گزشتہ سال بھی مدرسہ ڈسکورسز کا ونٹرانٹینسِو ( winter intensive)قطرمیں رکھاگیاتھااورجامعہ حمدبن خلیفہ ہی نے اس کی میزبانی کی تھی اس میں راقم شریک نہ تھا۔اب کی باربھی ہمارے انٹینسِوکی ضیافت جامعہ حمدبن خلیفہ نے قبول کی تاہم اِس بارپروگرام کا نیچرتھوڑامختلف یوںتھاکہ بجائے مختلف موضوعات پر باہرسے ماہرین کو بلانے کے، اس سال یہ نظم کیاگیاتھاکہ مدرسہ ڈسکورسز کے سال سوم (تحقیق وریسرچ)کے طلبہ اپنے اپنے رسرچ پیپیرزکی پرزینٹیشن دیںگے ۔ ان کے پیپرزیاان کے خلاصے تمام شرکاء کوپہلے ہی بھیج دیے گئے تھے تاکہ وہ ان کوپڑھ کر،سمجھ کراورتیارہوکرآئیں اوران موضوعات پر بحث ومباحثہ کی محفل جمے ،اس سے تحقیق کاروںکوفیڈبیک ملے گااورشرکاء ان پربحث وتحقیق کے نئے گوشوںسے آشنائی حاصل کرسکیںگے ۔یہاںیہ واضح رہے کہ مدرسہ ڈسکورسزنوٹرے ڈیم یونیورسٹی میں اسلامیات کے استاداورمعروف اسکالرپروفیسرابراہیم موسیٰ کی قیادت میں ایک تین سالہ آن لائن کورس ہے جومدارس کے ان فارغین کے لیے اختراع کیاگیاہے جوکسی یونیورسٹی سے ایم اے یا پی ایچ ڈی کررہے ہوںیاکرچکے ہوں۔پہلے سال میں اسلامی علمی ورثہ سے منتخب متون پڑھائے جاتے ہیںاوردوسرے سال میں سائنس لٹریسی پر فوکس کیاجاتاہے۔اورتیسرے سال کے طلبہ کسی ایک موضوع پر رسرچ کرتے ہیں۔سال میں دوبارسردی اورگرمی کی چھٹیوںمیں اس کے ہفت روزہ یاپندر ہ روزہ تربیتی پروگرام Intensive ہوتے ہیںجوزیادہ تربیرون ملک رکھے جاتے ہیں۔ہمارایہ انٹینسوبھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی تھا۔
جزیرہ نمائے قطرخلیج فارس میں واقع ہے اوریہ تاریخی جزیرۃ العرب کا ایک چھوٹاساحصہ ہے۔انیسویںصدی میںالثانی خاندان اس علاقے کے بدوقبائل کا سربراہ ہواکرتاتھا۔ہم سایہ قبیلوںکی تاخت نیزسلطنت عثمانیہ کے تسلط سے بچنے کے لیے اس خاندان نے انگریزوںسے ایک معاہدہ کرلیاجس کی روسے اس چھوٹی سی ریاست کے دفاعی اورخارجہ امورانگریز دیکھتے تھے۔1971میں اس کوکامل آزادی ملی ۔ ویسے تویہاں1935میںپیٹرول اورقدرتی گیس کے ذخائردریافت ہوچکے تھے ،جوآج اس کے خاص وسائل معیشت میںہیں،مگر1970میں اس کی فی کس شرح آمدنی میں زبردست اضافہ ہوااوروہی قطرجودنیاکی غریب ترین آبادی تھی جہاںروزگارصرف موتی نکالنے،گھونگے اورمچھلی کے شکارپریابحری قزاقی پر مبی تھایکایک ایک ثروت مندریاست کے طورپرسامنے آگیا۔کل 240مربع کلومیٹرپر مشتمل اس ریاست کے حدودسعودی عرب ،بحرین ،متحدہ عرب امارات سے ملتے ہیں۔