ملک منظور
عیدالاضحیٰ قریب آ رہی تھی اور گاؤں میں بچوں کی خوشی دیدنی تھی۔ جیسے ہی کوئی جانور لایا جاتا، بچے تالیاں بجاتے، نعرے لگاتے اور دوڑتے ہوئے اسے دیکھنے آ جاتے۔ گویا گاؤں نہیں، کسی میلے کا میدان ہو!
ایان، سارہ اور ان کا چھوٹا کزن زید بھی انہی بچوں میں شامل تھے۔ ایان کو اپنے سفید بکرے “سلطان” سے ایسی محبت تھی جیسے کوئی شہزادہ اپنے گھوڑے سے کرتا ہے۔ وہ روز اس کے سینگوں پر رنگ برنگی ربن باندھتا، اسے نہلاتا، سنوارتا اور کہتا، “سلطان! تو صرف بکرا نہیں، عید کا بادشاہ ہے!”
سارہ کو اپنے بھیڑ سے اس حد تک انسیت تھی کہ اسے روز شام کو کہانیاں سناتی، جیسے وہ اس کا رازدار ہو۔ اور زید… وہ تو سوالوں کی مشین تھا! ہر وقت نئی نئی باتیں پوچھتا، کبھی پوچھتا، “بکرا ہنستا کیوں نہیں؟”، کبھی کہتا، “بھیڑ کو جوتے کیوں نہیں پہناتے؟”
ایک دن، زید نے سلطان کے قریب جا کر سرگوشی کی، “بتا! تُو کیسا محسوس کرتا ہے؟ تجھے پتا ہے، عید کے دن تیرے ساتھ کیا ہونے والا ہے؟”
ایان نے پیچھے سے آ کر اس کے کان کھینچ دیئے، “ابے فلسفی! تُو جانوروں کو بھی فلاسفی پڑھانے لگا ہے؟”
زید نے منہ بسور کر کہا، “بس کر دو، مذاق ہی مذاق میں میرا دماغ چرخہ بن گیا ہے!”
شام کے وقت جب سورج پہاڑیوں کے پیچھے جا چھپا، تو مسجد کے صحن میں بچوں کے لئے ایک خصوصی نشست رکھی گئی۔ سب بچے چہکتے ہوئے آئے۔ وہاں موجود تھے بزرگ بابا ہارون، جن کی سفید داڑھی اور نورانی چہرہ دیکھ کر ہی بچے خاموش ہو جایا کرتے۔
بابا ہارون نے نرمی سے پوچھا، “بچو! بتاؤ، عیدالاضحیٰ کیوں مناتے ہیں؟”
ایان نے ہاتھ کھڑا کیا، “قربانی کے لئے!”
سارہ نے کہا، “نئے کپڑے، چوڑیاں، مہندی، اور عیدی کےلئے!”
زید نے برجستہ کہا، “اور گوشت کے لئے!”
سب بچے قہقہے مار کر ہنس پڑے، جیسے ہر ایک نے اپنا راگ چھیڑ دیا ہو۔
بابا ہارون مسکرائے، “ارے ارے! بات تو ابھی شروع ہوئی ہے اور تم نے آسمان سے باتیں شروع کر دیں!”
پھر انہوں نے بچوں کو غور سے دیکھا، “بچو، قربانی صرف جانور ذبح کرنے کا نام نہیں۔ یہ اپنی خواہشات، اپنی آرام طلبی اور بعض اوقات اپنی پسندیدہ چیز کو اللہ کے لئے چھوڑ دینے کا نام ہے۔”
سارہ نے چونک کر پوچھا، “تو کیا عیدالاضحیٰ صرف گوشت کھانے کی خوشی کا دن نہیں ہے؟”
بابا ہارون نے کہا، “نہیں بیٹی۔ یہ وہ دن ہے جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم پر اپنے پیارے بیٹے، حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربان کرنے کا ارادہ کیا۔ اور حضرت اسماعیل نے کہا، ‘ابا جان! جو حکم آپ کو ملا ہے، اسے پورا کیجیے۔ دیکھو! کیسا ایمان، کیسی اطاعت!”
زید نے معصومیت سے پوچھا، “لیکن ہم تو بچے ہیں، ہم کیا قربانی دے سکتے ہیں؟”
بابا ہارون جھک کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولے، “ارے شہزادے! تم اپنی ضد قربان کر سکتے ہو، اپنا وقت، اپنا آرام… مثلاً کسی کو ہنسانے کے لئے اپنا کھلونا دے دینا، کسی کے دکھ کو بانٹنے کے لئے اپنا کھیل چھوڑ دینا… یہی قربانی ہے۔”
سارہ نے سنجیدگی سے کہا، “تو عید کا مطلب ہے دوسروں کے لیے جینا، صرف اپنے لئے نہیں۔”
بابا ہارون نے خوش ہو کر سر ہلایا، “بالکل! بات تم نے پلے باندھ لی! عید تو صرف خوشی بانٹنے کا نام ہے — اللہ کی رضا میں راضی ہونا، ماں باپ کی فرمانبرداری، اور غریبوں سے ہمدردی۔”
ایان نے سلطان کو غور سے دیکھا، “تو جب ہم قربانی کرتے ہیں، ہم اللہ سے کہتے ہیں: ‘یا اللہ! میں تیرے لئے وہ بھی چھوڑ سکتا ہوں جو مجھے سب سے پیارا ہے”
اس رات، آسمان تاروں سے جگمگا رہا تھا۔ بچے خاموشی سے اپنے جانوروں کے ساتھ بیٹھے تھے۔ نہ شور، نہ ہنگامہ، بس دلوں میں ایک نئی روشنی، ایک نیا سبق۔
زید نے آہستہ سے بھیڑ کے کان میں کہا، “ڈرو نہیں، دوست! میں بھی قربانی دوں گا… اپنی ضد، اپنی دیر سے اٹھنے کی عادت اور کبھی کبھی جھوٹ بولنے کی بھی!”
صبح جب عید کا سورج نکلا تو بچے صرف نئے کپڑوں میں نہیں، نئے دلوں کے ساتھ اٹھے۔ اطاعت، خدمت، ایثار اور ایمان کے پیغام کو لے کر۔
���
قصبہ کھل کولگام ،کشمیر، موبائل نمبر؛9906598163