غلام نبی شاہد

طارق شبنم 
مرکزی حیثیت والے تاریخی شہر سرینگرکی تاریخ کھنگالنے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ یہاں علمی ،ادبی ،روحانی، مذہبی اور دیگر شعبوں سے وابستہ بہت ساری اہم شخصیات نے جنم لیا ہے اور اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر کار ہائے نمایاں انجام دے کرنہ صرف اس شہر کا نام روشن کیا ہے بلکہ اس شہر کی شان کو بھی دوبالا کیا ہے ۔علم و ادب کے حوالے سے بھی سرینگرشہر کاپرچم ہمیشہ بلند رہاہے میری ذاتی رائے ہے کہ سرینگر کا سازگار ادبی ماحول اور دیگر دستیاب سہولیات ادیبوں کی صلاحیتوں کو نکھارنے وادب کو پروان چڑھانے میں نہایت اہم رول نبھا رہے ہیں ۔ بہرحال جو بھی ہے فی الوقت سرینگر شہر جو ا دیبوں، دانشوروں، سخنوروں اداکاروں اور فنکاروں کا مسکن رہا ہے ،کشمیر کے ادب اوردیگر فنون لطیفہ کی بھی راجدھانی ہے۔ جب ہم شہر سرینگر کے ادبی منظر نامے پر نظر ڈالتے ہیں تو کئی اہم ادبی شخصیات کے نام ابھر کر سامنے آتے ہیں جو آسمان ادب کی کہکشاں پر ستاروں کی مانند چمکتے نظر آتے ہیں۔ان ہی تا بندہ ستاروں میں ایک اہم نام غلام نبی شاہد کا ہے جو عرصہ دراز سے شعر و ادب کی زلفیں سنوانے میں مصروف عمل ہیں ۔
غلام نبی شاہد کا اصل نام غلام نبی بٹ ،قلمی نام غلام نبی شاہد ہے ،والد صاحب کا نام محمد شعبان بٹ ہے ۔ان کا جنم سرینگر کے ستھو بر بر شاہ علاقے میںہوا۔اکیڈمک تعلیم کے بعد آپ نے آئی ۔ٹی ۔آئی میں ڈپلوما کیا اور سرکاری نوکری اختیار کی۔ نوکری کے ساتھ ساتھ آپ کا قلمی سفر بھی جاری رہا ۔
    غلام نبی شاہد نے اپنے ادبی سفر کا آغاز 1973؁ء میں کیا جب ان کی پہلی کہانی ’’کتنے جھنڈے‘‘روز نامہ آفتاب کے ادبی ایڈیشن میں شایع ہوئی اس کے بعد آپ لگاتار لکھتے رہے ۔1976؁ء میں غلام نبی شاہد ،مشتاق مہدی اور سید یعقوب دلکش کاچودہ افسانوں پر مشتمل ایک مشترکہ افسانوی مجموعہ’’مٹی کے دیئے ‘‘شایع ہوا ہے،جس میں کشمیری زبان میں چھ اور اردو میں آٹھ افسانے شامل ہیں۔اس مجموعے میں غلام نبی شاہدکے چار افسانے شامل ہیں ۔شاہد صاحب اگر چہ بچپن سے ہی مطالعے کے سخت شوقین تھے اور ادبی ذوق بھی رکھتے تھے لیکن ان کے ادبی سفر کا با ضابطہ طور پر آغاز ایک دلدوز حادثے ،جس میں دلیپ نامی ان کا ایک ہم جما عت دوست جاں بحق ہوا تھا،کی وجہ سے ہوا ۔ شاہد صاحب خود لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔۔
’’دلیپ کی حادثاتی موت کے کچھ عرصہ بعد میں نے کئی بار ایک خواب دیکھا جس میں دلیپ سکول جاتے ہوئے ہاتھوں میں ایک بڑے صاف شفاف شیشے کے مرتبان کی طرف کچھ روٹھے ہوئے انداز میںاشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے ۔۔’’۔ژ دکھ نا یتھ سگ ‘‘(تم اسے سینچو گے نہیں ۔۔۔۔؟)میں شیشے کی مرتبان کی طرف دیکھتا ہوں۔جس میں نچلی تہہ پر بالکل درمیان میںایک چھوٹا خشک مٹی سے لدا پودارکھا ہوا ہے جس کی پتلی پتلی سوکھی جڑیںمرتبان کی سطح پر کچھ دائیں بائیںپھیلی اور کچھ لٹکی ہوئی ہیں ۔۔۔۔۔ یہ سب دیکھ کر میں دلیپ کی طرف دیکھ کر پورے اعتماد سے کہتا ہوں ‘‘
’’آ۔۔۔بہ دمہ اتھ سگ ‘‘(ہاں ۔۔۔۔ میں اسے ضرور سینچوں گا )‘‘.
