کووڈ انیس کے معاملات کیا بڑھنے لگے کہ شفاخانے عام مریضوں کیلئے پھر سے بند ہونے لگے ۔جموں سے لیکر کشمیر تک سبھی بڑے ہسپتالوں کے اوپی ڈی شعبے بند کر دئے گئے ہیں جبکہ معمول کے داخلے بھی بند کئے جاچکے ہیں اوراب صرف ایمر جنسی سروس ہی چل رہی ہے ۔جموںاور سرینگر میں قائم دونوں میڈیکل کالجوں سے منسلک ہسپتالوں کے علاوہ شیر کشمیر انسٹی چیوٹ آف میڈیکل سائنسزصورہ اور سکمز میڈیکل کالج ہسپتال بمنہ میں بھی اوپی ڈی خدمات بند کردی گئی ہیں اور اب دکھانے کیلئے آن لائن سہولت کا شوشہ چھوڑا جارہا ہے ۔ہم نے جموں اور سرینگر کے میڈیکل کالجوں سے منسلک بڑے ہسپتالوں میں اور اضلاع میں قائم میڈیکل کالجوںسے جڑے ہسپتالوں میں اوپی ڈی خدمات بند کرنے کے نتیجہ میں حفظان صحت پر پڑنے والے مضر اثرات پرپہلے بھی تفصیل سے بات کی تھی اور مثالیں دیکر یہ واضح کیا تھا کہ کورونا کے خلاف لڑتے لڑتے ہم عام مریضوںکو مرنے کیلئے چھوڑ رہے ہیں کیونکہ انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں تھالیکن لگتا ہے کہ ارباب اختیار نے گزشتہ برس کے تلخ تجربات سے کوئی سبق نہیں سیکھا ہے ۔اس بات سے قطعی انکار کی گنجائش نہیںکہ جموں اور سرینگر کے دارالحکومتی شہروں میں قائم میڈیکل کالجوں سے منسلک ہسپتالوں پر دونوں صوبوں کے مریضوںکا بوجھ ہوتا ہے اور مختلف امراض کے ماہر معالجین سے طبی جانچ کرانے کیلئے لوگ ا ن ہسپتالوںکا رخ کرتے ہیں لیکن جب سے کورونا کی دوسری لہر آئی،پہلا کام یہ کیاگیاتھا کہ ان ہسپتالوںمیں اوپی ڈی خدمات بندکردی گئیں ۔اس کے بعد واحد امید انکے نجی کلینک رہے تھے لیکن اب انہیں بھی بند کرکے ایک عجیب قسم کی صورتحال پیدا کی گئی جہاں مریضوںکو ماہر معالجین ہی دستیاب نہیں ہیں ۔گوکہ بڑے زور و شور کے ساتھ حکومتی سطح پر اور دونوں صوبوں میں قائم ڈاکٹروں کی مختلف انجمنوںنے ماہر ڈاکٹروںکے نمبرات مشتہر کرکے لوگوں کو ہسپتالوں سے دور رہنے کا مشورہ دیکر امید دلائی کہ یہ ڈاکٹر صاحبان فون پر ان کیلئے ہمہ وقت دستیاب رہیں گے لیکن سب کو پتہ ہے کہ پھر ان میںسے بیشتر ڈاکٹر صاحبان فون اٹھانے کی زحمت گوارا نہیں کرتے ہیںاور اگر فون اٹھے بھی تو کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملے ۔ملے بھی کیسے ،یہ کوئی سودا تھا جو فون پر کیاجاسکتا ہے۔ڈاکٹر جب تک مریض کی حالت خود نہ دیکھے ،وہ کیسے فون پر اس کا علاج کرسکتا ہے ۔بہر کیف ہمارا مقصد قطعی تنقید کرنا نہیںہے ۔ہم نے تب بھی وسیع تر عوامی مفاد میں یہ مسئلہ اجاگر کیاتھااورآج بھی عوام کے وسیع تر مفاد میں ہی اس مسئلہ کو ایک بار پھر اجاگر اس نیت کے ساتھ کررہے ہیں کہ ہسپتالوں کو مریضوں کیلئے بند کرنے میں کوئی دانشمندی نہیں لی ہے ۔بلا شبہ اس وقت کورونا مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے لیکن یہاں لاکھوں ایسے مریض پہلے ہی سے موجود ہیں لیکن ہمہ وقت طبی نگہداشت کی ضرورت رہتی ہے اور اگر انہیں بروقت طبی نگہداشت نہیں ملی تو وہ بے موت مر جائیں گے اور اس پر ستم یہ ہوگا کہ ایسی اموات کو گنا بھی نہیں جائے گا کیونکہ آج کل حکومت صرف کووڈ اموات کو گننے میں لگی ہوئی ہے۔جس طر ح یہ کہاگیا ہے کہ مریضوںکا داخلہ اور جراحیاں فی الحال بند رہیں گی تو اس پربھی سر نو غور کرنے کی ضرورت ہے۔بے شک ایمر جنسی جراحیاں چل رہی ہیں لیکن معمول کی جراحیاں بھی کافی اہم ہیں اور ہم مریضوں کو مہینوںتک جراحیوں کے لئے انتظار کروانے کے متحمل نہیں ہوسکتے ہیں کیونکہ اس دوران ان میں مزید طبی پیچیدگیاں پیدا ہونے کا احتمال ہے بلکہ ان کے نتیجہ میں اموات کوبھی خارج ازامکان قرار نہیںدیاجاسکتا ہے ۔اس لئے وقت کا تقاضاہے کہ اوپی ڈی سہولیا ت بند کرنے کے فیصلہ پر نظر ثانی کی جائے او ر ان خدمات کو دوبارہ بحال کیاجائے تاکہ مریضوں کے بے پناہ مسائل میں قدرے کمی آسکے ۔اس کے ساتھ ساتھ جموں اور سرینگر ،دونوں جگہوںپر بڑے ہسپتالوںمیں معمول کے داخلے اور جراحیاں بھی جاری رکھنی چاہئیں کیونکہ مزید تاخیر کے شاید ہم متحمل نہیں ہوسکتے ہیں۔اب جبکہ اس بات پر تقریباً اجماع ہوچکا ہے کہ کورونا وائرس فوری جانے والا ہے اور اس میں ابھی بھی بہت وقت لگنے والا ہے تو ہم مریضوںکو اتنی دیر تک طبی سہولیات سے محروم نہیں رکھ سکتے۔امید کی جاسکتی ہے کہ فوری طور پر طبی سہولیات کی مکمل بحالی کا انتظام کیاجائے گا تاکہ ہر مریض کو کم ازکم وہ طبی توجہ مل سکے جس کا وہ مستحق ہے۔