آج عالمی سطح پر یوم سرطان منایاجارہا ہے جس کا مقصد کینسر جیسے موزی مرض سے متعلق بیداری پیدا کرنا ہے تاکہ اس بیماری کے پھیلائو کو کم سے کم کیاجاسکے۔جموں وکشمیر میں اس مناسبت سے تقاریب کا انعقاد کیاجارہا ہے جن میں کینسر کے مرض پر بات ہوگی اور بچائو اقدامات پر غور ہوگا ۔یہ دن ہم ایک ایسے وقت منارہے ہیں جب کشمیر میں سرطان کا مرض تیزی سے پھیلتا جارہا ہے ۔اس مرض نے کشمیر کو کس قدر اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ،اس کا اندازہ اس بات لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ سات برسوں میں یہاں کینسر کے49,804نئے کیس سامنے آئے ہیں۔انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ کے تحت آبادی پر مبنی کینسر رجسٹری شیر کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز صورہ میں قائم کی گئی ہے، اورسرطا ن کی مختلف اقسام پر مکمل اور حقیقی وقت کا ڈیٹا فراہم کرتی ہے۔اس کے اعداد و شمار کے مطابق 2018سے کشمیر میں کینسر کے کیسوںمیں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔جہاں 2018میں 6649کیسوں کا پتہ چلاوہیں 2019میں خرابی ٔ حالات کی وجہ سے رپورٹ شدہ کینسر کیسوں کی تعداد کچھ کم ہوکر6374تک گر گئی۔اگلے سال یعنی2020میں چونکہ کووڈ وبائی مرض عروج پر تھا تو مزید کم لوگ کینسر مرض کے ساتھ ہسپتالوں کو پہنچے اور یہ تعداد6113تک گر گئی .تاہم 2021میں یہ تعداد دوبارہ بڑھنا شروع ہوئی اور اُس سال 7090کینسرکیسوں کا پتہ چلا۔اضافے کا رجحان جاری رہا اور2022میںمزید 7486کیس رپورٹ ہوئے جبکہ 2023میں 8622 کیس رپورٹ ہوئے۔2024میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا۔ستمبر 2024تک 7110 کیسوں کا کا پتہ چلاتھا جبکہ ستمبر کے بعد سے اعدادوشمار مرتب کرنا باقی تھا۔رجحان کی بنیاد پر، ماہانہ اوسطاً 790کیسوں کے ساتھ سال کے آخر تک کیسوں کی کل تعداد تقریباً 9400 تک رہی ہوگی۔سکمز صورہ خطے میں کینسر کا پتہ لگانے کا بنیادی مرکز ہے۔2024میں 31دسمبر تک سکمز میں 5400سے کچھ زیادہ کیسوں کا پتہ چلا جو 2023میں 5108کیسوں سے کہیں زیادہ ہے۔کشمیر میں جس طرح کینسر کے معاملات میں اضافہ ہورہا ہے ،اُس نے یقینی طور پر ذی حس طبقہ کی نیندیں اچٹ دی ہیں اور اس کے تدارک کی سبیلیںنکالنے کیلئے لوگ سر جوڑ کر بیٹھ گئے ہیں۔ظاہر ہے کہ کسی بھی بیماری کا اُس وقت تک علاج ممکن نہیں ہے جب تک نہ اس کی وجوہات کا پتہ لگ جائے ۔جہاں تک کشمیر کاتعلق ہے تو یہاںکینسر کے معاملات میں اس قدر اضافہ کی وجوہات عیاں ہیں ۔ ترقی اور مالی خوشحالی کی وجہ سے کشمیر میں نوجوان نسل سگریٹ نوشی، منشیات اورڈبہ بند خوراک کی عادی ہورہی ہے جسکی وجہ سے کینسر بیماری نے نوجوان نسل کو اپنا نشانہ بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ہے۔