(اعلان جاری ہے ،ص۔۔۔۔۔۔28)
اس خواب کی وجہ سے غلام نبی شاہد دل و دماغ پر بوجھ سا محسوس کرنے لگے۔ایک دن کمرے میں بیٹھے بیٹھے دلیپ اور خواب کے بارے میں سوچ  رہے تھے اور یوں قلم ہاتھ میں لے کر دلیپ کے بارے میں کچھ لکھتے رہے تو’’ ماں کا خواب ‘‘افسانہ وجود میں آگیا ۔بقول شاہد صاحب کے یہی ادب کے وسیع سمندر کے کنارے ہاتھ پیر مارنے کی شروعات تھی ۔
شاہد صاحب اردو کے ساتھ ساتھ کشمیری زبان میں بھی طبع آزمائی کرتے ہیں۔آپ افسانے اور ڈرامے لکھنے کے ساتھ ساتھ شعر شاعری سے بھی دلچسپی رکھتے ہیں، لیکن بحیثیت افسانہ نگار ان کی ایک خاص پہچان ہے۔ریڈیو سے آپ کا پہلاکشمیری ڈرامہ ’’انقلاب ‘‘ نشر ہوا جسے کافی پسند کیا گیا ۔اس کے بعد آپ کے کئی ڈرامے ریڈیو سے نشر ہوئے جن میں ’’آنگُن‘‘،’’رومت شہر‘‘ ،’’ یتہ ژ انگن رتھ دزان‘‘ وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔انہوں نے شوکت شہری اور یعقوب دلکش کے ساتھ مل کر مشہور سیریل ’’میہ چھہ مورے للون نار‘‘ بھی لکھاہے۔ علاوہ ازین آپ نے ’’خواب سرائے ‘‘،’’،پنن آنگُن پنن تاپھ‘‘،’’،تھکہ پینڈ‘‘،’’کستورہاوس‘‘ جیسے مشہور سیریل بھی تحریر کئے ہیں۔غلام نبی شاہد اردو اور کشمیری زبانوں میں شاعری بھی کرتے ہیں ،اگر چہ ان کا ابھی کوئی شعری مجموعہ شایع نہیں ہوا ہے لیکن ’’دہد چھ ونان ‘‘ (دادی کہتی ہیں)کے عنوان کے تحت ان کی تحریر کردہ دل چھو لینے والی کشمیری نظمیں سوشل میڈیا پر کافی مقبول ہورہی ہیں۔چند برس قبل شاہد صاحب کا افسانوی مجموعہ’’ اعلان جاری ہے منظر عام پر آگیا جس کے اب تک دو ایڈیشن شایع ہو چکے ہیں۔مذکورہ افسانوی مجموعے کو ادبی حلقوں میں بے حد پسند کیا گیا اور داد وتحسین سے نوازا گیا جو اس بات کا بین ثبوت ہے آپ فن افسانہ پر مضبوط گرفت رکھتے ہیں اور نہایت ہی فنکارانہ انداز میں واقعے کو کہانی بنا کر پیش کرنے کے ہنر سے آشنا  ہیں۔آپ اپنے ارد گرد بکھرے پڑے موضوعات کو چنتے ہیں اور الفاظ کا لباس پہنا کرہنر مندی سے کہانی کے قالب میں ڈالتے ہیں ۔ آپ کا اپنا ایک منفرد اسلوب ہے اورآپ کی اکثر کہانیاں حقیقت کے قریب ہوتی ہیں جو قاری کے دل کو چھو لیتی ہیں اور ذہن پر گہرا تأثر چھوڑ جاتی ہیں ۔معروف نقادمحقق ۔۔۔ غلام نبی خیال ان کے افسانوں کے بارے میں کچھ اس طرح اظہار خیا ل کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔
’’شاہد نے اپنے افسانوں پر رنگ و روغن چڑھانے کے لئے کسی قسم کی مصنوعی تزئین کاری سے کام نہیں لیا ہے ۔وہ ذاتی رائے یا کسی  تبصراتی رد عمل کے اظہار کے بغیر حقائق کو شدید تر لہجے میں فنکارانہ اسلوب کے ساتھ بیان کرتا ہے ۔ان افسانوں میں انسانوں ،کتوں اور بچوں کو جس خوبی سے کرداروں کی شکل میں پیش کیا گیا ہے وہ قاری کے دل و دماغ پر ان مٹ نقوش ثبت کرتے ہیں ‘‘۔
(اعلان جاری ہے،ص۔۔۔۔۔20)
غلام نبی شاہد کی اکثرکہانیاں بے حد مقبول ہیں جیسے ،مداوا،درد کا دریا،کرب زاروغیرہ ۔دیکھیں یہ اقتباس۔
’’آج ۲۴ مارچ ہے ۔ہماری شادی کی تیسری سالگرہ ۔مجھے خوش ہونا چاہیے تھا۔میں اداس کیوں ہوں ۔۔۔۔۔۔؟عالیشان بنگلہ ،نوکر چاکر ،دھن دولت ،پڑھی لکھی خوبصورت بیوی ۔۔۔۔۔۔ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی جیسے میرے پاس کچھ نہیں ۔۔۔۔۔۔یہ بناوٹ ہے ،فریب ہے ،جل ہے ۔۔۔۔۔۔ پھر حقیقت کیا ہے ۔۔۔۔۔۔؟وہ بیرونی گیٹ کے دائیں طرف ایک خستہ جھونپڑی ۔۔۔۔۔۔جہاں نہ نوکر ہےنہ چا کر ہے۔۔۔۔۔۔نہ دھن ہے نہ دولت ہے ۔۔۔۔۔جہاں حقیقت ہے ۔۔۔۔۔۔ سکون سے پر ایک خوشگوار زندگی ہے ۔۔۔۔۔۔جہاں مالی اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ ایک پر سکون زندگی بسر کر رہا ہے ۔۔۔۔۔۔ان کی شادی بھی تو آج ہی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔ ہاں ٹھیک تین سال پہلے اسی دن ۲۴ مارچ کو۔۔۔۔۔۔!
