محمد طارق اطہر
اس بات سے ہم بالکل آشنا ہے کہ اس عالم میں بہت سے لوگ ہے جو اپنے نام سے ہی مشہور و معروف ہے اور وہ اپنے فن میں ہر ایک کام بہت خوبصورت اور بہترین انداز میں اپنا بجا لائے ہیں۔ انہیں فن کاروں میں ایک مشہور و معروف فن کار علامہ اقبال ہیں جو اردو نظم میں بہت بڑی شخصیت ہے۔ اور علامہ اقبال جن کو لوگ شاعر مشرق کے نام سے بھی جانتے ہیں۔ علامہ اقبال کی شاعری دیگر شاعروں سے مختلف ہوتی ہے ۔یہ اپنے شاعری کو فلاسفانہ انداز میں پیش کرتے تھے۔ جس سے سننے والوں کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے ۔
ابتدائی زندگی:۔
لامہ اقبال کی پیدائش 9 نومبر 1877 کو سیال کوٹ برطانوی ہندوستان میں ہوئی، انکے والد صاحب کا نام شیخ نور محمد تھا اور آپ کی والدہ کا نام امام بیوی تھا اور انکی والدہ بہت نیک اور صالحہ خاتون تھی۔ علامہ اقبال نے اپنی ابتدائی تعلیم سیالکوٹ میں کی۔ جہاں انہوں نے عربی ، اردو اور فارسی کی بنیادی تعلیم حاصل کی اور پھر آپ وہاں سے لاہور تشریف لے گئے اور پھرآپ نے لاہور کے گورنمنٹ کالج سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے ۔ مز ید تعلیم حاصل کرنے کے لئے بیرونِ ملک انگلینڈ اور جرمنی کا سفر کیا، جہاں آپ نے فلسفہ اور ادب میں مزید مہارت حاصل کی۔ پھر آپ 1905 میں مزید تعلیم کے لیے انگلستان چلے گئے اور کیمبرج یونورسٹی ٹرنٹی کالج میں داخلہ لیا۔ آپ نے کچھ سال بعد ہی بیرسٹری کے لئے داخلہ لیا اور آپ نے کچھ سال بعد ہی فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی۔
اقبال کی شاعری کا انداز : ۔
علامہ اقبال جو شاعر مشرق کے نام سے مشہور ہیں ،اردو شاعری میں ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں ،ساتھ ہی انہیں غزل کا امام بھی کہا جاتا ہے اور اس سے بھی بڑھ کرانہیں مفکر اسلام اور مصور پاکستان کے نام بھی جانا جاتا ہے۔ان کی شاعری نے صرف اردو ادب کو بلندیوں پر ہی نہیں پہنچایا بلکہ مسلمانوں کی بیداری اور خودی کا پیغام بھی دیا ۔ ان کا کردار خودی ، قومیت، ملکی محبت اور فلسفانہ انداز میں رہا اور آپ کی شاعری عین سے ہی مسلمانوں کے لئے مشعل راہ بنی رہی ہے۔ اور یہی وجہ ہے اقبال کا کلام دنیا کہ ہر ایک کونے کونے میں پھیلا ہوا ہے۔اقبال کی شاعری میں اسلامی نشاۃ ثانیہ کا بھی بہت بڑا پیغام ہے۔ ان کی شاعری میں مسلمانوں کے عروج و زوال پر گہرے تبصرے ملتے ہیں اور وہ مسلمانوں کو ایک نئی فکر دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو اپنی ماضی کی عظمت کو یاد کرایا جائے اور انہیں اپنے اندر نئی زندگی کی لہر پیدا کرنے کی ترغیب دی جائے۔ ان کے اشعار میں’’مسلمانوں کا خواب‘‘اور ’’قوموں کی زندگی‘‘کا تصور موجود ہے، جس میں ان کا زور اس بات پر تھا کہ مسلم دنیا کو اپنی روایات، فلسفہ، اور روحانیت سے جڑنا چاہیے۔اقبال کی شاعری کا ایک اہم پہلو ان کا تجزیاتی اور بیانیہ انداز ہے۔ وہ پیچیدہ موضوعات کو آسان اور مختصر انداز میں بیان کرنے میں ماہر تھے۔ ان کی اشعار میں سوالات اٹھائے جاتے ہیں اور مختلف نظریات پر گہرے خیالات پیش کئے جاتے ہیں، جو قاری کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔
