معلم، قائد اور میر کارواں کی صفات کو عددی لحاظ سے کسی بھی صورت میں محدود نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ اس تحدید سے ایک طرف ان کی استعداد پہ حرف آئے گا اور دوسری طرف ان کا اپنے شاگرد، قوم یا قافلے کی ہمہ جہت نگرانی، رکھوالی اور راہنمائی کا پورا کام مشکوک ہونے کا احتمال ہے۔ انسانی تاریخ نے یہ ثابت کیا ہے کہ ایک راہنما کے پاس فرد یا جماعت کے اندر بالقوہ موجود صلاحیتوں کو نہ صرف مہمیز دینے کا ملکہ ہونا چاہئے بلکہ ان کو مجرد سطح سے مجتمع کرکے ایک ٹھوس اور عملی شکل میں منتقل کرنے کی بھی استعداد ہونی چاہئے۔ اسی صورت میں کارواں منزل مقصود تک پہنچ سکتا ہے، قوم کا بیڑا پار ہوسکتا ہے یا شاگرد علم کی تجلی سے معاشرے کی ظلمتوں کو ختم کرسکتا ہے۔
میر کارواں اپنے قافلے کے لئے جو کردار ادا کرتا ہے، اس کا تقابل مالی یا باغباں کی اس جانفشانی سے کیا جاسکتا ہے جو وہ اس چمن کی خاطر انجام دیتا ہے، جس کے گلوں سے بہار کی رعنائیاں منسلک ہوتی ہیں۔ میر کارواں والدین جیسا بھی ہوتا ہے جو اپنے دنوں کا چین اور راتوں کا آرام قربان کرکے انسانیت کے حیاتیاتی، نفسیاتی، اخلاقی، عقلی اور جمالیاتی تسلسل کو برقرار رکھنے کا سامان کرتے ہیں۔ اسی عظیم عمل کے ذریعے رب کی رحمت اور ربوبیت کا تصور جینیاتی اور نفسیاتی طور پر آنے والی نسلوں کو منتقل ہوتا ہے۔ اور اولاد کے لئے اس بات کو ضروری قرار دیا گیا کہ والدین کی ان قربانیوں کو نہ صرف مستحضر رکھا جائے بلکہ قولاً اور فعلاً اس کو چکانے کی کوشش کی جائے۔ اس بات کو قرآن نے ان مشہور الفاظ میں سمیٹا ہے: ’’وقل رب ارحمھما کما ربینی صغیرا۔‘‘ (بنی اسرائیل: 24) میر کارواں کاشتکار بھی ہوتا ہے جو اپنا خون پسینہ بہاکر ’’دانے اور گھٹلی‘‘ کو زمین میں چھپاتا ہے اور اللہ تعالی کے رزق کے خزانوں کا منہ کھولنے کا سبب بنتا ہے۔ اسی لئے اپنی لہلہاتی کھیتی کو دیکھ کر کاشتکار کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں ہوتا: ’’اس کھیتی کی مثل جس نے اپنی کونپل نکالی، پھر اسے مضبوط کیا اور وہ موٹا ہوگیا، پھر اپنے تنے پر کھڑا ہوگیا اور کسانوں کو خوش کرنے لگا۔‘‘ (الفتح: 29)
میر کاروں اس طرح اپنی معیت اور مصاحبت میں چلنے والوں کا ہر طرح سے خیال رکھتا ہے۔ وہ نہ صرف ان کی جسمانی ضرورتوں کا خیال رکھتا ہے بلکہ ان کی روحانی نشوونما کے لئے بھی ہر آن مستعد رہتا ہے۔ اس سلسلے میں یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں ہوگی کہ بنی اسرائیل کی تاریخ میں خدا کی اس نگہبانی اور نگرانی کو جو اس نے بنی اسرائیل کو فراہم کی، ’’شفرڈنگ کیئر-Shepherding Care‘‘سے تعبیر کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر عہد نامہ قدیم کی کتاب یسعیاہ میں درج ہے: ’’خبردار! خداوند اپنے جبروت کے ساتھ ظاہر ہوگا، اس کا بازوئے تحکم اس کا حکم چلائے گا! ۔۔۔۔۔۔۔ ایک گڈریے/چرواہے کی طرح وہ اپنے ریوڑ کی دیکھ بھال کرے گا۔۔۔۔۔۔!