بارہمولہ // چوبیس گھنٹو ں میں 50 لاکھ روپے منافع دینے والا 105 میگا واٹ ریاست جموں کشمیر کا ایک تاریخی اور قدیم بجلی گھر جس کو لور جہلم ہیڈرو الیکٹرک پاور پروجیکٹ( ایل جے ایچ پی)کے نام سے جانا جاتا ہے ،اس وقت تبا ہی کے دہانے پر ہے او ر کسی بھی وقت بیکار ہوسکتا ہے جس سے ریاست کو اربوں روپے کا خسارہ ہونے کا خدشہ ہے کیونکہ منصوبے کے تمام اعلیٰ مشینیں اور عمارات کافی خستہ حال ہو چکی ہیں لیکن بدقسمتی سے متعلقہ محکمہ اور حکومت کے اعلی افسران گہری نیند سوئے ہوئے ہیں ۔ ذرائع کے مطابق 105 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے والے اس بجلی گھرکی مشینری میں بجلی کی فراہمی کو برقرار رکھنے کیلئے مختلف صلاحیتوں کے بڑے ٹرانسفارمروں کی معیاد ختم ہوچکی ہے اور وہ کبھی بھی بیٹھ سکتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ان ٹرانسفارمرں کی معیاد صرف 35سال تھی ،تاہم چالیس برس گزرچکے ہیں لیکن بدقسمتی سے آج تک متبادل ٹرانسفارمرنصب نہیں کئے گئے ۔ اس بجلی گھر کو ضلع بارہمولہ کے سرحدی تحصیل بونیار اوڑی کے بمبار ژہلہ گاؤں میں 1977 میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اور اسی سال اس پروجیکٹ کی زیادہ تر مشینری بھی اس میں نصب کی گئی تھی اور اس مشینری کی بہت پہلے میعاد ختم ہو چکی ہے جبکہ محکمہ صرف اُنہیں پرزوں کو تبدیل کررہا ہے جو مکمل طور پر ناکارہ ہوچکے ہیں ۔محکمہ سے وابستہ ایک سرکاری ملازم نے کہا کہ پروجیکٹ اگری منٹ میں یہ بات درج تھی کہ آمدنی کا 20فیصدی اس پرجیکٹ کی مرمت کیلئے خرچ کیا جائے گا ۔لیکن یہ اگریمنٹ صرف کاغذوں تک ہی محد ودرہ گیا۔انہوں نے کہا کہ پچھلے سال ایک ٹرانسفارمر کے جلنے سے عمارت کی دیواریں سیاہ ہو گئی تھیں اُس وقت سے ہم نے کئی بار محکمہ کو اس کے رنگ کیلئے پیسے واگذرا کرنے کیلئے درخواستیں دیں، لیکن محکمہ نے کوئی توجہ نہیں دی ۔انہوںنے مذید کہا کہ منصوبے کو پچھلے سال ایک مین پائیپ لائین میں سراخ ہو گیا تھا جس کی وجہ سے لاکھوں روپے کی مشینری تباہ ہوگئی اور ہزاروں لیٹر ٹربائین تیل بہہ گیا ۔اس دوران یہ پروجیکٹ تقریباً بیس گھنٹے کیلئے بیٹھ گیا تھا اور سرکار کو اس میں لاکھوں روپے کا نقصان ہوا تھا ۔ جوصرف سرکار کی لاپروائی کی وجہ سے ہوا ہے ۔پروجیکٹ کے ایک اور ملازم نے کہا ہے کہ اس بجلی گھر کی نو کلومیٹر لمبی کنال جو گانٹہ مولہ سے بمیار تک ہے ،سینکڑوں مقامات پر اس میں پانی ضائع ہورہا ہے جبکہ کئی جگہوں پر کنال اور درئے جہلم کے درمیان صرف دس سے بیس فٹ کافاصلہ ہے اور حسب دستور سرکار اس معاملے پر خاموش ہے اور انہو ں نے مضبوط کنال اور دریائے جہلم کے درمیان مضبوط دیوار بنانے کیلئے اب تک کوئی قدم نہیں اٹھا یا ۔ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ مین گیٹ جو کہ دریائے جہلم کا پانی کنال کی طرف موڑ تا ہے ،وہ بھی زائدالمعیاد ہوچکا ہے ۔اس کے علاوہ پاور ہاوس کا پُل بھی بیس سال پہلے غیر محفوظ قرار دیا گیا تھا ۔جبکہ کنال کی سڑک بھی خستہ ہوچکی ہے اور کنال کی اب تک فینسگ بھی نہیں ہوئی ہے جو سرکار کی سراسر لاپروائی کا نتیجہ ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ اگر یہ بجلی گھر خدا نخواستہ کبھی ٹھپ ہو گیا تو ریاست کو زبردست بجلی بحران کا سامنا کرنا پڑے گا اور ہزاروں کروڑ روپے کا خسارہ بھی ہوسکتا ہے ۔ گانٹہ مولہ سے بمیار تک کی ہزاروں نفوس پر مشتمل مقامی آبادی نے لیفٹنٹ گورنر انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ اس منصوبے کی طرف فوری توجہ دی جائے تاکہ ریاست کا یہ قیمتی اثاثہ بھاری نقصان سے بچ جائے۔