علامہ اقبال کی شاعری میں منظر کشی: ۔
علامہ اقبا ل کی شاعری میں منظر کشی بھی ثابت ہوتی ہے اور انکی شاعریوں میں یہ احساس ہوتا ہے کہ جیسے شاعری پڑھتے وقت جس موضوع پر شاعری پڑھی جارہی، وہ منظر ہمارے آنکھوں کے سامنے واقع ہو رہاہوں اور ہم منظر میں شامل ہوں، علامہ اقبال کی شاعری میں منظر کشی بھی شاول ہوتی ہے اور انکی شاعری کے ہر دور میں مناظر فطرت کے جلوے کار فرما نظر اتے ہیں اور ہر دور میں تغزل نے حسن فطرت سے رنگینیاں چرائی ہے۔ مگر انکی شاعری کا پہلا دور دوسرے شاعری کے دور سے مالا مال ہے اور اقبال کی شاعری کے موضوعات اس گلدستہ کی مانند ہیں۔ جس میں انواع و اقسام کے پھول سچے ہوئے ہیں۔اقبال کی شاعری میں فطرت کے حسین مناظرات اور اس کی جمالیات کا بھی خاص ذکر ہے۔ وہ قدرت کی خوبصورتی کو ایک روحانی علامت کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان کی شاعری میں فطرت کو نہ صرف ایک مادی منظر کے طور پر بلکہ ایک گہری روحانی حقیقت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ ان کے اشعار میں قدرت کی طاقت اور اس کی اثر پذیری کا ذکر بار بار آتا ہے۔
علامہ اقبال کی شاعری میں تصوف اور روحانیت : ۔
اقبال کی شاعری میں کبھی کبھی صوفیانہ انداز میں بھی ملتی ہے ۔آپ کی صوفیانہ انداز کی کیا مثال دو گویا لگتا ہے کہ آپ اس شاعری کو اس قدر لکھتے ہیں کہ پڑھنے والے کے دل میں خلوص اور محبت الٰہی پیدا ہو جاتی ہے اور اسکے اوپر خوف الٰہی بڑھ جاتی ہے اور وہ ایک الگ ہی دنیا کے بارے میں تفکر میں مشغول ہو جاتا ہے اور اب کبھی کبھی شاعری میں لوگوں کو جہنم سے بچنے اور جنت کے طرف مائل ہونے کی بھی توجہ دلاتے ہیں۔ آپ کی جو شاعری ہوتی ہے، تمام شعراء کے انداز سے مختلف ہوئی تھی۔ اتنی بڑی اور نفیس باتیں اور نصیحت ایک شاعری میں پر لطف انداز میں کہہ دیتے تھے۔اقبال نے تصوف اور روحانیت کے موضوعات پر بھی گہری شاعری کی ہے۔ وہ انسان کو عالم بالا تک پہنچنے کی ترغیب دیتے ہیں اور اسے اپنی روحانیت کو بیدار کرنے کی اہمیت بتاتے ہیں۔ ان کے اشعار میں تصوف کی گہری روحانیت، عشق خدا، اور انسان کی روحانی بلندی کی تفسیر کی گئی ہے۔اور 21 اپریل 1938 کو لاہور، پنجاب، برطانوی ہندوستان (آج کے پاکستان) میں اقبال طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے اور بعض کہتے ہیں کہ جب وہ انتقال کر گئے تو وہ بلھے شاہ کی ایک کافی سن رہے تھے ۔اقبال کی شاعری کا جو ادبی انداز تھا ،وہ بہت ہی خوبصوت اور دل لبھانے والا انداز تھا اور آپ کے جیسا آج تک کوئی شاعر دیکھنے کو نہیں ملا اور آپ کے جو شاعری کے الفاظ ہوتے تھے، وہ کافی حد تک خوبصورت الفاظ ہوتے تھے اور آپ کی شاعری پڑھتے وقت لگتا گو یہ پھولکی لری مہ سے بہہ رہی ہوں۔
[email protected]>