پچھلے ہفتے کے اختتام پر قطر کے دارلخلافہ دوحہ میں افغانستان کے بارے میں چھ روزہ مذاکرات کے بعد کچھ حد تک مثبت نتائج منظر عام پہ آئے لیکن اس صورت حال سے یہ اخذکرنا کہ سفارتی شطرنج پر آخری بازی یا آخری کھیلend game) (ہے، شاید مبالغہ آرائی ہوگی۔ جہاں تک کچھ حد تک مثبت نتائج اور اشارات کا دعویٰ کیا جا سکتا ہے، وہی یہ بھی صحیح ہے بہت سارے ایسے معاملات ہیں جن کو لے کے بازی اٹکی ہوئی نظر آتی ہے۔امریکہ کے افغان مذاکرات کے سلسلے میں رابطہ کار زلمے خلیل زادہ نے چھ روزہ مذاکرات کے اختتام پہ اپنے ٹویٹ میں جو بات کہی اُسے شاید ایک حقیقی تبصرہ ماننا ہو گا۔ خلیل زادہ جو خود بھی افغانی النسل امر یکی شہری ہیں، کا یہ کہنا تھا: ’’ہمارے پاس کافی ایسے مسائل ہیں جن پر ابھی کام کرنا ہے ۔جب تک سب معاملات پہ سمجھوتہ نہیں ہوتا اور ہر معاملے پہ سمجھوتے میں انٹرا افغان ڈائیلاگ اور ہمہ گیر جنگ بندی شامل نہ ہو تب تک اِسے سمجھوتہ نہیں مانا جا سکتا‘‘ ۔حفظ ماتقدم کے ساتھ ساتھ اُن کا لہجہ کچھ حد تک پُر امید بھی نظر آیا ۔وہ یہ کہتے بھی نظر آئے : ’’یہاں جو بھی میٹنگیں ہوئیں وہ پہلے کے مقابلے میں نتیجہ خیز ثابت ہوئیں۔ہمیں اہم معاملات میں کافی پیش رفت ہوئی‘‘ ۔پیش ر فت کاحصول صرف زلمے خلیل زاد کا دعویٰ ہی نہیں بلکہ سفارتی اور میڈیائی حلقے بھی اُن کے دعوے کی تصدیق کرتے نظر آ رہے ہیں ،البتہ ایک ہمہ گیر معاہدے تک پہنچنے میں ابھی کافی مشکلات حائل ہیں ۔
زلمے خلیل زاد کے بیاں میں یہ عیاں ہے کہ انٹرا افغان ڈائیلاگ و ہمہ گیر جنگ بندی ایک حتّمی سمجھوتے کی راہ میں رکاوٹیں ہیں ۔انٹرا افغان ڈائیلاگ یعنی افغانستان کے داخلی گروہوں کے درمیان مذاکراتی عمل طالبان کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے جبکہ امریکہ کا اصرار یہ ہے کہ مذاکراتی عمل افغانستان میں مسائل کے تصفیے کیلئے ضروری ہے۔امریکہ ایک ہمہ گیر جنگ بندی بھی چاہتا ہے جبکہ طالبان کے رہبر تب تک جنگ بندی پہ رضامند نظر نہیں آتے جب تک کہ خارجی فورسز کا انخلا ء افغانستان سے عملی نہیں ہوتا۔ یہ صحیح ہے کہ امریکہ فورسز کے انخلاء پہ رضامند ہے بشرطیکہ طالبان اِس بات کی ضمانت دے کہ افغان سر زمین پہ ایسی ملی ٹنٹ تنظیموں کو ٹکنے نہیں دیا جائے گا جو عالمی امن و امریکی مفادات کیلئے خطرہ بن سکیں۔ طالبان فی الحال نہ ہی انٹرا افغان ڈائیلاگ کے لئے راضی ہے نہ ہی جنگ بندی کے لئے آمادہ ہے۔ طالبان کا یہ نظریہ ہے کہ پہلی خارجی فورسز کا انخلاء ہو بعد میں افغانی گروہ آپسی معاملات خود طے کریں گے۔ اِس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ طالبان فوجی محاز پہ حاوی ہیں اور مذاکراتی میز پر وہ ہارنا نہیں چاہتا جو وہ محاز جنگ پہ جیت چکا ہے۔طالبان کا خیال یہ ہے کہ اپنی فوجی بالا دستی سے اُس مقام تک پہنچ چکے ہیں جہاں وہ اپنی بات منوا سکے ۔ یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ طالبان کو فوجی بالادستی حاصل ہے لیکن جہاں افغانستان کی 50 فیصدی سے کچھ زیادہ اراضی پہ طالبان قابض ہیں وہاں یہ بھی حق ہے کہ مد مقابل کئی گروہ ایسے ہیں جو طالبان سے موافق نہیں ۔کہا جا سکتا ہے کہ طالبان کی فوجی بالا دستی ہمہ گیر سیاسی بالا دستی پہ منتج نہیں ہوتی ۔طالبان البتہ اپنے سیاسی مخالفوں کو خارجی طاقتوں کے آلہ کار مانتے ہیں اور اشرف غنی کی سر براہی میں افغان حکومت کو بھی امریکی آلہ کار مانتے ہیں۔
افغانستان کی داخلی گروہ بندی کو دیکھا جائے تو افغان طالبان نمایاں ترین عنصر نظر آتا ہے لیکن جہاں طالبان پختونوں کا سب سے بڑا اور موثر ترین گروہ ہے وہی پختونوں کے کئی اور گروہ ہیں جو طالبان کی سیاسی و فوجی روش سے ہم آہنگ نہیں ۔ پختونوں کے دیگر گروہوں میں حکمت یار کی جماعت کا نام لیا جا سکتا ہے جو ماضی میں پختونوں کا موثر ترین گروہ تھا۔ حکمت یار نے ماضی قریب میں امریکہ سے آشتی کے ساتھ ساتھ اشرف غنی کی سربراہی میں افغان حکومت کے ساتھ بھی سمجھوتہ کر لیا ہے اور انتخابی سیاست کے ہمنوا بھی بن گئے ہیں جس سے طالبان کو شدید اختلاف ہے۔ طالبان افغانستان میں موثر ترین فوجی گروہ ہوتے ہوئے بھی افغان کی منجملہ صورت حال پہ حاوی نہیں چونکہ پختونوں کو صد در صد طالبان کا حامی مانا بھی جائے تب بھی یہ حقیقت اپنی جگہ قائم ہے کہ افغانستان کی مجموعی آبادی 31ملیون میں پختون منجملہ نصف سے بھی کم ہیں۔پختونوں کے علاوہ افغانستان میں تاجک،ازبک ،ترکمان و ہزارہ بھی بستے ہیں جو طالبان سے ہم آہنگ نہیں۔طالبان اگر چہ 50 فیصد سے کچھ بیشتر افغان اراضی پہ قابض ہیں اور اِس قدر فوجی دم رکھتے ہیں کہ اور اراضی بھی اپنے بس میں کر لیں لیکن ہمہ گیر تسلط کے آڑے جہاں شمال میںشمالی فوجی گروہ آسکتے ہیں وہی مغرب میں ہزارہ قبائل بھی آ سکتے ہیں۔ اِس کے علاوہ حالیہ برسوں میں داعش (ISIS) بھی کئی مقامات پہ اپنی فوجی اڈے قائم کر چکا ہے۔ اِن سب حقائق کے باوجود طالبان کا یہی ماننا ہے کہ خارجی افواج کے انخلا کے بات وہ داخلی مخالف گروہوں کو زیر کر کے ماضی کی مانند سارے افغانستان پہ چھا سکتے ہیں ۔ ماضی میں 1990ء کے دَہے کے وسطی سالوں میں طالبان نے یہ عملی کرکے افغانستان پہ اپنی حکومت قائم کرلی۔یہ حکومت 2001ء میں 9/11کے سانحہ کے بعد امریکی عتاب کا شکار ہوئی۔
