ایک نہایت ہی ذی عزت اور ریٹایرڈ لیکچرر محکمہ تعلیم میں کچھ پچاس سال پہلے اپنی تعیناتی کی کہانی بیان کرتا ہے۔یہ وہ زمانہ تھا جب سرکاری نوکری حاصل کرنا بڑی بات نہیںتھی۔ واقعہ یہ ہے کہ سرکاری نوکریاں خود تعلیم یافتہ امیدواروں کی تلاش میں ہوتی تھیںجو بہت کمیاب ہوا کرتے تھے۔ جبکہ آج پڑھے لکھے نوجوانوں کی کثیر تعداد سرکاری نوکریوں کے لیے تڑپ رہی ہے لیکن وہ دستیاب نہیں ہیں۔مذکورہ لیکچرر ،جو ایک ذہین جوان ہونے کے علاوہ تعلیمی لحاظ سے بی۔اے کی ڈگری رکھتا تھا،کو ایک دفعہ دو محکموں جموں وکشمیر بنک اور محکمہ تعلیم کی طرف سے ایک کلرک یااستاد کی حیثیت سے کام کرنے کیلئے دو حکمنا مے موصول ہوئے ۔دونوں محکموں میں اس نے درخواست دے رکھی تھی۔
بیک وقت دو مواقع ہاتھ آنے کے بعد اس نے بینک میں جانا پسند کیا جو کہ عرصے سے اس کا خواب تھا۔اپنی پسندیدہ نوکری کے پہلے ہی دن پر اسے ایک ایسے نا پسندیدہ واقعے سے دوچار ہونا پڑاجس نے اس کے پہلے دن کو آخری دن میں تبدیل کیا۔بنک کے منیجر نے عملے کے ایک ملازم کو گریبان پکڑکر باہر گھسیٹ لیا اور اس کی بے حد تذلیل کی ۔بے چارہ ملازم کائونٹر پر لوگوں کی خدمت کر رہا تھا اور اس کی خطا بس یہ تھی کہ ایک غضبناک گاہک کو خاموش اور مطمئن کرنے کی کوشش کر رہا تھا جو آپے سے باہر ہوکر عملے پر برس رہا تھا ۔ناراض شخص ایک کاروباری آدمی تھا اور اس کے جمع خرچے سے بینک کواچھا خاصا منافع حاصل ہو رہا تھا۔سہمے نوجوان (مذکورہ لیکچرر) کی ڈیوٹی کا اگلا دن ایک نزدیکی سکول میں تھا جہاں پر تعلیمی محکمے کے آفیسر ((TEOنے کلاس روم میں داخلے کیلئے اس کی اجازت طلب کی اور اس کی تعلیمی قابلیت کو پیار سے سراہا۔استاد (شخص مذکورہ)حاکم کے اس عزت بھرے رویے سے بہت متاثر ہوا اور اس پیشے کی اخلاقی برتری کو محسوس کرنے لگا۔یہی موقعہ تھا جب اس نے ہمیشہ کیلئے بحیثیت استاد ہی کام کرنے کی ٹھان لی اور اپنی محبوب بینک کی نوکری کو خیرباد کہا۔
یہ تھا وہ مقصد جو آج سے کئی دہائیاں پہلے تعلیم کا ہوا کرتا تھا اور جس کو رخصت ہوئے کوئی زیادہ عرصہ نہیں گزرا ۔ادب ،دانش اور بے انتہا عزت و احترام تعلیم کی ذیلی پیدوار میں سے نہیں تھا بلکہ اس کا خاصہّ اور نچوڑ تھا۔استاد اور شاگرد وقار و دانش کے پیامبر ہوا کرتے تھے۔وہ ایک دوسرے سے بے انتہا محبت ،شفقت اور ہمدردی سے جڑے ہوتے تھے ۔استاد ایک محسن ،رہبر اور بچوں کی زندگی کو سنوار نے والا ایک دلسوز انسان ہوا کرتا تھا۔جبکہ شاگرد تعظیم و تکریم اور تابعداری کا مجسمہ ہوتا تھا ۔استاد اور طالب علم، دونوں عزت کی نگاہوں سے دیکھے جاتے تھے اور سماج میں ان کا رتبہ تمام لوگوں سے بلند ہوتا تھا ۔سکول،کالج اوریونیورسٹیاں عبادت گاہوں کی طرح ہوتی تھیں۔یہ تعلیمی ادارے روح کو پاک کرنے اور جسم کو تعلیم و تربیت کے ذیور سے آراستہ کرنے کے مقامات ہوتے تھے ۔سکولوں سے فارغ طلبہ منجھے اور سلجھے ہوئے سپوت ہوتے تھے ، کالجوں سے نکلے گریجویٹ تہذیب و شائستگی کے سفیر اوریونیورسٹی سے فارغ التحصیل طلبہ تو علما ء کے جانشین ہوتے تھے اور زندگی کے ہر میدان میں مستند اور غیر متنازعہ راہنما تسلیم کیے جاتے تھے۔