زمین بنجرہونے کے سبب زراعت کے امکانات بڑے محدودہیں اوراکثراشیاء خوردنی باہرسے ہی منگوانی پڑتی ہیں۔قطرکے اوریجنل باشندے تعدادمیںبہت کم ہیں،کل آبادی کے تقریبا۷۰فیصدلوگ بیرونی ورکرزہیں جوزیادہ انڈیا،پاکستان اورایران وغیرہ کے ہیں۔دوحہ ،ام سعید،اورالریان یہ تین خاص شہرہیں ان کے علاوہ کچھ چھوٹے جزائربھی ہیں۔مین آبادی دوحہ میں رہتی ہے۔دوحہ میں ہی ہماراپروگرام تھا۔
ہم لوگ مقامی ٹائم کے مطابق ۳ بجے دن میں دوحہ کے اپنے مستقرپہنچ گئے تھے ۔ ہماراقیام الفندق، الغرافہ (ہوٹل پرائمران )میں تھاجوقطرایجوکیشن سٹی میںہی واقع ہے۔اس کے ٹھیک سامنے نیاقطراسٹیڈیم بنایاجارہاہے جس میں 2022میں فیفاورلڈکپ کا انعقادہوناہے۔
جامعہ حمدبن خلیفہ کے شعبہ اسلامک اسٹڈیز( CIS)میں پروگرام منعقدہوا۔جونہایت خوبصورت ،صاف شفاف مچھلی کی شکل میں بنائی گئی ایک شاندار عمارت میں ہے۔اس کی دیواروںپر جلی حرفوںمیں قرآنی آیات کی میناکاری کی گئی تھی۔اس کی لائبریری اوردیگرسہولیات کسی مغربی ملک کی جامعات سے کم نہیں تھیں۔البتہ اس وقت یونیورسٹی میں چھٹی چل رہی تھی اس لیے کیمپس خالی پڑاتھا۔نمازوںمیں چندہی آدمی نظرآتے تھے۔
پروگرام کا نظم یوںتھاکہ مدرسہ ڈسکورسز کے چاروںلیڈفیکلٹی پروفیسرابراہیم موسی ٰ،ماہان مرزا، مولانا عمارخاں ناصر اور ڈاکٹروارث مظہری کے رسرچ گروپوںمیں سے ہرایک کوایک ایک دن دیاگیا۔پہلے چار مقالے پیش ہوتے ۔ہرمقالہ پر خاصاڈسکشن ہوتا۔اس کے بعددوپہرکی نششتوںمیںتمام شرکاء کوچارگروپوںمیں تقسیم کردیاجاتااورصبح کے مباحثہ میں سامنے آئے سوالات پر مزیدتنقید،تنقیح اوربحث ہوتی ۔چاربجے تک پروگرام ختم ہوجاتااس کے بعدرات میں دوسرے دن کی ریڈنگ کی تیاری کی جاتی ۔سیمینارکی شکل یہ تھی کہ پہلے مقالہ نگارسلائڈاورپروجیکٹرکی مددسے دس سے پندرہ منٹ میں اپنے پیپرکا خلاصہ بیان کرتااوراہم نکات شرکاء کے سامنے رکھتاپھرتقریبا۲۰منٹ اس پر شرکاء سوال جواب کرتے اورکھلامباحثہ ہوتا۔ڈسکشن کی زبان اردواورانگریزی تھی۔شرکاء ہندوپاکستان کے علاوہ نوٹرے ڈیم سے آئے تھے جوکل ملاکر40طلبہ وطالبات سے زایدتھے۔
