۱۸؍نومبر ۲۰۱۸ء بروز اتوار تبلیغی جماعت کے امیر عارف باللہ حضر ت الحاج عبد الوہاب صاحب اپنے وطن پاکستان میںرب کریم کے جوارِ رحمت میں چلے گئے۔ مرحوم پاکستان کی تبلیغی جماعت کے امیر تھے ۔آپ کا اصل نام راؤ محمد عبد الوہاب تھا۔ ۱۹۲۲ء کو آپ کی پیدائش دہلی میں ہوئی، جب کہ آپ کا آبائی علاقہ سہارنپور اُترپردیش ہے۔ آپ راجپورت راؤ قبیلے کے چشم وچراغ تھے، تقسیم ہند کے بعد آپ کا خاندان ہجرت کرکے لاہور چلا گیا تھا۔آپ نے اسلامیہ کالج لاہور سے گریجویشن کے بعد تحصیلدار کے طور پر کام کیا ۔حضرت والانوجوانی میں مجلس احرار سے بھی منسلک رہے اور حضرت مولانا محمد الیاس صاحب کاندھلوی علیہ الرحمہ کے زمانہ سے ہی تبلیغی جماعت سے منسلک تھے ۔آپ جنوری ۱۹۴۴ء میں دلی میں تبلیغی مرکز نظام الدین تشریف لائے اور یہاں تبلیغی جماعت کے امیر حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلوی کی صحبت میں چھ ماہ رہے ۔آپ نے اپنی نوکری کو دین کا کام کر نے کے لیے چھوڑدیاتاکہ اپنا زیادہ سے زیادہ وقت دین کی سربلندی کے لیے دے سکیں۔ یوں آپ نے تبلیغ واشاعت دین کے لیے اپنی پوری زندگی وقف کی ۔ آپ مرحوم حضرت مولانا الیاس کاندھلوی ،مولانا یوسف اور مولانا انعام الحسن کاندھلوی علیہم الرحمہ کے ساتھیوں میں سے تھے ۔محمد شفیع قریشی تبلیغی جماعت کے پہلے باقاعدہ امیر تھے، اُن کی وفات کے بعد حاجی محمد بشیر صاحب دوسرے امیر منتخب ہوئے۔ ۱۹۹۲ء میں ان کا وصال ہوگیا تواُن کے بعد حاجی عبد الوہاب تیسرے امیر مقرر ہوئے اور تبلیغی جماعت کے عالمی مرکز رائے ونڈ میں ہی مقیم رہے ، جہاں آپ شوریٰ کے امیر کے حیثیت سے تھے ۔ آپ تحریک تبلیغ کے عالمی مرکز حضرت نظام الدین اولیا ء ؒ دلی کے بھی ممبر تھے۔ اب سر زمین پاکستان پر سے دنیا بھر میںتبلیغی فیوض وبرکات تقسیم کرنے والی اس عظیم ہستی کی روح دنیائے بے مایہ کوچھوڑ کر عالم ِبالا کوچ کر گئی ہے۔ انا اللہ وانا الیہ راجعون۔
حاجی عبد الوہاب صاحب مرحوم مرکز نظام الدین سے روحانیت کی عظیم دولت لے کر اُٹھے تھے، اُسے اطراف واکناف عالم میں نہایت ہی ایمان ، اخلاص اور دل سوزی کے ساتھ بندگان ِ خد کی اصلاح وتزکیہ کے لئے اسے لٹاتے رہے ۔عجیب اندازہوتا ہے خاصان ِ خدا کا بھی کہ نام نمود ،جاہ وشہرت ، ناموری کی طلب جیسی لایعنی باتوں سے یکسر لاتعلق ہوکرصرف اپنے رب سے لولگائے بیٹھتے ہیں اور قوم وملت کی اصلاح وخدمت میں ہمہ تن مصروف رہتے ہیں۔ان کی طبیعت میں انکسار وتواضع کا یہ عالم ہوتا ہے کہ سب کچھ یا بہت کچھ ہوتے ہوئے بھی گویا کچھ بھی نہ ہوں۔ اسی شانِ بے نیازی کے ساتھ بزرگ ہستی حضرت الحاج عبد الوہاب صاحب علیہ الرحمہ تبلیغ ِ حق میں فعال و متحرک رہی ۔ عالمی پیمانے پر مرحوم کی مقبولیت کا حال یہ تھا کہ ۲۰۱۴ء کے عالمی سروے کے مطابق آپ کا نام دنیا کی ۵۰۰؍ بااثر شخصیات میں دسویں نمبر پر قرارپایا ۔حضرت والا نے ساری زندگی اشاعت اسلام میں گزاردی ، اکثر وقت ذکر واذکار میں گزرتا، تادم ِ واپسیں خلق ِخدا کو راہ ہدایت پر لانے میں منہمک رہے۔ آپ کے وعظ وتبلیغ نے لوگوں کی زندگیاں ایسی بدل دیں کہ وہ ہمہ وقت تبلیغ دین کے لئے تڑپتے رہتے ۔ عوام کی دین سے دوری پر آپ خاص طور شب وروز فکر مندر ہتے ، تمام مکتبہ ہائے فکر میں آپ کو یکساں طور عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ۔معروف مذہبی اسکالر حضرت مولانا طارق مسعود صاحب زیدمجدہ کے مطابق کہ ایک بار حاجی عبد الوہاب صاحب کے پاس پاکستان کے ایک سابق وزیر اعظم آگئے ،بذات خود بہت بڑی رقم مرحوم کو پیش کردی کہ یہ آپ کے لیے ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ ہمیں رقم نہیں بلکہ تبدیلی ٔزندگی چاہئے، آپ کا وقت چاہئے اور یہ کہہ کر رقم واپس کردی ۔ وزیر اعظم نے بہت اصرار کیا کہ اسے لیں وہ نہ مانیں تو کہا حضرت اتنی بڑی رقم آپ کو کوئی بھی نہیں دے گا جتنی بڑی رقم میں آپ کو دے رہا ہوں ۔ حاجی صاحب مرحوم نے جواباً فرمایا کہ اتنی بڑی رقم کو ٹھکرانے والا بھی آپ کو کہیں نہیں ملے گا۔ حضرت والا کے استغنیٰ پر علامہ تھانویؒ کا ایک واقعہ یادآیا۔ حکیم الامت علامہ اشرف علی تھانویؒ کی خدمت میں کسی مریدنے خطیر رقم پیش کی ۔ حکیم الامت نے واپس لوٹا دی۔ اس پر مرید نے کہا کہ حضرت ایسا مرید نہیں ملے گا ، علامہ نے جواباً فرمایا کہ ایسا پیر بھی نہیں ملے گا۔ اللہ اکبر کیا استغنی تھا ہمارے اسلاف کا ع
خدارحمت کندایں عاشقان پاک طینت را
حاجی عبد الوہاب صاحبؒ کی عبادت گزاری کا عالم یہ تھا کہ ۹۶؍ سال کی عمر میں بھی رمضان المبارک کے مکمل روزے رکھے، قرآن پاک کی تلاوت کی اور سورہ اخلاص کا ورد ایک ہزار مرتبہ روزانہ مرحوم کا معمول رہتا ۔حاجی عبد الوہاب صاحب ؒکے وصال ابدی سے عالم اسلام ایک عظیم داعی اور دینی رہبر سے محروم ہوگیا کہ آج باغ ِعلم ومعرفت اور گلستان ِدعوت وتبلیغ سُونا سُونا لگ رہا ہے۔ افسوس! کہ حاجی صاحب جیسے عظیم انسانوں کا اُمت کی صفوں میں سے یکے بعد دیگرے اُٹھ جانا یقینا ہمارے واسطے نقصان کا باعث ہے۔ امام بخاری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ اچھے اچھے لوگ دنیا سے اُٹھ جائیں گے کہ لوگ ایسے رہ جائیں گے کہ ان کی حیثیت خدا کے ہاں چھلکے کے برابر بھی نہیں ہوگی۔ آج وہی وقت دیکھا جارہا ہے ۔
حق تعالیٰ کا بہر حال اَٹل قانون ہے کہ اس دارِفانی میں جو بھی آیا، اُسے اپنے مقررہ وقت پر یہاں سے کوچ کرنا ہی ہے لیکن کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جن کے چلے جانے سے جو خلا پیدا ہوجاتا ہے، اس کا پُرہونا مشکل ہو جاتا ہے ۔ حاجی عبدالوہاب صاحب علیہ الرحمہ کا شمار بھی انہیں خاص الخاص بندگان خدا میں ہوتا ہے۔ حضرت کروڑوں انسانوں کو نورِہدایت سے منور کرنے والے مبلغ اسلام ،داعی دین اور خدادوست انسان تھے،اس لئے اُن کی وفات متلاشیان ِ حق کے لئے ایک ناقابل تلافی نقصان ہے ۔ حضرت والا نے آخری وصیت میں یہ لافانی نصیحتیں فرمائی ہیں کہ مجھ سے تعلق و محبت رکھنے والے اپنی سوچ وفکر اور استعداد وصلاحیت کو دین کی اس محنت کی سرسبزی اور شادابی کے لیے صرف کریں۔ حق تعالیٰ شانہ آپ کو اپنا تعلق اور اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت نصیب فرمائے،کماحقہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عالی دین کی محنت میں لگنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین۔ مرحوم کوجمعیت علمائے اسلام کی حمایت کی پاداش میں اپنوں کی طرف سے مصائب وتکالیف بھی پیش آئیں لیکن حضرت استقامت کے کوہِ گراں ثابت ہوئے ، دعوتِ حق کی آزمائشوں کو خوب جانتے تھے، اس لیے راہ ِ حق میں کسی بھی مصیبت کو خاطر میں نہ لاتے تھے۔ حضرت الحاج کی نماز جنازہ اور تدفین میں تقریبا۱۳؍لاکھ لوگوں نے اشک بار آنکھوں سے حصہ لیا ع
آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے
دعا ہے کہ مولانا صاحب مرحوم کی تبلیغی کوششوںا ۱وراصلاحی محنتوں کو قبول فرمائے ، اُن کی لغزشوں خطاؤں سے درگزر کرے ،ان کے درجات بلند فرمائے ، اُن کی رحلت سے جو جانکاہ صدمہ امت کو پہنچا ہے، حق تعالیٰ اس پر انہیں صبر عطا فرمائے اور نعم البدل بھی عطا فرمائے آمین ثم آمین۔
رابطہ نمبر : 9682327107/9596664228
E-mail.- [email protected]