وہ رجحان ساز(trend setters)ہوتے تھے اور ہر جگہ ان کی تقلید کی جاتی تھی ۔ وہ جہاں بھی جاتے علم و دانش کے موتی بکھیرتے تھے ۔ ان کی چال ان کی ڈھال اور ان کی ہر ایک اد ا دیکھنے والوں کوبھاتی اور لبھاتی تھی ۔ نہ صرف والدین بلکہ علاقے بھر کے لوگ ان سے منسوب ہونے پر اور ان کی خدمات و رہنمائی حاصل کرنے پر فخر کرتے تھے ۔اصل میں وہی سنہری دن تھے جب تعلیم اپنے بنیادی مقاصد کوپورا کرتی تھی ۔ نظم و ضبط، اخلاق اور ذہنی بالیدگی تعلیم کی علامت تھی ۔
برعکس اس کے آج کے تعلیمی ادارے ایسی جگہیں دکھائی دے رہے ہیں جہاں پر لوگ ، طلبہ اور اساتذہ ایسے ادا کار لگتے ہیں جو اپنا کردار نبھا نہیں پا رہے ہیں ۔ یہ ادارے ان فیکٹریوں کی طرح ہیں جہاں پر اندراج کیے گیے انسانی مواد سے ایسی پیداوار تیار کی جاتی ہے جو تہذیب سے عاری ، اخلاق سے خالی اور ہر ہنر سے محروم ہے ۔ایسی نسل برآمد کی جاتی ہے جو طینت و جبلت میں وحشی درندے ہیں ،نہ ہی استاد اپنے پیشے کی عظمت سے باخبر ہے اور نہ ہی بچوں سے متوقع ہے کہ ان سے اچھے عادات ، نظم و ضبط اور تحمل کا مظاہرہ ہو۔بڑی بڑی سکولی عمارتیں، عالی شان کالج اور پناہ دار یونیورسٹیاں طلبہ کی بھاری بھیڑ سے بھری ہیں مگر اس بھیڑ کے لوگ سفاک طبیعت ، گندے عادات ، پست ذہنیت ، بے اعتمادی ، برے خصائل اور متلون مزاجی جیسے صفات رزیلہ لے کر لوٹ آتے ہیں۔
حیرت ہو تی ہے کہ آیا یہ ادارے سچ میں طلبہ کے اندر علمی قابلیت اور ذہنی استعداد بڑھاتے یا پیدا کرتے ہیں یا نہیں ،لیکن نتائج بالکل برعکس ہیں ۔ہم صرف نا اہل آفیسر، جعلساز بیوروکریٹ ، مکاّر اور میکاولی سیاست دان ، بے ایمان تجّار ، نفس پرست انجینئر اور خون چوسنے والے ڈاکٹر پاتے ہیں ۔کوئی ایسی ذہین اور عبقری شخصیت جو نیوٹن ،آینسٹاین یا شیکسپیر کی طرح علم و ادب اور ساینس کی دنیا میں کوئی نیا باب پیدا کر کے عظیم کارنامہ انجام دے سکے ،ہمیں حاصل نہیں ہو رہی ہے۔اعلیٰــ تعلیمی ڈھانچے اور سمارٹ کلاس روم پر کوئی اعتراض نہیں ،حسرت یہ ہے کہ جو مطلوب ہے وہ پھر بھی حاصل نہیں ہو رہا ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ تعلیم یافتہ نو جوان آج نہ معاشرے اور نہ والدین کیلئے ہی مفیدثابت ہو تے ہیں بلکہ الٹا لوگوں کے کندھوں پر بوجھ بنے ہوتے ہیں۔پریشانی یہ نہیں کہ وہ بے روز گار ہیں بلکہ یہ کہ وہ اخلاقی طور دیوالیے ، دیکھنے میں چھچھورے ، صبر و شوق سے عاری اور اپنا کچھ کرنے کیلے بالکل نا کارہ اور ہر ہنر سے محروم ہیں ۔ یہ اسلئے کہ وہ ایسے ماحول میں پڑھا ئے اور بڑھائے جا تے ہیں جہاں پر وہ اخلاقی طور مغلوب اور ذہنی طور مفلوج کیے جاتے ہیں۔وہ مارے، ڈرائے اور دھمکائے جاتے ہیں اور جہاں پر وہ یہ ساری چیزیںمن و عن استادوں پر دہراتے رہتے ہیں ۔بسیار منصوبے سرکاری سیکٹر میں تعلیمی نظام کو بہتر اور بحال کرنے کیلئے بنائے گئے ۔جدید سے جدید طریقے سرکاری اور نجی سیکٹر میں آزمائے جارہے ہیں لیکن اب تک کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد ہوا اور نہ ہی کوئی کوشش رنگ لائی۔
