لال چوک کے چھاپڑی فروش نالاں

سرینگر//لالچوک میں واقع چھاپڑی فروشوںکے ’فیشن مارکیٹ ‘میں جگہ کی تنگی کے باعث خریدداروں کے اس جانب رخ کرنے میں کمی کا دعویٰ کرتے ہوئے اس جگہ منتقل کئے گئے چھاپری فرشوں نے کہا کہ انکا کاروبار ٹھپ ہوگیا ہے۔چھاپڑی فروشوں نے لالچوک میں احتجاج کرتے ہوئے سرکار پر وعدہ خلافی کا بھی الزام عائد کیا۔ شہر میں پولو ویو سے لیکر امیراکدل تک گزشتہ برس چھاپڑی فروشوں کو ہٹایا گیا اور انہیں گھنٹہ گھر کے متصل ایس آر ٹی سی یارڈ میں منتقل کیا گیا جبکہ اس جگہ کی مرمت کر کے’ مکہ مارکیٹ ‘نام دیا گیا۔حزب کمانڈر برہان وانی کے جاں بحق ہونے کے بعد شروع ہوئی ایجی ٹیشن اور ہڑتال کے دوران مکہ مارکیٹ کو صاف کیا گیا اور وہاں پر موجود ساز و سامان کو ہٹایا گیا۔ینگ مینز فٹ پاتھ یونین کے صدر جان محمد نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ ہڑتال کے بعد ایک مرتبہ پھر چھاپری فروشوں نے سڑک کناروں پر بازار لگایا تاہم امسال پھر سے انہیں مکہ مارکیٹ میں منتقل کیا گیاجس کو اب کی بار فیشن مارکیٹ کا نام دیا گیا۔چھاپٹری فروشوں کا کہنا ہے کہ فیشن مارکیٹ میں اگر چہ صرف300بیڈوں یا چارپائیوں کو لگانے کیلئے جگہ موجود ہے تاہم اس چھوٹی سی جگہ میں500کے قریب خوانچہ فروشوں کو منتقل کیا گیا۔جان محمد کا کہنا ہے’’ کم جگہ میں لا تعداد چھاپڑی فروشوں کوٹھونسا گیا ہے،جس کی وجہ سے خریدار بالخصوص خواتین اس بازار کا رخ نہیں کرتیں،جس کے نتیجے میں یہ بازار ناکام ثابت ہو رہا ہے اور چھاپڑی فروش بے کار ہوگئے ‘۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ اگر اس مارکیٹ میں صرف300 لوگوں کیلئے ہی جگہ موجود ہے تو500کو کیوں ٹھونسا جا رہا ہے۔ جان محمد نے مزید کہا کہ سرکار نے وعدہ کیا تھا کہ اس بازار کیلئے کھلی چھت نصب کی جائے گی تاکہ چھاپڑی فروش دھوپ اور سخت گرمی کی شدت سے بچ سکیںتاہم وہ وعدہ بھی سراب ثابت ہوا۔چھاپڑی فروشوں نے لالچوک میں احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت کو کارووائی کرنی ہے تو تمام لوگوںکے خلاف کریںورنہ پریس کالونی سے لیکر گردوارہ تک پٹری فروشوں سے ہی کیوں سوتیلی ماں جیسا سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔بعد میں پٹریوں پر مال فروخت کرنے والے لوگوں کا ایک وفد ڈویژنل کمشنر کشمیر سے بھی ملاقی ہوااور انہیں اپنے مسائل سے آگاہ کیا۔