علاقائی خودمختاری عوامی امنگوں کی عکاس

جموں//ریاست کے تینوں خطوں؛ جموں،کشمیراور لداخ کو علاقائی خود مختاری دئیے جانے کا مطالبہ کرتے ہوئے نیشنل کانفرنس نے اسے عوامی امنگوں کا عکاس بتایا ہے ۔ مرکزی وزیر داخلہ سے40منٹ تک جاری رہنے والی ملاقات کے دوران نیشنل کانفرنس کے 25رکنی وفد نے کہا کہ ’ہمارا پختہ یقین ہے کہ ریاست کو اٹانومی، تینوں خطوں کو علاقائی خود مختاری اور ذیلی خطوں میں لداخ ہل ڈیولپمنٹ کونسل کی طرز پر خود مختار انتظامی ڈھانچے تشکیل دے کر حقیر سیاسی مفادات کیلئے ریاست کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کرنے والے عناصر کے مذموم عزائم کو ناکام بنایا جا سکتا ہے‘‘۔ پارٹی کے صوبائی صدر دیویندر سنگھ رانا کی قیادت والے اس وفد نے وزیر داخلہ کو یقین دلایا کہ نیشنل کانفرنس ریاست میں امن کی بحالی کیلئے اٹھائے جانے والے ہر اس قدم کی حمایت کرے گی جس سے ریاست کے خصوصی درجہ اور تشخص کو کوئی خطرہ نہ ہو۔ انہوں نے دفعہ 35Aکے حوالہ سے وزیر داخلہ کی طرف سے دی گئی یقینی دہانی پر اطمینان ظاہر کرتے ہوئے توقع ظاہر کی مرکزعدالت عظمیٰ میں معاملہ کی پیروی کر کے اپنے خلوص کا اظہار کرے گا۔ دیویندر رانانے کہا کہ ’اٹارنی جنرل آف انڈیا کو مہاراجہ ہری سنگھ کی طرف سے 90برس قبل متعارف کروائے گئے اس دفعہ کے تحفظ کے لئے کہا جانا چاہئے ‘۔انہوں نے مزید کہا کہ وزیر داخلہ کی یقین دہانی ریاستی عوام کی اس تشویش کو کافی حد تک کم کرتی ہے جو مرکز اور ریاست میں بر سراقتدار جماعت اور کچھ دیگر افراد کی طرف سے دئیے جانے والے غیر ذمہ دارانہ بیانات کی وجہ سے جموں ، کشمیر اور لداخ کے عوام میں پائی جا رہی ہے ۔ رانا نے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف سے لال قلعہ کی فصیل سے دی گئی تقریر میں ریاستی عوام کو امید کی ایک کرن نظر آرہی ہے جس میں انہوں نے کہا کہ جموں کشمیر کی حساس ریاست کے معاملہ گولی اور گالی سے حل نہیں ہو سکتے، انہوں نے توقع ظاہر کی کہ ان الفاظ کو زمینی سطح پر بھی عملایا جائے گا۔این سی صوبائی صدرکاکہنا تھا کہ وزیر داخلہ کی طرف سے گزشتہ روز سرینگر میں پیش کردہ 5Cفارمولہ وزیر اعظم کی متذکرہ تقریر کی ہی ترجمان ہے، لیکن اب انتظار اس بات کا ہے کہ مفاہمتی عمل پر عملدرآمد شروع کیا جائے۔ کثرت میں وحدت کو بھارت اور جموں کشمیر کا بیش قیمت سرمایا قرار دیتے ہوئے اسے ہر قیمت پر بحال رکھے جانے کی ضرورت پر زور دیا اورکہا کہ بی جے پی پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ جموں کشمیر کے آئیڈیا کو زندہ و جاوید رکھے کیوں کہ آج کثرت میں وحدت کے اس تصور پر خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ جموں کشمیر کو فرقہ وارانہ اور جغرافیائی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی کوششوں پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے رانا نے کہا کہ اس کے بھیانک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ خطہ میں دائمی امن کے قیام کے لئے مرکزی حکومت کی طرف سے ڈوکلام تنازعہ کے حل کیلئے اپنائی گئی حکمت عملی کی ستائش کرتے ہوئے این سی لیڈر نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ تنازعات کے حل کے لئے بھی مذاکراتی عمل اختیار کیا جائے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ ممکن ہے بات چیت کی بحالی کے لئے یہ مناسب وقت نہ ہو کیوں کہ اس وقت سرحدیں کشیدہ ہیںلیکن ہندوستان اور پاکستان کے مابین بامعنی مذاکرات شروع کرنے کے لئے ماحول تیار کیا جانا چاہئے جس کا سب سے زیادہ فائدہ جموں کشمیر کے عوام کو ہوگاجومسلسل آر پار فائرنگ اور گولہ باری سے پیدا شدہ مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔سرحدی علاقوں کے مکینوں کے مسائل کا ذکر کرتے ہوئے رانانے بنکروں کی تعمیر، نوجوانوں کیلئے نیم فوجی دستوں کیلئے خصوصی بھرتی مہم چلائے جانے کی مانگ کی۔پاکستان سے آئے ہوئے رفیوجیوں کا مدعا اٹھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عمر عبداللہ سرکار کی جانب سے 9025کروڑ روپے کے پیکیج پر ترجیحی بنیادوں پر غور کیا جائے کیوں کہ حال ہی میں مرکز کی طرف سے اعلان شدہ2000کروڑ کا پیکیج ناکافی ہے ۔صوبائی صدر نے جموں خطہ کو درپیش دیگر مسائل کا ذکر کرتے ہوئے بھرتی عمل، بالخصوص ایس پی اوز کی تقرری میں شفافیت لائے جانے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ جموں کشمیر پولیس کی بھرتی میں مداخلت کے منفی نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ موجودہ حکومت پر بد نظمی اور انتظامی تعطل کا الزام لگاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سیاسی قیادت کی نااہلی کی وجہ سے ترقیاتی عمل ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے جس سے لوگوں کو گونا گوں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔روہنگیائی مہاجرین کے معاملہ میں رانا نے کہا کہ مرکز غیر ملکی ایکٹ اور اقوام متحدہ چارٹر کی روشنی میں کام کر سکتا ہے ۔