے دماغ اور جسم صحت مند رہتا ہے۔ کھیل لڑکیوں کے لیے اتنا ہی ضروری ہے جتنا لڑکوں کے لیے۔ بچے خوش و خرم رہیں گے تو پڑھائی پر بھی توجہ دیں گے۔ کھیل کود کے دوران جسم بہت زیادہ کام کرتا ہے جس کے نتیجے میں زیادہ مقدار میں آکسیجن جسم کے اندر جاتی ہے۔ یہ آکسیجن ہمارے خون کو صاف کرتی ہے اور کھانا ہضم کرنے میں مدد دیتی ہے۔ جس نے کھیل کو اہمیت دی وہ ہمیشہ خوش، تندرست اور مضبوط رہتا ہے، اس میں خود اعتمادی بھی بڑھتی ہے، قائدانہ صلاحیت بھی پیدا ہوتی ہے اور قوت ارادی بھی بڑھتی ہے۔
در حقیقت،کھیل صحت کا ایک اہم حصہ ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں خصوصاً دور دراز کے دیہی علاقوں کا معاشرہ آج بھی اس کی اہمیت سے ناواقف ہے۔ وہ صرف اپنے لڑکوں کے روشن مستقبل کی خواہش رکھتے ہیں۔ لڑکیاں کسی نہ کسی طرح بارہویں جماعت تک تعلیم یافتہ ہوتی ہیں۔ پھر اس کی شادی کرنی ہے،اسے گھر سنبھالنا ہے، بچوں کی پرورش کرنی ہے۔ اس لیے معاشرہ اس کی پسند و ناپسند کی پرواہ نہیں کرتاہے۔ اگر لڑکیاں ہمت کرکے میدان میں اتریں تو معاشرے کی قدامت پسند سوچ انہیں آگے بڑھنے نہیں دیتی ہے۔سوال یہ ہے کہ آخر اتنی پابندیاں صرف لڑکیوں کے لیے کیوں ہیں؟ (چرخہ فیچر)