‘‘ (یسعیاہ، 40: 10-11) واضح رہے کہ چرواہے کی یہی اصطلاح جس میں ریوڑ کی حفاظت، ریوڈکی پرداخت، ہر آن ریوڑ کے ساتھ موجودگی، ریوڑ کو جمع رکھنا اور ریوڑ کی راہنمائی شامل تھی، پیغمبروں پر منطبق کی گئی کیونکہ خدا کی طرف سے یہ کام ’’نسل اسرائیل کے خاص (ریوڈ)‘‘کے لئے پیغمبروں کو انجام دینا تھے۔ مثال کے طور پر زبور میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ کس طرح خدا نے داؤد ؑ کو بھیڑوں کی رکھوالی سے اٹھاکر اولاد یعقوب (بنی اسرائیل) کی نگرانی کے لئے چن لیا۔ (زبور، 78: 70-72)
تاہم اسم اور فعل کی صورت میں مستعمل یہ لفظ (شفرڈ/گڈریا/چرواہا) اپنی ایک ما قبل اسرائیل تاریخ بھی رکھتا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ لفظ اس دور سے متعلق ہے، جب انسان کی معیشت کا بنیادی ذریعہ چراگاہوں سے منسلک (Pastoral Economy) تھا۔ اس دور سے ہی ’’چرواہے" کی تصویر ایک ‘‘بے غرض’’ اور ‘‘وفادار’’خادم کی بنی ہوئی تھی جو اپنے مالک کے ریوڈ کا ہر طرح سے خیال رکھتا تھا۔ ایرانی ماہر سماجیات، ڈاکٹر علی شریعتی کے مطابق ہابیل اور قابیل کی کشمکش سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ’’چراگاہی معیشت‘‘(جس کی نمائندگی ہابیل کررہے تھے) میں محبت اور اتحاد کا بول بالا تھا، جبکہ ’’زرعی معیشت‘‘ (جس کا نمائندہ قابیل تھا) میں نفرت اور استحصال شروع ہوا۔ چونکہ بنی اسرائیل کے بادشاہوں اور پیغمبروں کی ذمہ داری بھی دراصل یہی تھی کہ وہ ’’خدا کے خاص ریوڈ‘‘ یعنی بنی اسرائیل کی خدا کی نیابت میں نگرانی کریں، اس لئے بنی اسرائیل کے مورخین نے اس اصطلاح کو بلادریغ استعمال کیا۔
تاہم قرآن نے اللہ تعالی کے لئے اس کی شان کے مطابق ہی ’’الاسماء الحسنی، بہترین ناموں‘‘ (طہ: 8) کا انتخاب کیا ہے۔ اس لئے نہ تو مسیحیت کا خدا کے لئے (آسمانی/روحانی) ’’باپ‘‘ کا لفظ تسلیم کیا گیا اور نہ ہی یہودیت کی اصطلاح ’’چرواہا‘‘ کو استعمال کیا گیا۔ چونکہ یہ الفاظ ذومعنی بلکہ کثیرالمعنی تھے، اس لئے ان کے استعمال سے تشبہ کے کافی امکانات تھے۔ واضح رہے کہ اسی لفظ ’’چرواہا‘‘ کی عربی اصل سے کھیل کر یہود مدینہ رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے کی کوشش کرتے تھے، اس لئے صحابہ رضی اللہ عنہ کو یہ لفظ استعمال کرنے سے روک دیا گیا۔ (البقرہ: 104) اور یسعیاہ (56: 10) کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ یہود کی اس ضمن میں کیوں شدید مذمت کی گئی۔
اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ریوڈ پالنا اپنی ذات میں کوئی معیوب کام ہے۔ پیغمبران کرام علیہ السلام نے یہ کام کرتے ہوئے فطرت کی وسیع و بسیط درسگاہ میں آفاق و انفس پر غور و فکر کرکے توحید باری کی بنیادی تعلیم حاصل کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء کو نہ کسی ’’اکیڈمی‘‘(افلاطون سے منسوب) اور نہ کسی ’’لائسیم‘‘ (ارسطو سے منسلک) کی ضرورت تھی۔ موسیٰ علیہ السلام اسی کام کی بحسن و خوبی انجام دہی کے بعد طور پر تجلئ رب سے فیضیاب ہوئے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بھی یہی کام کرتے ہوئے اپنے رضائی بہن بھائیوں کے سامنے ’’شرح صدر‘‘ کیا گیا تھا اور آپؐ کے سینہ مبارک کو تجلیات ربانی سے منور کیا گیا تھا۔ اس لئے اس پیشے اور اس سے متعلق اصطلاحات کے ساتھ اللہ تبارک و تعالیٰ کو کوئی بیر نہیں ہوسکتا تھا۔ کیونکہ رب تعالیٰ کا زبانوں کے بارے میں واضح اعلان ہے کہ ’’زبانوں اور رنگوں کے اختلاف میں بھی دانشمندوں کے لئے نشانیاں ہیں۔‘‘(الروم:22) اس قبیل کے کئی الفاظ قرآن میں استعمال ہوئے ہیں، جیسے: ’’وہ بولیں کہ جب تک یہ چرواہے واپس نہ لوٹ جائیں، ہم پانی نہیں پلاتیں۔‘‘ (القصص: 23) اسی طرح ’’رعایت‘‘ (خیال رکھنے اور پابندی کرنے کے معنی میں) کا مصدر بھی یہی لفظ ہے۔ اس کو سورہ الحدید کی اس آیت سے اخذ کیا جاسکتا ہے جہاں رہبانیت کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے: ’’سو انہوں نے اس کی پوری رعایت نہ کی۔‘‘ (الحدید: 27)
بہرحال نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جس مشہور حدیث میں ہر مسلمان کو’’اپنے ماتحتوں کا ذمہ دار اور ان کے بناو بگاڑ کے لئے مسئول ٹھہرایا گیا ہے‘‘ میں اس لفظ کو معروف اور مثبت معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’کلکم راع و کلکم مسئول عن رعیتہ۔‘‘ (متفق علیہ) اب خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیثیت سے اللہ تعالی تمام انسانیت کی خیرخواہی یعنی ہدایت کا کار عظیم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سپرد کیا تھا، اس لئے اس ذمہ داری کی ’’مسئولیت ‘‘بھی اسی درجے کی ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآن کی وہ آیت سنتے ہوئے زار و قطار آنسو بہاتے تھے جس میں اس مسئولیت (شہادت) کا ذکر موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’پس کیا حال ہوگا جس وقت کہ ہر امت میں سے ایک گواہ ہم لائیں گے اور آپ کو ان لوگوں پر گواہ بناکر لائیں گے۔‘‘ (النساء: 41) اسی ’’احساس ذمہ داری‘‘ کو ہم حجتہ الوداع کے خطبے میں بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں جہاں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ادائے حق کے بارے میں صحابہؓ سے مثبت جواب پاکر آسمان کی طرف شہادت کی انگلی اٹھاکر اس طرح اللہ تعالیٰ کو گواہ بناتے ہیں: ’’اللھم اشہد، اللھم اشہد، اللھم اشہد۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چونکہ ابدی اور مکمل معلم (بعثت معلما) بناکر بھیجا گیا تھا، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیثیت کے شایان شان اسلوب اپناکر اس ذمہ داری کو انجام دیا۔ تاہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رویے میں بحیثیت معلم اخلاق جو بات سب سے زیادہ نمایاں تھی وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نرمی تھی۔ اصل میں عام طور پر انسان ’’جلد باز‘‘ اور ’’کمزور‘‘ واقع ہوا ہے، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تعلیم اخلاق کے عمل میں نرمی کا پہلو سب سے نمایاں نظر آتا ہے۔ اس کا اظہار قرآن میں بڑے ہی شاندار الفاظ میں کیا گیا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’اللہ کی رحمت کے باعث آپ ان پر نرم دل ہیں۔‘‘ (آل عمران: 159) تاہم نرم مزاجی کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ جن آفاقی اصولوں کی تعلیم میر کارواں کے ذمہ ہو، ان کی اشاعت اور نفاذ میں کوئی تساہل برتا جائے۔ اس سلسلے میں ہم دیکھتے ہیں کہ جب چند نوجوان صحابہ ؓ، جن میں عبداللہ ابن عمرو ابن العاص رضی اللہ عنہ پیش پیش تھے، نے اپنی عبادات کو نہایت کم خیال کرکے مسلسل شب بیدارای، بلا ناغہ روزہ دار رہنے اور تجرد کی زندگی گزارنے کا آپس میں عہد کیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بر وقت ایک قسم کا ہنگامی اجتماع بلاکر ان کے اس رویے کی تصحیح فرمائی، کیونکہ اس سے ایک قسم کی رہبانیت کے جڑ پکڑنے کا خطرہ لاحق تھا۔
ظاہر ہے کہ رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محنت شاقہ کی بدولت صحابہ ؓ کی نگہ اتنی بلند ہوئی کہ انہوں نے خلق خدا کی اسلام کے آفاقی اصولوں کے مطابق تعلیم و ترتیب کو اپنا مقصد زندگی بنایا۔ ان معلمین صحابہؓ میں عبداللہ ابن مسعود ؓ کا ایک خاص درجہ رہا ہے۔ جب اہل کوفہ نے خلیفۂ دوم، سیدنا عمرؓ سے ایک معلم کی مانگ کی، تو آپ نے عبداللہ ابن مسعود ؓ کو کوفہ بھیجا اور اہل کوفہ کو تاکید کی ایسے لوگوں سے فائدہ اٹھائیں جن کی (انہیں یعنی) اہل مدینہ کو سب سے زیادہ ضرورت تھی۔ ابن مسعود ؓ نے کوفہ میں تعلیم و تعلم کی ایک ایسی روایت کی بنیاد ڈالی جو ابراہیم نخعیؒ، علقمہ ؒ اور حمادؒ سے ہوتی ہوئی امام ابو حنیفہؒ تک پہنچی۔ امام صاحب نے تحقیق و تمحیص کے لئے ایک اکیڈمی کی بنیاد ڈالی جس میں آپ کی سرپرستی میں آپ کے چالیس کے قریب شاگرد فقہ اسلامی کے مختلف موضوعات پر تحقیق کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ فقہ حنفی میں امام صاحب سے زیادہ آپ کے شاگردوں، جن میں امام محمد ابن حسن الشیبانی اور امام ابو یوسف قابل ذکر ہیں، کا زیادہ حصہ پایا جاتا ہے۔ اس طرح امام صاحب ایک مسلک کے بانی سے زیادہ ایک ماہر بین الاقوامی قانون کی حیثیت رکھتے ہیں۔ قانون کی ترتیب، ترمیم اور تنسیخ کو سیاسی اثر و رسوخ سے آزاد کرنا بھی امام صاحب کے سر جاتا ہے۔
غرض حقیقی معلمین اپنے شاگردوں کی فکری اور عقلی راہنمائی کے ساتھ ساتھ ان کی روحانی اور نفسیاتی بالیدگی کے لئے بھی دلسوزی سے کام کرکے ثابت کرتے ہیں کہ معلم، قائد اور میر کارواں کا ایک ہمہ جہت شخصیت کا حامل ہونا ایک بدیہی امر ہے۔ علامہ اقبال نے اس ہمہ جہتی کی ان صفات ثلاثہ میں تلخیص کی ہے:
نگہ بلند، سخن دلنواز، جاں پر سوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لئے
رابطہ9858471965