سب سے پہلے مولاناعمارخاںناصر کے ریسرچ گروپ نے پرزینٹیشن دی۔اس میں حافظ عبدالرحمان نے کلامی مسائل میںمختلف مکاتب فکر کے تاویل کے اصول ومناہج پرروشنی ڈالی ۔انہوںنے بتایاکہ :تاویل کی ضرورت اس لیے پڑتی ہے کہ زبان کے معانی مختلف ہوتے ہیںلفظ کا ایک معنی لفظی اورظاہری ہوتاہے اورایک معنوی ومجازی ۔پھرمتن خبریاانشادوطرح کاہوتاہے انشاء یعنی احکام میںچونکہ عمل کا مطالبہ ہے اس لیے اس میں تاویل جائز ہے مگرخبرمیں تاویل جائز نہیں یہ محدثین کا مسلک ہے ۔اس کے مقابلہ میں متکلمین کا مسلک تاویل کا ہے ،پھرمتکلمین کے کئی گروپ ہوجاتے ہیںمثلامعتزلہ ،اشاعرہ ماتریدیہ وغیرہ ۔یہ توماضی کا قصہ ہوا،آج اِن کلامی مباحث سے ہمیںکیامددمل سکتی ہے اصل سوال یہ ہے ۔اس پر ابھی شایدحافظ صاحب آگے کام کریںگے ۔
زیدحسن کے مقالہ’’ شریعت وتمدن کا باہمی تعلق ،شاہ ولی اللہؒ کے افکارکی روشنی میں‘‘میں یہ بات کہی گئی کہ شرائع کی اساس تمدن پر رکھی جاتی ہے۔یہ شاہ ولی اللہؒ کا نظریہ ہے اوراس بات پر فوکس کرکے ان سے پہلے شایدکسی نے اس چیزکوبیان نہیںکیا۔شاہ صاحب اپنے فلسفیانہ ذہن سے خدا،انسان اورمعاشرہ ان تینوںکو دیکھتے ہیںاوراپنے نظریہ کی بنیادرکھتے ہیں۔شاہ صاحب کے مطابق انسان عام حیوانوںکی طرح کام نہیںکرتابلکہ کسی کام کے کرنے کے عام اصول رکھتاہے مثلاًوہ مستقبل کے بارے میںسوچتاہے عام حیوان نہیں سوچتے ۔اس کے کام میں لطافت وحسن ہوتاہے ۔ ان سب کے مجموعہ کورائے کلی کہتے ہیںاوررائے کلی پر مبنی عملی اصولوںکوشاہ صاحب سنت راشدہ کے نام سے پکارتے ہیں۔شاہ صاحب کے نزدیک مذکورہ اصولوںکی حفاظت کے لیے اللہ نے شریعت نازل کی ہے۔دین وشریعت میں فرق عام وخاص کا ہے۔البتہ مابعدالطبیعا ت اورامورتعبدیہ ارتفاقات (تمدنی امور)سے الگ ہیں۔
شاہ صاحب کا ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ شریعتوںکی تشکیل انسانی عادا ت و مالوفات پر ہوتی ہے۔اب اس پر سوال اٹھتاہے کہ شریعت کولوگوںکے مزاج وطبیعت پر مبنی مان لیاجائے تواگرمزا ج وطبیعت بدل جائے توکیااحکام بدل جائیںگے ؟اگرایساہے توپھراسلام آخری شریعت کیسے ہوا؟ ایک سوال یہ بھی ہے کہ اصول توشاہ صاحب نے یہ بنادیامگروہ خودبھی جزوی احکام کی تشریح روایتی طورپر (اسلام کوابدی مان کر)ہی کرتے ہیں اس کی توجیہ کیاہے ؟مولاناوقاراحمدنے حدودوتعزیرات کی ابدیت اوربدلتے حالات میں عملی صورتیں کے عنوان سے مولاناعبیداللہ سندھیؒ کے افکارکا مطالعہ پیش کیا۔مولاناسندھی نے روایت سے ہٹ کرلیکن روایت کے اندررہتے ہوئے کام کیااورشاہ ولی اللہ کے فکرکی تشریح کی۔تجدیدکے حاملین میں وہ یوںمختلف ہیںکہ وہ حدیث کوردنہیں کرتے بلکہ اس کی نئی توجیہ پیش کرتے ہیں۔مولاناکی رائے یہ ہے کہ موطااہل مدینہ کا قانون ہے اوربخاری ومسلم وغیرہ اس کی شرحیںاوراس پر اضافے ہیں۔