بھارت میں جب بھی کہیں دنگا فساد ہوتا ہے توپولس کا کردار ہمیشہ متعصبانہ اور غیرذمہ دارانہ نظر آتا ہے اور اکثر خاکی وردی اُس وقت سوالوں کے گھیرے میں آتی ہے ،جب وہ فسادیوںکو روکنے کے بجائے اُن کا ساتھ دیتی ہے اوراُن کی پشت پناہی کرتے ہوئے فساد زدہ علاقوں میں غریب مظلوم افراد پر ہی لاٹھیاں برساتی ہے، یہی وجہ ہے کہ فسادات کے بعد کئ پولس آفسران پر بھی تحقیقاتی ٹیم بٹھائی گئی ہیں۔ چاہے وہ 2002 گجرات دنگے ہوں یا مظفرپور ، دہلی اور حالیہ تریپورہ فساد ت۔ویسے بھی گجرات دنگوں کے بعد تو پولس کی شبیہ مکمل طور پر داغدار ہو ہی گئی تھی اور اب رہی سہی کسر تریپورا فساد میں پوری ہوگئی ۔دہلی اور تریپورہ تشدد کے دوران کئی ایسی ویڈیوز سوشیل میڈیا پر وائرل ہوئی ہیں جسے دیکھنے کے بعد عوام کا پولس پر سے بھروسہ بھی اُٹھ چکا ہے، بالخصوص اقلیتی دبے کچے غریب طبقے کا ۔اس طرح ویڈیوز میں پولس افسر اپنی وردی کا وقار بھلا کر فسادیوں کے بیچ خود بھی ایک فسادی کی طرح جئے شری رام کے نعرے لگاتے ہوئے دنگائیوں کا حوصلہ مزید بڑھ رہا ہے، وہ بے حد غیرانسانی ہونے کے ساتھ ساتھ پولس محکمہ کے لئے شرم کا مقام ہے، اس کے علاوہ بھی کئی ایسی ویڈیوز موجود ہیں ،جن میں پولیس خود پبلک پراپرٹی کو نقصان پہنچاتی ، عورتوں، بزرگوں اور بچوں کے ساتھ مار پیٹ کرتی نظر آئی ہے۔ ایسے میں ایک عام انسان کیسے اُن پہ بھروسہ کرے اور کیسے ان سے مدد کی امید کرسکے ؟۔
یہاں تریپورہ فساد کی بھی ایک ایسی ویڈیو وائر ہوئی ہے جسے دیکھنے کے بعد پولیس ڈپارٹمنٹ سے لے کر سرکار تک سوالوں کے گھیرے میں آتی ہے ۔ دراصل ویڈیو میں ایک خاتون افسر تریپورہ،میں فساد متاثرہ مسلمانوں کو ایک جگہ اکٹھا ہونے سے روکتے ہوئے نظر آرہی ہے ، جبکہ شدت پسند تنظیموںکی ہزاروں کی بھیڑ شہر بھر میں دہشت مچائے ہوئی ہے اور ان فسادیوں نے مسلم گھروںاور مساجد کو نذر آتش کردیا ہے ۔ باوجود انہیں روکنے کے پولیس مظلوم مسلمانوں پہ اپنی وردی کا دھونس جمارہی ہے جو پہلے سے خوفزدہ ہیں، اپنے گھروں، اپنی عورتوں، بچوں اور اپنی عبادت گاہوں کی حفاظت کرنے کے لئے پریشان ایک دوسرے کے ساتھ سے تھوڑی بہت ہمت سمیٹ رہے ہیں لیکن پولیس کو یہ بھی گوارا نہیں ۔اس دوران پولس کا دعویٰ ہے کہ وہ مسلم گھروںاور مسجدوں کی حفاظت خود کرے گی۔
اگر واقعی میں پولیس نے اپنا کام ،اپنا فرض ایمانداری کے ساتھ انجام دیا ہوتا تو 21 مساجد شہید نہیں کی جاتیں،نہ ہی مسلم گھروں اوردکانوں کو نذر آتش کیا جاتا ۔بہرحال 21 اکتوبر سے شروع ہوا تشدد مزید خطرناک صورت اختیار کرچکا تھا اور شدت پسند ہندوتنظیموں کی جانب سے جو خونی ناچ رچایا گیا ،اسے روکنے ،اُس پہ قابو پانے میں پولیس پوری طرح سے ناکام رہی ہے ۔جبکہ سینکڑوںمسلم گھروں اور دکانوں کو جلادیا گیا، ہزاروں مسلمان بےگھرو بےسہارا ہوچکے ہیں اور ان حالات میں پولیس کو جن فسادیوں کو روکنا چاہئیے تھا وہ انہیں کھُلا چھوڑ دیتی ہے اور پہلے سے ڈرے سہمے متاثرہ خاندانوں کے بےقصور مسلم نوجوانوں کو گرفتار کر لیا جاتا ہے ۔
یہان پر ایک اور غورطلب بات یہ بھی ہے کہ خاتون پولیس نے ویڈیو میں پولس فورس کم ہونے کی بھی بات کہی ہے جبکہ ڈپارٹمنٹ میں خالی جگہیں موجود ہیں اور خاص کر تریپورہ میں 8413 ویکنسس ہیں باوجود آخر کیوں نوجوانون کی بھرتی نہیں کی جاتی ؟ویسے بھی اکثر ہر چھوٹے بڑے گاؤں شہروں سے لے کر ریاستوں میں پولیس فورس کم ہونے کی شکایت سننے میں آتی ہے جبکہ پورے بھارت کی بات کی جائے تو 16 مارچ 2021 میں شائع ٹائمس آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان بھر میں پانچ لاکھ ایکتیس ہزار سات سو سئنتیس خالی سیٹیںموجود ہیں پھر کیوں نوجوانون کی بھرتی نہیں کی جاتی ؟ اور ایمرجنسی کے وقت اسٹاف کم ہونے کا بہانہ کرتے ہوئے مورل پولسنگ کو بڑھاوا دیا جاتا ہے، بالخصوص آر ایس ایس اور دیگرشدت پسندہندوتنظیوں سے جُڑے لوگوںسے اب حالات اس قدر بگڑ چکے ہیں کہ پولس اور فسادیوںمیںبھی فرق کرنا مشکل ہے ، کہیں دنگائی پولیس وردی میں نظر آتے ہیں تو کہیں پولیس وردی کا وقار بھلاکر فسادیوں کے رنگ میں رنگی نظر آتی ہے ۔ جیسے حال ہی میں دسہرے کے تہوار کے دوران کرناٹک پولیس اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کے خاطر آن ڈیوٹی تھانہ میںیونیفارم کی جگہ بھگوا لباس پہن کر ہتھیاروں کی پوجا کرتی نظر آئی ہے ۔ایسے میں ملک کے موجودہ حالات اور اس طرح کے واقعات بہت کچھ سوچنے پر مجبور کررہے ہیں بالخصوص اقلیتی طبقہ کو ۔ اوروں پہ بھروسہ کرنے کے بجائے خود ذہنی، جسمانی، معاشی ہر لحاظ سے تیار رکھیں، اس سے پہلے کے حالات مزید بےقابو ہوجائیں، باقی اللہ نگہبان ۔
( شیموگہ، کرناٹک )