افسانہ ۔۔۔خوابیدہ گھونگھٹ(اعلان جاری ہے ص۔۔۔۔۔۔136 )
زیر نظر افسانے میں مصنف نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ عیش عشرت کی ہر سہولیت میسر ہونے کے با وجود سرمایہ دار طبقے سے وابستہ لو گوں کے بھی مسائل ہوتے ہیں ،یہ بھی الجھنوں اور بے سکونی کے شکار رہتے ہیں جب کہ جھگی جھونپڑیوں میں رہنے والے انتہائی غریب لوگ خوش اور پر سکون زندگی بسر کر رہے ہیں۔اس سماجی موضوع کو شاہد صاحب نے ایک نبض شناس ادیب کی طرح انتہائی ہنر مندی سے فنکارانہ انداز میں پیش کیا ہے ۔شاہد صاحب کی شخصیت اور افسانہ نگاری پر بات کرتے ہوئے بزرگ فکشن نگار نور شاہ یوں رقم طراز ہیں۔
’’ان کی شخصیت میں سادگی بھولا پن ہے اور ان کے افسانوں میں سچ ہے اور سچ کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ان کی کہانیوں کی خاموشیوں سے جو آواز سنائی دیتی ہے وہ دلوں کو چھو تی ہے ،ذہن کو جھنجھوڑ تی ہے۔کیا ہوا ہے کیا ہو رہا ہے کیا ہونے والا ہے یہ سب کچھ ’’اعلان جاری‘‘ ہے میں پوشیدہ ہے !! !(اعلان جاری ہے، ص۔۔۔۔۔10)
شاہد صاحب دبستان کشمیر کے ایک مایہ ناز فنکا ہونے کے ساتھ ساتھ سنجیدہ طبعیت ،نرم مزاج صاف گو اور ا علیٰ اخلاقی قدروں کے حامل ایک بے حدپرخلوص اور محبت کرنے والے انسان ہیں۔آپ نو وارد قلم کاروں کی نہ صرف قدر کرتے ہیں بلکہ ہر طرح سے ان کی حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں ،اس ضمن میں راقم کا روم روم بھی ان کا مقروض ہے جو انہوں نے ادبی سفر کے دوران قدم قدم پر میری حوصلہ افزائی کی ہے ،خاص طور پر فن افسانہ کے حوالے سے ان سے کافی کچھ سیکھنے کو ملا ہے ۔ آپ زبان و ادب کی خدمت کے لئے کئی ادبی تنظیموں سے بھی وابستہ رہے ہیں ،جموں کشمیر کی فعال ادبی تنظیم ’’جموں کشمیر فکشن رائیٹرس گلڈ‘‘کے نہ صرف بانی ممبران میں شامل ہیں بلکہ تنظیم کے کئی کلیدی عہدوں پر کام کر چکے ہیں ۔آپ گلڈ کی ہفتہ وار ادبی نشستوں کو سجانے میں پیش پیش رہتے ہیں اور نشت میں پڑھی جانے والی تحریروں پر مثبت انداز میں تبصرے کرتے ہیں۔الغرض آپ شہرت کی تمنا سے بے نیازخاموشی سے ایک حساس قلم کار کی طرح بہترین انداز میں اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں ۔ان کی بے لو ث اور بے باک ادبی خدمات کی جتنی ستائیش کی جائے کم ہے ۔۔۔۔۔۔ اللہ ان کے قلم کو اور زیادہ طاقت اور توانائی بخشے اور ان کے عزت میں اضافہ فرمائے ۔۔۔ آمین ۔ ملاحضہ فرمائیں شاہد صاحب کی یہ نظم ۔۔۔۔۔۔
میرے شہر
گھر گھر سکون ہے
کھلونے ،آنگن ،گلیاں
سب سوئے ہیں
ایمر جنسی وارڈ میں
غضب کی ضاموشی ہے
جہلم کناروں سے  ذرا
کٹ کر بہہ رہا ہے
جھیل کہ تہہ سے کئی چاند
ابھر ابھر کر پھر ڈوب جاتے ہیں
ٹیلی ویژن سے بہت خبریں آتی ہیں
لیکن
وہ ۔۔۔۔۔خبر ۔۔۔۔۔رہ جاتی ہے
پھر اندھیرا چھا جاتا ہے
اور
بالکونی میں بیٹھا شخص
کہہ رہا ہے
’’ کتنا خوب صورت پُر سکون شہر ہے‘‘
���
  اجس بانڈی پورہ (193502) کشمیر
موبائل نمبر؛9906526432