مولاناسندھی کا کہناہے کہ بنیادی قانون قرآن میں دے دیاگیاہے تفصیلی قانون انسان خودمرتب کرے گا اوراس میں غلطیوںکا امکان ہے جس کواللہ معاف کردے گا۔وہ یہ بھی کہتے ہیںکہ حدودعادی مجرموںکے لیے ہیں۔ان میں حالات کی تبدیلی سے تبدیلی کی جاسکتی ہے اوراسی طرح زکوۃ کے نصابات میں بھی ۔مختلف سوال و جواب کی روشنی میں بظاہرایسامحسوس ہواکہ مولاناسندھی کے خیالات منضبط اصولوںپر مبنی نہیںہیں۔لیکن یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ علما مصلحین کے طبقہ میں مولاناسندھی جیسے اوریجنل فکررکھنے والے اورزمانہ سے آگے دیکھنے والے مفکرین شاذونادرہیں۔المیہ یہ ہواکہ روایتی علمانے ان کی فکرکوبالکل مستردکردیا۔اب پاکستان میں ان پر کام ہورہاہے۔
مولاناعمارخاںناصرکے مقالہ’’مسلم قومی ریاستوںمیں غیرمسلموںکے آئینی حقوق ‘‘میں جوچنداہم باتیںسامنے آئیں وہ ہیں :غیرمسلموںکی حیثیت کے بارے میں مسلمان جوکچھ لکھ رہے ہیںوہ زیادہ ترفقہی اسلو ب میں لکھتے ہیں۔ماڈل ہم جدیددورکا لیتے ہیںاورجزئیات فقہی نظائرسے لے لیتے ہیں۔حالانکہ سسٹم کوسسٹم کے سامنے رکھ کردیکھیںتواسلامی نظام اورغیراسلامی نظام دونوںمیں(جزئیات کے اعتبارسے )کچھ مماثلت کے باوجودکلی طورپر عدم مماثلت ہے۔فیملی لازاورحدودکے مسائل (روایتی فکرمیں )قطعی اصولوںپر مبنی بتائے جاتے ہیں۔البتہ سیاسیات کے بارے میں بہت سے علمایہ کہتے ہیںکہ ہمیںاسلام نے کسی ماڈل کا پابندنہیں کیاکچھ ضروری اصول دے دیے ہیںباقی سب چیزیںاجتہادی ہیں۔یعنی اس ضمن ہمیں جوماڈل ملاہے اس کا ابدی ہونامطلوب نہیں۔ذمہ اورمعاہدہ اورشہریت یہ دونوںبالکل الگ الگ چیزیںہیں دونوںکوالگ رکھناچاہیے۔ایک اخلاقی سوال یہ بھی ابھرتاہے کہ 40فیصدمسلمان آج غیرمسلم ملکوںمیں رہتے ہیںاگرمسلم ممالک میں غیرمسلموںکواہل الذمہ قراردیاجاتاہے توآج مسلمان کس منہ سے سیکولرملکوںمیں اپنے لیے انسانی حقو ق طلب کریںگے ۔مقالہ سے ایک اہم نکتہ یہ نکل کرسامنے آیاکہ تاریخی طورپر غیرمسلموںکومناصب دینے اوران سے کام لینے کے مسئلہ میں مسلمان حکمرانوںاورفقہاء کے مابین ایک Tention اورنزاع نظرآتی ہے۔مولاناعمارصاحب نے رائے دی کہ حکمرانوںکے تعامل کوبھی نظائرمیں شمارکیاجاناچاہیے۔راقم اس رائے سے کلی طورپر متفق ہے کیونکہ یہ عملی مسئلہ ہے اورعملی مسائل میںاہل حل وعقداورحکمراںعلماء کے مقابل کہیں زیادہ صائب الرائے واقع ہوئے ہیں۔فقہاء اورعلما فقہی جزئیات میں پھنس کرجاتے ہیںجبکہ ارباب حل وعقدعملی مسائل ومصالح کی بنیادپر فیصلہ کرتے ہیں۔جزئیات سے چمٹے رہنے کا ایک منفی نتیجہ یہ نکلاہے کہ اسلام کی مبنی برنصوص سیاسی فکرمیں کوئی ارتقاء نہیں ہوااورماوردی وابن خلدون سے آگے بڑھ کرانسانی تجربات پر مبنی کوئی سیاسی فکرسامنے نہیں آسکی ہے۔