2022کے ا عدادوشمار کے مطابق سرینگر شہر میں کینسر بیماری نے سب سے زیاد لوگوں کو اپنا نشانہ بنالیا ہے اور گزشتہ 5سال کی طرح ہی سال رفتہ میں بھی سرینگر شہر کے لوگ کینسر بیماری میں سرفہرست ہیں جسکی بڑی وجہ رہن سہن میں تبدیلی اور بڑھتی ہوئی سگریٹ نوشی کو قرار دیا جارہا ہے۔جموں و کشمیر میں سگریٹ نوشی، نشیلی ادویات کا بڑھتا استعمال، ملاوٹی کھانا اورلوگوں کی اقتصادیات میں بہتری کی وجہ سے کینسر بیماری کافی تیزی سے پھیل رہی ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ پہلے ہم لوگ جینے کیلئے کھاتے تھے مگر اب ہم کھانے کیلئے جی رہے ہیں۔ڈبہ بند یا تَلے ہوئے خوراک کی وجہ سے لوگ کینسر بیماری کا شکار ہورہے ہیں کیونکہ بند لفافوں میں آنے والی خوراک کو بچانے کیلئے کیمیائی ادویات کا استعمال کرتے ہیںجو موجودہ دور میں وادی میں کینسر کے پھیلائو کی بڑی وجہ بن رہا ہے۔اس مرض، اس کی وجوہات، بروقت پتہ لگانے اور علاج اور احتیاطی تدابیر کے حوالے سے عوام میں بڑے پیمانے پر آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔کینسر دنیا بھر میں موت کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ یہاں بھی اس سے زیادہ سنجیدگی سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق بروقت سکریننگ اور نگرانی سے کینسر کے کیسوں کی نشاندہی میں بھی زبردست اضافہ ہوا ہے۔تشخیصی ٹیسٹوں کی آسان دستیابی اور کینسر سے متعلق آگاہی نے کینسر کے مریضوں کے لئے صحیح طریقے سے تشخیص کرنے کی راہ ہموار کی ہے۔ ماضی میں بعض اوقات صحیح تشخیص نہ ہونے کی وجہ سے کینسر کے مریض مر جاتے تھے اور موت کی وجہ معلوم نہیں رہتی تھی۔ عام طور پر جب زندگی کے دیگر تمام مسائل حل ہو جاتے ہیں تو پھر صحت سے متعلق مسائل کی باری آتی ہے۔ اس وقت تک زیادہ تر دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ اس رجحان کو ختم ہونا چاہئے۔ صحت انتہائی اہم ہے۔ صحت پر سب کو توجہ دینی چاہئے ۔ جب آپ میں ایسی علامات ہیں جو صحت کے کسی سنگین مسئلہ کی جانب اشارہ کرتی ہوں تو آپ کوفوری طور اپنا علاج کرانا چاہئے ۔ کینسر کی ابتدائی علامات کو طویل عرصے تک نظر انداز کرنا بعد میں مزید سنگین مسائل کا باعث بنتا ہے۔ہمیںآرام طلب طرز زندگی اور کھانے کی عادات جو کینسر کا خطرہ بڑھاتی ہیں،کو ترک کرنا ہوگا۔ حکومت کو بھی عمل کرنا چا ہئے اور کھانے کی اشیاء میں ملاوٹ کا خاتمہ یقینی بنانا چاہئے جو کینسر کا باعث بنتے ہیں۔کینسر کی جلد تشخیص اور علاج کیلئے ہسپتالوں میں انفراسٹرکچر کو مزید مضبوط کیا جانا چاہئے اور اس ضمن میں دو کینسر ہسپتالوں کو مکمل طور پر جدید سہولیات سے لیس کرکے فعا ل بناناچاہئے۔ کینسر سے متاثرہ مریضوں کو خاندانی اور معاشرتی سطح پر مالی، جذباتی اور نفسیاتی سمیت ہر قسم کی مدد ملنی چاہئے تاکہ وہ بیماری سے لڑ سکیں اور فاتح بن سکیں۔