طالبان اپنے بعد ہر آنے والی حکومت کو امریکی تسلط میں پلنے والی حکومتیں مانتے ہیں جبکہ اِن حکومتوں کا دعوہ یہ رہا ہے کہ وہ انتخابی عمل کی پیدوار ہیں ۔خارجی تسلط میں ہونے والے انتخابات کی طالبان کی نظر میں کوئی قدر و قیمت نہیں ۔آج کل بھی اشرف غنی کی سرکار ایک نئے انتخابی عمل کی بات کر رہی ہے اور یہ انتخابی عمل طالبان کیلئے بے معنی ہے۔یہاں بھی طالبان کا یہی اصرار ہے کہ خارجی افواج کی سر پرستی میں کوئی بھی سیاسی عمل بھلے ہی وہ انتخابی عمل ہی کیوں نہ ہو اُن کیلئے قابل قبول نہیں ۔ اِس سیاسی محاز آرائی میں امریکہ ایک درمیانی راستہ نکالنے کے در پے ہے اور وہ یہ کہ ایک عبوری حکومت قائم کی جائے جس میں طالبان بھی حصہ دار ہولیکن یہ بھی طالبان کیلئے قابل قبول نہیں چونکہ امریکی سر پرستی میں پلنے والے سیاستدانوں کو طالبان گھاس ڈالنے کیلئے تیار نہیں۔ دیکھا جائے تو سیاسی شطرنج پہ امریکہ کی پوزیشن کافی ضعیف نظر آتی ہے چونکہ یہ عیاں ہے کہ امریکہ جلد سے جلد افغانستان سے اپنا بوریا بستر گول کرنا چاہتا ہے۔ طالبان گرچہ فرار کی راہ فراہم کرنے کیلئے راضی ہے لیکن یہ انخلا امریکی شرائط پہ ہو یہ طالبان ماننے کیلئے تیار نہیں جبکہ میدان جنگ کی بازی کاملاََ اُن کے ہاتھوں میں ہے۔ امریکہ شرائط رکھنے کے ساتھ ساتھ تقریباََ ہر روز جلد سے جلد فوجی انخلا کی بات بھی کر رہا ہے بنابریں طالبان پہ بظاہر ایسا کوئی دباؤ نہیں کہ وہ امریکی شرائط سے زیر ہو سکے۔ امریکہ کو افغانستان میں آئے ہوئے 17سال ہو گئے اور اگر وہ مکمل انخلا کے لئے کچھ اور وقت لینا چاہتا ہے تو یہ وقت دینے میں طالبان کو کوئی باق نہیں البتہ طالبان جلدی میں جیتی ہوئی بازی ہارنا نہیں چاہتے۔ امریکہ نے کراراََ فوجی انخلا کی بات کر کے اپنے پتے ظاہر کر دئے ہیں جبکہ طالبان ہاتھ سمیٹے گھات میں بیٹھے ہوئے ہیں۔
قطر کے دارلخلافہ دوحہ میں چھ روزہ مذاکرات کے بعد طالبان کے مطبوعاتی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنا نکتہ نظر واضح کیا۔اُنہوں نے یہ کہا کہ ـ’’کچھ مطبوعاتی حلقوں میں اِس خبر کی تشہیر کہ جنگ بندی اور کابل انتظامیہ سے بات چیت کرنے پہ اتفاق ہوا ہے بالکل غلط ہے‘‘ ۔ اِس کے بجائے مطبوعاتی ترجمان کا اصرار خارجی فورسز کے انخلا پہ رہا ۔ اُ ن کا یہ کہنا بھی رہاکہ’’ایجنڈا کے مطابق مذاکرات کا یہ دور خارجی ٹروپس (افواج) کے انخلا پہ متمرکز رہا اور دوسرے اہم امور پہ پیشرفت ہوئی‘‘۔ ذبیح اللہ مجاہد نے دوسرے امور پر روشنی نہیں ڈالی بلکہ صرف یہ کہنے پہ اکتفا کیا کہ یہ حساس معاملات ہیں جن پہ ایک مفصل مذاکراتی عمل کی ضرورت ہے۔طالبان کے بیاں میں کہا گیا کہ ’’چونکہ یہ معاملات حساس ہیں اور تفصیلی مذاکرات کے طالب لہذا فیصلہ یہ ہوا کہ جو معاملات طے نہیں ہوئے ہیں اُن کا مستقبل میں ایسی ہی میٹنگوں میں جائزہ لیا جائے گا تاکہ ایک موضوں اور موثر حل کی تلاش کی جا سکے اور یہ بھی کہ میٹنگوں کی تفصیلات کا تبادلہ ہو سکے ثانیاََ اپنی اپنی لیڈرشپ سے ہدایات حاصل کی جا سکیںـ‘‘۔ طالبان کے تفصیلی بیاں سے یہ عیاں ہے کہ طالبان کا اصرار خارجی افواج کے انخلا پر رہا ہے جو کہ گر چہ ایک طے شدہ موضوع ہے لیکن ابھی تک انخلا کس صورت میں ہو گا اُس کی تفصیلات منظر عام پہ نہیں آئی ہیں لہذا دیگر موضوعات حل طلب ہیں اور طرفین اپنی اپنی لیڈرشپ سے مشاورت کیلئے روانہ ہوگئے ہیں ۔اگلی ملاقات کب اور کہاں ہو گی اِس بارے میں ابھی کوئی اطلاع منظر عام پہ نہیں آئی ہے۔
زلمے خلیل زادہ کو کئی مسائل کا سامنا ہے۔ اُنہیںاہم معاملات میں جو پیشرفت نظر آئی اُس کو لے کے اشرف غنی کی سر براہی میں افغان سرکار کی حمایت کے حصول کے علاوہ دوسرے سٹیک ہولڈرس کی حمایت بھی حاصل کرنی ہو گی۔ دوحہ کے مذاکراتی دور کے بعد زلمے خلیل زاد کابل گئے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ انتہائی دباؤ کے باوجود ابھی تک طالبان نے اشرف غنی سرکار کے ساتھ ایک ہی مذاکراتی میز پہ بیٹھنے سے انکار کیا ہے حالانکہ جہاں یہ امریکہ کا اصرار تھا وہی سعودی عربیہ، امارات متحدہ العربیہ اور پاکستان بھی یہی چاہتے تھے کہ کابل کی رژیم بھی مذاکرات میں شامل رہے لیکن طالبان کے تیکھے تیور دیکھ کے انجام کار یہ اصرار ختم ہوا ۔ سعودی عربیہ، امارات متحدہ العربیہ اور پاکستان تین ایسے ممالک ہیں جنہوں نے 1990کے دَہے میں طالبان رژیم کو رسماََ قبول کیا تھا لہذا طالبان اُن کی بات کا مان رکھتے ہیں لیکن یہاں پہ طالبان کا اصولی موقف یہی ہے کہ کابل رژیم امریکہ کی در پروردہ ہے اور اُسکی کوئی حیثیت نہیں ۔طالبان کا اصولی موقف ایک طرف دوسری طرف دیکھا جائے تو یہ نظر آتا ہے کہ امریکہ کی اعانت میں پلنی والی یہ سرکار کم و بیش شمالی اتحاد کی حمایت کی حامل ہے گرچہ پختونوں میں کابل رژیم کا اثر رسوخ نہ ہونے کے برابر ہے ۔ شمالی اتحاد میں تاجک،ازبک اور ترکمان شامل ہیں اور یہاں کچھ فوجی گروہ بھی ہیں گر چہ اُنکی فوجی حثیت طالبان کے در مقابل کافی ضعیف ہے ۔سیاسی دائرے میں البتہ شمالی اتحاد کی حمایت کا حصول ایک چلینج ہے بھلے ہی حکومت کوئی بھی ہو خاصکر مستقبل میں اگر طالبان کی سربراہی میں کوئی حکومت منظر عام پہ آتی ہے تو اُسے شمالی اتحادکے ساتھ ساتھ ہزارہ قبائل کی حمایت بھی در کار ہو گی ثانیاََ طالبان ایک سنی تنظیم ہے لہذا شیعہ فرقے کی حمایت کا حصول بھی ایک چلینج ہو سکتا ہے ثالثاََ یہ بھی نظر میں رکھنا ہو گا کہ شیعہ فرقے کو ایران کی حمایت حاصل ہے۔ یہاں بات افغانستان کے ہمسایہ ممالک پہ آتی ہے جو مجموعی صورت حال پہ اثر انداز ہو سکتے ہیں۔
سٹیک ہولڈرس میں وہ تمام حلقے شامل ہیں جن کا افغانستان کے مسائل سے بالواسطہ یا بلاواسطہ تعلق ہے۔ظاہر ہے سٹیک ہولڈرس میں جہاں افغانستان کے داخلی عناصر شامل ہیں وہی خارجی عناصر بھی اِس مسلے کے ساتھ جڑ گئے ہیں۔ مسلہ صرف افغانستان کی سیکورٹی کا نہیںبلکہ اِس ملک کی سرحدوں پہ واقعہ کئی ممالک کی سیکورٹی کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ افغانستان کا مسلہ مجموعاََ پورے خطے کی سیکورٹی کے ساتھ وابستہ ہو گیا ہے ۔ افغانستان جو کہ زمینی قفل بندی کا شکار اور سمندری ساحل سے ماورا ہے کئی ممالک کے بیچوں بیچ واقع ہوا ہے۔اُس کے جنوب و مشرق میں پاکستان،مغرب میں ایران، شمال میں تاجکستان،ازبکستان و ترکمنستان اور شمال مشرق میں چین کا وقوع پذیر ہونا افغان مسائل کو پیچیدہ سے پیچیدہ تر بناتا ہے۔شمالی سرحد پہ تین سنٹرل ایشائی ممالک کاوقوع پذیر ہونا روس کو بھی افغان مسائل پہ نظر رکھنے کی شہ دیتا ہے چونکہ روس سنٹرل ایشیا کو اب بھی اپنے سفارتی رسوخ کے دائرے میں مانتا ہے۔یہ سچ ہے کہ یہ سنٹرل ایشیائی ممالک اپنی مذہبی حثیت میں مسلم ممالک ہیں لیکن عرصہ دراز تک روسی تسلط میں رہنے سے یہاں روسی اثر رسوخ ہے حتّی کہ نام بھی روسی لہجے لئے ہوئے ہیں جہاں رشید،رشیدوف و ایاز،ایازوف بن جاتا ہے۔ چین مشرقی ترکمنستان جنگجو گروہوں سے نالاں ہے بنابریں محفوظ سرحد کیلئے افغانستان میں امنیت کا خواہاں ہے۔ مجموعاََ افغانستان کے روس و ایران سمیت تمام ہمسایہ ممالک داعش کے پھیلاؤ کے زبردست مخالف ہیں ۔ حالیہ برسوں میں یہی سبب بنا کہ ایران و روس طالبان کے قریب آئے۔جہاں تک افغانستان کی اُس سرحد کا تعلق ہے جو بر صغیر سے ملتی ہے یہ اتنا وسیع موضوع ہے کہ اِس کالم میں نہیں سما سکتا ۔انشااللہ اگلی نشست پہ اُس پہ بحث ہو گی۔
Feedback on:[email protected]