پروفیسر محمد اسداللہ وانی
غلام رسول کامگار سرزمین کشتواڑ کے رہنے والے تھے۔ وہ علامہ اقبال کے ہم عصر تھے ۔ انھوں نے اردو ،کشمیری اورفارسی میں شاعری کی ہے جس کا وافر حصہ تصوّف اوراخلاقیات کے علاوہ نعوت ومناقب پر مشتمل ہے ۔ ان کا کلام اعلیٰ قدروں کا علمبردار ہے ،جس کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ فکر وفن کے اعتبارسے علامہ اقبال سے متاثر تھے۔ انھوںنے علامہ اقبال کی مشہور مثنوی ’’رموزِ بیخودی‘‘ کا کشمیری میں بڑے فن کارانہ پیرائے میں ترجمہ کیا ہے۔ ان کی اردو شاعری پر بھی اقبال کے اثرات نمایاں ہیں۔
غلام رسول کامگارنے علامہ اقبال کے مشہورشعر
ہمالہ کے چشمے ابلتے ہیں کب تک
خضر سوچتا ہے ولر کے کنارے
پر ایک عمدہ تضمین مسدس کی صورت میں کہی ہے جس پر بظاہر حالی کا اثر نظر آتا ہے کیوں کہ اس کاتانا باناانھوں نے اقبال سے نہیں حالی ؔ سے لیا ہے اورجہاں تک اسلام اورملت اسلامیہ کے ضمن میں حالی اوراقبال کے افکار کا تعلق ہے وہ قریب قریب ایک ہی مقصد کی نشان دہی کرتے ہیں۔ چناں چہ یہ تضمین اگرچہ ہیئت کے اعتبار سے حالیؔ کی مسدس سے قریب ہے لیکن جہاں تک خیالات کوالفاظ کاجامہ پہنا نے کا تعلق ہے اس میں اقبال کا اثر نمایاں طورپر نظر آتا ہے ۔کامگار نے اس مسدس میں اقبال کے اشعار کی تضمین بڑے خوبصورت اندازسے کی ۔یہاںمیںاس تضمین کو اپنے دعویٰ کی دلیل کے طورپر پیش کرتا ہوں۔
سراپا عمل تھے وہ سارے کے سارے
پڑی جان جوکھوں میںہمت نہ ہارے
دیے ڈوبتوں کو انھوں نے سہارے
سفینے لگائے انھوں نے کنارے
یہی جی میں آتاہے جاؤںمیں وارے
الٰہی دکھا دے وہی جلوہ بارے
وہ ماتھے تھے سورج کے نعم البدل سے
بزرگی ہویدا تھی ان کے عمل سے
جبینیں تھیں صاف اور شفاف بل سے
معرّا علل سے مبرّا خلل سے
’دگر گوں جہاں اُن کے زورِ عمل سے
بڑے معرکے زندہ قوموں نے مارے‘
نہ تاروں کی تاثیر کے وہ تھے قائل
نہ افسوں پہ مائل نہ جادو کے عامل
حقیقت کے آگے یہ سب کچھ ہے باطل
عمل نے بتایا ہے ناقص کو کامل
’منجم کی تقویم فردا ہے باطل
گرے آسماں سے پرُانے ستارے‘
زلیخا کے سر میں نہ چشم نمیں ہے
نہ مجنوں کواب عشق محمل نشیں ہے
نہ باقی کسی دل میں صدق ویقیں ہے
توازن عناصر میں باقی نہیں ہے
’ ضمیرِ جہاں اس قدر آتشیں ہے
کہ دریا کی موجوں سے ٹوٹے ستارے‘
نہ مُلاّ کو کچھ رابطہ مسجدوں سے
نہ واعظ کو کچھ واسطہ مجلسوں سے
نہ صوفی کو ہے دل لگی محفلوں سے
نہ نجدی کو ناقوسں سے اور محملو ں سے
’ زمیں کو فراغت نہیں زلزلوں سے
نمایاں ہیں فطرت کے نازک اشارے‘
یہ چاند اورسورج جھلکتے ہیں کب تک
یہ سب ڈل میں آکر چمکتے ہیں کب تک
سرِشام اس میں اترتے ہیں کب تک
اٹامک کے شر سے لرزتے ہیں کب تک
’ ہمالہ کے چشمے اُبلتے ہیں کب تک
خضر سوچتا ہے وُلر کے کنارے‘
کامگار کشتواڑی کے کلام سے اور بھی ایسی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں جواقبال کے اثرات کی نشاندہی کرتی ہیں۔ اس سلسلے میں اُن کے ذیل کے اشعار ملاحظہ ہوں:
مغربیت کو لیا اورمشرقیت چھوڑ دی
خودفراموشی نے سکھلا دی ہے ہم کو خود سری
تیر تاریکی میں آسکتا ہے کیسے برہدف
روشنی میں باندھتا ہے سیٖدھ اک جری
٭
پھولنا ہے بے خودی، بے خود نہ بن
بے خودی تو موت ہے،بے خود نہ بن
پھولنے کی دیر ہے غنچہ تجھے
دامن ِ گل چین ہے تیرا کفن
حق نے سلجھایا سلیقے سے تجھے
خا رسے تیراالجھنا ہے کٹھن
اپنی خوشبو سے بسا اپنا چمن
اور خوش رنگی سے رنگ اپنا وطن
٭
جن کو اپنوں سے ہو رہتا افتراق
ان کا غیروں سے ہو کیسے اتفاق
احترامِ آدمیّت کیا کریں
آدمیّت ہے دھری بالائے طاق
ہیں مُقلّد جدّت و بدعات کے
پیروی اسلاف کی ہے ان کو شاق
٭
شرقیو تم سے نکلتا ہے سلیماں نور کا
لیک بھاتی ہے تمہیں افسوس مغرب کی پری
آتجھے دکھلاؤں ہر بستی میں چشمے علم کے
لیک ہے کمتر ہی ان میں جذبۂ دیں پروری
شاعرِ مشرق سے آدابِ جنوں تو سیکھ لو
پھر کہاں آئینۂ دیواری کہاں شیشہ گری
یہ عبادت یہ ریاضت کام آسکتی نہیں
موجزن جب تک نہ ہو دل میں تیرے عشق رسولؐ
غلام رسول کامگار کشتواڑی کو علامہ اقبال سے کس قدر والہانہ عقیدت تھی اس کااندازہ اُن کے اُس’ برزخی مشاعرہ‘ سے لگایا جاسکتا ہے جو انھوں نے ایک فیچر کی صورت میںلکھا ہے اور جس میں انھوں نے اقبال کے سالِ ولادت، سال وفات اوراقبال صدی تقریبات کے سنین کو مختلف شعر ا بشمول علامہ اقبال کے اشعار سے نکالاہے ۔ غلام رسول کامگار کے اس ’برزخی مشاعرہ‘ کے عنوان سے ایک فیچر میں انہوں نے علامہ اقبال کا سال پیدائش ۱۸۷۳ء اورصدی تقریباً۱۹۷۳ء لکھاہے لیکن دوسرے فیچر میں سال پیدائش ۱۸۷۷ء کو موضوع بنایاہے۔کامگار مرحوم کے ترتیب دیئے گئے یہ عالم خواب کے مشاعرے ان کی جودتِ طبع اوراقبال سے بے پناہ محبت اور عقیدت کا ایک بینّ ثبوت ہیں۔
���
جموں، موبائل نمبر؛9419194261