ڈاکٹر سید آصف عمری
عصرحاضر کو اگرہم خوردبین اور دوربین نگاہوں سے دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہر شخص بس فکر معاش میں سرگرداں نظر آتا ہے گویا زندگی کا مقصد اور نصب العین یہی ہے۔ ہرجمعہ میں سورۃ الاعلیٰ کی آیات سے یہ سبق ملتا ہے کہ ہمارا مطمح نظر فکر آخرت ہو اورہماری خوشنودی کا باعث رب العالمین کی ذات ہو۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم دنیا پر فریفتہ اور قربان ہیں۔ بل توثرون الحیوۃ الدنیا والآخرۃ خیر و ابقی آخرت بہتر اور باقی ہے یہ جملہ ہر شحص کی سمجھ میں آجائے تو سب سے بہتر اور باقی رہنے والی یعنی آخرت کے لئے کوشش ہوگی۔ دنیا عقلمندوں، باشعور مسلمانوں کے لئے نہ بہتر ہے اور نہ ہمیشہ رہنے والی ہے۔ سب کچھ فانی ہے اور فانی چیزوں کے پیچھے صرف بے وقوف اور بے دین لوگ پڑتے ہیں۔کاش ہم مرور ایام سےسبق لیتے۔ یہاں کا ہر لمحہ تیزی کے ساتھ تباہی وبربادی کی طرف گزر تا جارہاہے۔ ہرقدم فناہورہا ہے اور ہرجدید قدیم ہوتا جارہاہے۔ آج کا بچہ کل کا جوان اور کل کا جوان آج بوڑھا بن گیاہے۔کب لوگوں کو ہوش آئے گا اور کب لوگ خواب غفلت سے بیدار ہوں گے جبکہ ہر صبح ہمیں ایک نئی زندگی اور ہر شام ایک موت سے سابقہ پڑرہا ہے۔ زندگی اور موت کی اس کشمکش میں ہمیں آخرت کا امتحان دینا ہے۔ شعوری و غیر شعوری طور پر ہم اپنا ورق حیات سیاہ کررہے ہیں اور اپنا کارنامہ حیات چاہے جو بھی ہو ہمیں کل (آخرت میں) دیکھنا ہے ۔اسی دن کی تیاری کے لئے ہمیں خبردار کیاگیا۔ دنیا کی رنگینیوں ،زیب وزینت، آرائش و زیبائش اور اس کی کشش کیسی ہے ہمیں آگاہ کردیا گیا اورآخرت کی جزا و سزا انعام وعتاب جنت وجہنم سب کچھ بتائی گئی۔ دراصل ہم میںسے اکثر اپنی موت سے بے خبر ہیں۔ جب ہمارے بدن سے روح نکل جائے گی تب ہم کچھ نہیں کرپائیں گے۔
عصرحاضر کا منظر نامہ ہمیں مختلف حیثیتوں سے دکھائی دیتا ہے۔ انفرادی واجتماعی زندگی کو قریب سے دیکھنے پر بے شمار خرابیاں اور برائیاں نظر آئے گی جیسے ہر فرد معاشرہ زرپرستی، شہرت طلبی، خودپسندی، خود غرضی، مفاد پرستی، اَنا پرستی، سرپرستی، زن پرستی، تن پرستی، عیش پرستی کے غرور اور نشہ میں ڈوبا ہوا ہے۔ کس کے پاس کتناخلوص ہے یہ ہم نہ دیکھ سکتے ہیں نہ کسی کے خلوص پر شہادت دے سکتے ہیں یہ تو صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے ،لیکن طرززندگی سے لوگوں اور جماعتوں کا مقصد اور عزائم کا پتہ چل جاتاہے۔ ہماری زندگیوں سے عبادتیں رخصت ہوگئیں۔ عبادتیں ہیں تو اس کی روح نکل چکی ہے۔ گویا بے جان لاشیں ہیں اوربے روح عبادتیں ہیں۔ہرانسان ننانوےکے چکر میں گھوم رہا ہے صبح شام پیسہ پیسہ کی تسبیح ہے۔ دینداری اور روحانیت صرف منبر و محراب، تقریر وتحریر اور خوشنمائی کی زینت بن گئی ہے۔مادہ پرستی اتنی عروج پر ہے کہ آدمی جتنا مالدار ہوتا جارہا ہے اس سے سخاوت و انفاق ختم ہورہی ہے اوروہ اپنے ہاتھوں کو اللہ کی راہ میں مصیبت زدہ کی مدد کرنے میں بڑا بخیل بن گیا ہے۔ ہاں جہاں اس کی دولت سے شہرت ملتی ہے وہاں خرچ کرتا ہے۔ فضولیات ،اسراف اور بے جا و بے مقصد کاموںاور بیکار چیزوں کے خریدنے میں بے دریغ خرچ کرتا ہے۔ آج روپیہ پیسہ ،گھرجائیداد،بینک بیلنس اوربہت کچھ ہے مگرخیرکے کاموں میں دینے کے لئے کچھ نہیں ہے۔ حرص ولالچ اتنی زیادہ ہے کہ بس ہونے کا نام نہیں۔ رسول اکرم ؐ نے فرمایا،اگر آدم کی اولاد کو اُحد پہاڑ برابر سونا دے دیا جائے تو اس پر وہ بس نہیں کرے گا بلکہ وہ تیسرے کی تلاش میں نکلے گا اور اس کی حرص ختم نہیں ہوگی۔یہاں تک کہ وہ قبر کی مٹی میں جاپہنچے گا۔ معاشرہ میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اپنی جھوٹی شان دکھانے کی خاطر قرض اور سود لے کر بڑا دعوت ولیمہ کرتے ہیں اور شادی بیاہ میں بڑے بڑے قیمتی شادی خانے بک کرتے ہیں، ان کو ڈر ہے کہ اگر معیاری شادی نہیں کریں گے تو لوگ کیا کہیں گے؟لوگوں کا ڈر ہے اللہ کا ڈر نہیں ہے۔ اقربا ،رشتہ داروں پر سرسر ی نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہاں بھی بھید بھاؤ ہے جو جھوٹی تعریفیں کرتاہے وہ نورنظر ہے اور جو سچ بولےوہ نظروں میں چبھتاہے۔چاپلوسی کو پسند کیاجاتاہے سچ ہمیشہ کڑوا ہی ہے اس لئے ہر کوئی کڑوا سچ پسند نہیں کرتا ۔ہر شخص کو بس اپنی ہی فکر ہے میں اور میرا گھر،نہ والدین اور نہ ہی بھائی بہنیں۔دن بہ دن حلال وحرام کی تمیز بھی ختم ہوتی جارہی ہے۔ نہ کمانے میں نہ کھانے میں اور نہ دعوتوں کو قبول کرنے میں یہی وجہ ہے کہ دعائیں قبول نہیں ہوپارہی ہیں۔
سوشل میڈیا کواگرحقیقت کے آئینہ میں دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں بھی ہرایک کو Shineاور Fineہونے کا بھوت سوارہے۔ کیا بچے کیا بوڑھے ،کیا لڑکے اور لڑکیاں سب کے نزدیک سیل فون، آئی فون نورنظر لخت جگر اورجان من بن گیاہے۔ سوشل میڈیا سے ہر جھوٹ سچ بن گیا اور ہر بُرائی فیشن بن گئی۔ یہ ایک ضرورت تھی مگر سب کے لئے ضروری بن گیا۔ والدین بچپن سے ہی بچوں کو الیکٹرانک میڈیا کا بادشاہ بنارہے ہیں۔ رات دیر گئے تک نوجوان لڑکے اورلڑکیوں کے ہاتھوں میں گردش کرتا دکھائی دے گا۔گھنٹوں تک واٹس ایپ او ر فیس بک پر چیٹنگ ہورہی ہے جس کے نتیجہ میں دل ودماغ متاثر ،آنکھوں کی بینائی متاثر، جاگنے کی وجہ سے جسم ناتواں اور کمزور اور سب سے زیادہ خطرناک اس کا وہ پہلو ہے کہ جس کی وجہ سے کوئی کسی کو ایک نظر دیکھ کر اپنی پوری نظریں بس فون پر جمادیتا ہے۔ بچے گیموں میں، جوان کھیلوں میں اور بوڑھے مرد اورخواتین مختلف سیریلیں اوربے ہودہ بداخلاق، حیا سوز پروگراموں میں مصروف ہیں۔ ٹچ فون کی وجہ سے رشتے ختم ہوتے جارہے ہیں۔ سب کو عزیزوں سے بڑھ کر سل فون عزیز ہے۔ گھر گھر یہ دجالی فتنہ کی وجہ سے نفسا نفسی کا عالم ہے، وجہ یہی ہے کہ دلوں سے خوف خدا نکل گیا، آنکھوں سے شرم وحیا رخصت ہوگئی،جسموں سے لباس اترگیا یا برائے نام رہ گیا۔ فیشن اورمیک اَپ کے اتنے دیوانے ہوگئے کہ ہر گھر بیوٹی پارلر بن گیا ہے۔ بازار وں اورمارکیٹ میں جھوٹ ،فریب، دھوکہ، جعلسازی، ملاوٹ کا بازار گرم ہے۔ زیادہ مال کمانے کی حرص میں جسم وجان کو ہلاکت کرنے والی چیزیں فروخت کی جارہی ہیں۔نوجوان فلم اسٹاروں کے نقش قدم پر چل کر دین کو خیرباد کہہ رہے ہیں۔ وضع قطع ،چال چلن میں ہیرو اور ہیروئن کا نمونہ اپنارہے ہیں۔ لوگ اپنی محفلوں اور ملاقاتوں میں ایک دوسرے کی عیب جوئی اوربرائیوں کا جائزہ لیتے رہتے ہیں خصوصاً گھروں میں عورتوں کی زیادہ تر گفتگو یہی ہوتی ہے ۔ عام طورپر لوگوں کے اندر بے کار بے مقصدباتوں پر بحث وتکرارہوتی ہے۔ بیجا تنقیدیں ،بے ہود مذاق، جھوٹ، بہتان، تہمت، راز فاش کرنا اور فتوے جھاڑنا عام بات ہوگئی ہے۔ حقیقت میں لوگوں نے اپنی زندگی کی حقیقت اور قیمت کو کھودیاہے۔سُستی، لاپرواہی، غفلت ان کا شیوہ بن گیا اورایسے لوگوں کو شیطان نے اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ برائیوں کو خوب اچھا بناکر دکھانا شیطان کا کام ہے، دلوں میںوسوسہ اوربُرے خیالات،شک و شبہ پیداکرتا ہے۔ اللہ کے ذکر،عبادت نماز قرآن سے دور کرتاہے۔شادی کو وبال بنا دیا گیا ہے،سنت صرف مسجد میں نکاح کرنا اور رقعوں پر النکاح من سنتی حدیث لکھوانا باقی رہ گیا۔ سارے کام خاندانی رسومات کی نذرہوگئے۔ سب سے پہلے تو لڑکیوں کے انتخاب کےموقع پر لڑکے والوں پر خوبصورتی اوردولت کا بھوت سوار ہے اوریہی ترجیح اول ہے باقی سب چیزیں خانہ پُری ہے۔ والدین اپنے لڑکے اورلڑکی کو شادی اور نکاح کا مقصدنہیں بتاتے اور حقوق زوحین نہیں سمجھاتے۔ (جاری)
رابطہ۔9885650216