عشق رسولﷺ اور ہم

رافیعہ مُحی الدّین

دنیا کی مختلف قوموں کی روایات میں عشق و محبت کی مختلف کہانیاں ملتی ہیں۔ جن میں کسی خیالی ہیروئین کے ساتھ ساتھ کسی تخیلائی ہیرو کی بے پناہ محبت کی داستان سنائی جاتی ہے ۔ لیکن مسلمانوں کی تاریخ میں خدا کے آخری رسول حضرت محمدؐسے مسلمانوں نے جس طرح عشق کا باب رقم کیا وہ تاریخ انسانیت کا حسین ترین باب ہے۔
خدا پرستی کے نور میں نہائی ہوئی یہ شخصیت روح و دل کے ان اندھیروں کو بھی دکھائی دیتی ہے جن کو ان کا خدا نظر نہیں آتا۔ پتھروں کے بے حس پجاری بھی اس دلکش کردار پر نظر ڈالتے ہیں تو فرط عقیدت سے سر دھننے لگتے ہیں اور کامل چالیس سال تک اس کو ’ امین و صادق ‘ کہتے کہتے ان کی زبانیں سوکھنے لگتی ہے ۔ اور جب خدائے عزو جل اس انسان کامل کو رسالت کے خلعت فاخرہ سے مشرف فرما دیتا ہے تو روشن ضمیر روحوں کے قافلے آگے بڑھتے ہیں اور ’ہم تجھ پر نثار ‘ ، ’ ہمارے ماں باپ آپ پر قربان‘ کے والہانہ نعروں سے حرم کی فضا گونج اٹھتی ہے ۔ یہ نعرے کھوکھلے الفاظ نہ تھے بلکہ دلوں کی دھڑکنیں تھیں۔ یہ سپردگی اور جان نثاری کے نعرے تھے۔
خدا کاری اور جان نثاری کے یہ مناظر دولت مندوں اور اہل ثروت لوگوں کو مسحور کر دیتے ہیں اور اپنی مادی سر بلندیوں کو پیچھے چھوڈتے ہوئے نبی ؐکے قدموں پر آگرتے ہیں ۔ آپ ؐکی ایک نگاہ کرم کی بھیگ حاصل کرنے کے لیے لوگوں نے راہ مولی میں گھر بار لٹادئے ۔ کفر و اسلام کے درمیان حق اور باطل کا خط امتیاز کھینچنے کے لیے شہہ رگوں کا لہو نچوڑ دیا گیا۔ اولاد اپنے ماں باپ سے کٹ کر نکل گئیں۔ دولت کے نہایت خزانوں کو خالی کرکے لوگوں نے اس بات میں عظیم مسرت محسوس کی کہ آپ ؐ کے در کے بھکاری کہلائے جائیں ۔ اپنے کاروبار ، عزیز و اقارب ، دوست و احباب اور تمام تر دلچسپیوں کی ’ جنت ‘ کو ٹھکرا کر ان محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دیوانوں نے خانہ ویرانی اور خانہ بدوشی کے خار زاروں کو لبیک کہا۔ دہشت و صحرا کی خاک چھانی اور دیس دیس کی ٹھوکریں کھائیں ۔یہ سب کچھ اس لئے کہ محمدؐکی حسین نگاہ نے ان کے سینوں میں حق و صداقت کی جو چنگاری روشن کردی تھی وہ بجھنے نہ پائے۔ پھر یہ سب کچھ لٹادینے کے بعد امتحان عشق کی وہ آخری گھائی آئی جہاں خود اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو قربان کردینے کا سوال پیدا ہوتا ہے ۔ تو ان عاشقوں نے آب دار خنجروں پر گردنیں رکھ دیں ۔ اپنے خون میں نہا نہا کر وہ یہی کہتے رہے۔
اے خدا کے رسول ؐ ، ہم تجھ پر نثار ، ہمارے ماں باپ تجھ پر قربان ،
ستر ستر زخموں کا تاریخی اسکور بنانے کے بعد بھی شہادت حق کا خون چکا کھیل کھیلنے والے اپنے ذوق جانبازی میں کمی نہ پاتے تھے ۔ اگر کسی نے ترچھے تیوروں سے محمد ؐ کی طرف آنکھ اٹھائی تو وہ فولادی دالوں کے پیچھے بھی محفوظ نہ رہ سکا۔
عشق کی انتہا دیکھئے اگر کسی نے نبی ؐ کے خلاف ہتھیار اٹھائے تو جان دینے والوں نے جسمانی گوشت کی دیواریں کھڑی کردیں۔ کفر کی طرف سے تیروں کی بارش ہورہی تھی ۔ تو ادھر عقیدت کے متوالے برہنہ سینہ کھولے ہوئے سامنے آتے تھے ۔ ادھر سے مرگ و ہلاکت کی آندھیاں اٹھتی تھیں تو ادھر سے حق و صداقت کے نعشے میں وجد کرتے ہوئے سر ابھر تے تھے۔
مایوس نگاہوں سے کب تک ، یہ منظر عبرت دیکھیں ہم
اک دیر نیا تعمیر ہوا ۔ اک ٹوٹ گئی دیوار حرم
کتنا طاقتور ، کتنا جلال آمیز، کتنا مستحکم تھا یہ ’عشق رسول ‘ کہ زمانے بھر کی نفرت بھری طاقتیں مل کر بھی اس کو زیر نہ کر سکیں۔ آخر یہ عشق ہی قاتح رہا۔ محمدؐکی سچائی کا حسن و جمال جزیرہ نمائے عرب پر چھاتا چلا گیا ۔ ماحول کا نقشہ بدل گیا ۔ انسانیت کی کایا پلٹ گئی۔
کیا دنیا میں کبھی کسی انسان نے اتنا پیار کیا ؟ نہیں: یقینانہیں ۔ یہ تاریخ کا عدیم النظیر واقع ہے ۔ جو اس دنیا میں صرف ایک بار پیش آیا ، صرف ایک بار ۔ لیکن اسکے ساتھ ہی ایک دوسرا سوال پیدا ہوتا ہے ۔ ایک اہم سوال آج سے ۱۴ سو سال پہلے دنیا نے حضرت محمد ؐکی شکل میں جس حق و صداقت کو چشم سر دیکھا تھا ۔ ان کو آج کا انسان کہاں اور کسطرح دیکھے؟
تاریخ ایک واقع کی یاد دلاسکتی ہے ۔ ایک احساس ، ایک تصویر ہی دے سکتی ہے مشاہدہ نہیں ـ!!!
دنیا کو وہ ماضی کی تصویر دکھانے والے ہم تھے ۔ کیونکہ ہمیں مسلمان ہونے کا دعوی ٰ ہے ۔ ہمیں چاہیے تھا کہ آئینہ بنے اور دنیا کو ماضی کی تصویر دکھا دیتے ۔ لیکن ہمیں اپنی بگڑی ہوئی شکل بھی نظر نہیں آتی ۔ کیا دنیا اس آئینہ میں رسالت محمدیؐ ہر کسی زندہ گواہی کو آنکھوں سے دیکھ سکتی ہے ؟ یہ ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے۔
جن پاک سروں کی عظمت سے اعزاز ملا سرداری کو
اک لذت فانی کی خاطر وہ سر ہے در اغیار پہ خم
جو مال و متاع دنیا کو تحصیر سے دیکھا کرتے تھے
ان شیر دلوں کی اولادیں ہیں عاشق حسن دام و درم
رابطہ۔برنٹی اننت ناگ، کشمیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