پہلے دن کا پروگرام ختم ہونے کے بعدسب لوگ ہوٹل واپس آئے ۔قطرکے سفرپرآنے سے تین پہلے ہی میرے سب سے بڑے بھائی مختارالحق کی وفات ہوگئی تھی ۔ ان کی تدفین سے واپسی میں رات کے ساڑھے بارہ بجے علی گڑھ پہنچاتوبس سے اترتے ہوئے کہرے کی وجہ سے نیچے گرگیااوراس سے دونوںگھٹنوںمیں چوٹیںآئیں۔ایک گھٹناتوٹھیک ہوگیامگردوسرے میںزخم ابھی تک ہراتھااس لیے چلنے پھرنے میں دشواری ہورہی تھی اس لیے لگتاتھاکہ اس سفرمیں زیادہ گھومناپھرنانہیں ہوپائے گا۔پھربھی ہمت کرکے ہم نے مفتی سعدمشتاق صاحب اور خلیق بھائی کے ساتھ کچھ گھومنے کا پروگرام بنایاگیااورمفتی صاحب اپنے دودوستوںسے ملاقات کے لیے لے گئے ۔ ہم نے دیکھاکہ قطرمیں انسان بہت کم ہیں،دن کے کسی بھی وقت کوئی چہل پہل ،شورہنگامہ ہوٹل میں ، روڈپر،مسجدوںمیں یاسڑکوںپر نظرنہیںآیا۔نہ گاڑیوںکے چلنے کی آواز،نہ سیٹی نہ ہارن وغیرہ کا غل ۔ عمارتیںشاندارزیادہ تریک منزلہ ،دومنزلہ لمبی چوڑی اورکشادہ ،سڑکیںچوڑی اورفراخ ۔ہرطرح کی جدیدسہولیات سے مزین صاف ستھراشہرمگرنیچرل بیوٹی سے محروم ۔یہاںتمام ترخوبصورتی آرٹی فیشل اورسبزہ زاربھی مصنوعیت کا آئینہ دار۔آبادی اتنی کم کہ گمان ہوتاکہ آدمی نہ آدم زاد۔ہوسکتاہے اس کی وجہ یہ ہوکہ ہم جس ہوٹل (الفندق،پرائمران )میں تھے وہ قطرتعلیمی سٹی کے اندرواقع تھا۔جہاںشہری آبادی نہ تھی۔قطرمیں صفائی ستھرائی کا وہ اہتمام ہے جوایران کوچھوڑکرمشرقی ممالک میں کہیںاورنظرنہیں آتا ۔قطراس معاملہ میں مغربی ممالک کی ہم سری کرتاہے۔رات کوہم لوگ واپس آئے تودیکھاکہ کمرہ کے پاکستانی ساتھی ٹی و ی پر امیتابھ بچن کی فلم دیکھ رہے تھے۔یعنی یہاںبھی انڈیاکی فلموںکا جادوسرچڑھ کربول رہاتھا۔راقم کبھی کبھارکوئی اچھی فلم ہوتودیکھ لیتاہے دل چسپی فلموںسے ذرابھی نہیں کیونکہ پرانی فلمیںتوایجوکیٹ کرتی تھیںمگراب توصرف فحاشی اورعریانی پھیلانے کا سب سے بڑاذریعہ ہیں۔میری پسندان کے مقابلہ میںمعاشرتی ڈرامے ہیںجن میں پاکستانی انڈسٹری انڈیاسے بہت آگے ہے۔
نوٹ : مضمو ن نگارریسرچ ایسوسی ایٹ مرکزفروغ تعلیم وثقافت مسلمانان ہند علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ ہیں
(بقیہ بدھ کے شمارے میں ملاحظہ فرمائیں)