تعلیم اور سوسائٹی آپس میں جڑی اور ایک دوسرے پر منحصر ہوتی ہیں ۔دونوں ایک دوسرے پر انتہائی حد تک اثر انداز ہوتی ہیں ۔اگر تعلیم معاشرے کیلئے علم و حکمت کے دروازے واہ کرتی ہے اور سو سائٹی کو اپنے چہیتے اصولوں کے مطابق ڈھالنا چاہتی ہے۔ بدلے میں سوسائٹی بھی تعلیم سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ سماج کے عقائد و نظریات کے مطابق انسانی نسل کو تیار و فراہم کرے اور چاہتی ہے کہ تعلیم سوسائٹی کے اجتماعی ضمیر اور سماجی اقدار کو منعکس کرے ۔ان کو تحفظ و تقویت فرا ہم کرے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ کیا تعلیم کی ہی پوری مرمت کی جائے کہ وہ سوسائٹی کی بھرپور خدمت کرے یا یہ کہ وہ اپنے اصول و معیار کے تحت سوسائٹی کی تشکیل نو کرے ۔لیکن سوال یہ ہے کہ دونوں میں کون زیادہ حقیقی ، زیادہ صحیح اور آفاقی ہے۔
بات یہ ہے کہ اجنبی چیزیں گود لینے اور پیوند کرنے سے تعلیمی نظام میں انقلاب بپا نہیں کیا جاسکتا اور کوئی اخلاقی یا علمی پھل حاصل نہیں کیا جاسکتا۔انقلاب چھو ٹی تبدیلیوں اور حقیر اصلاحات کا نام نہیں ہے ۔یہ تو مکمل تبدیلی کا نام ہے ۔
اس سلسلے میں وقت کی اہم ضرورت ہے کہ زندگی کا ایک ایسا نظریہ اختیار کیا جائے جو آفاقی ہو اور پوری زندگی پر محیط اور بسیط ہو۔جو ایک کائناتی حقیقتuniversal truth ہو۔سادہ اور غیر مبہم ہو اور پھر اسی کے تحت پورے تعلیمی لائحہ عمل کو تمام متعلقات سمیت جانچا اور پرکھا جائے ۔نظریۂ حقیقی کو جب اس کے تمام مقتضیات سے مانا اور اختیار کیا جائے تو وہ خود بخود زندگی کے اصولیات اور تعلیم کے اصولوں کو وضع کرے گا۔کیونکہ اصل میں نظریہ ٔ حیات ہی تعلیمی اہداف اور لائحہ عمل کو منتخب و مرّتب کرتا ہے ۔
ابھی تک جو کچھ بھی عملایا جا رہا ہے، وہ یہ ہے کہ چند نمونے اور طریقے مغرب سے مستعار لیے جاتے ہیں اوریہاںکے نظام میں یہ سوچے بغیرنصب(fit) کیے جا رہے ہیں کہ یہ چیزیں تو ایک اجنبی (alien)سسٹم اور نظریے کے اجزاء ہیں جو زندگی ، دنیا اور مافیہا کو مختلف انداز اور زاویے سے دیکھتا ہے۔مغرب کی پیڈاگوجی (pedagogy) فطرت میں سیکولر ہے جب کہ مشرقی مزاج مذہبی ہے ۔لہٰذا تعلیمی اجزاء مغرب سے ادھار لے کے یہاںپر کامیابی سے ضم نہیں ہو پارہے ہیں ۔نتیجے کے طو ر پر تعلیم کا شفاف اور سادہ مزاج مجروح ہو جاتا ہے اور پھرتعلیم مذہبی اور غیر مذہبی کرداروں کے ذریعے خطرناک تقسیم کی شکار ہو جاتی ہے ۔ ایک طرف سے مدارس اور مذہبی ادارے جنونی ملاؤں کی کھیپ تیار کرتے ہیں جو عملی دنیا اور سائنس سے بالکل نابلد اور نا واقف ہوتی ہے اور دوسری طرف سکول اور کالج ایک ایسے نیم حکیم طبقے کو برآمد کرتے ہیں جوپیٹ کا پجاری اور مغرب کی ظاہری چمک دمک سے مرعوب و مرہون ہوتا ہے۔ یہ تو بہرحال ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہماری سوسائٹی تب تک ذہنی و جسمانی کرب میں مبتلا رہے گی جب تک تعلیمی نظام اپنی اصل پٹری سے دور اور پرے رہے گا۔
رابطہ۔مٹی پورہ ،اننت ناگ
ای میل۔[email protected]