جب کوئی تخلیق کار اپنے خیالات وجذبات کا اظہار کرتا ہے تو شعوری یا غیر شعوری طور پر وہ اپنے سماج کے تعین ہونے والے مسائل اور مشاہدے میں آئے ہوئے واقعات کا اظہار اپنی تخلیقات میں ضرور کرتا ہے۔پریم چند کو ہی لیجیے جب انہوں نے اپنا قلم اُٹھایا تو اپنے آس پاس کے ماحول کو وہ بھی فرانوش نہیں کر سکے۔انہوں نے اپنی تخلیقات میں اپنے ماحول کی بھر پور عکاسی کی۔سماج میںپنپ رہے مسائل کو انہوں نے نہ صرف اُجاگر کیا بلکہ پورے ملک کی ان مسائل کی طرف توجہ مبذول کروائی۔یہی کچھ کرشن چندر نے بھی کیا اور دیگرتخلیق کاروں نے بھی ۔طارق شبنم نے بھی جب قلم اُٹھایا تو انہوں نے بھی اپنی سیاہی سے صفحہ قرطاس پر اپنے معاشرے میں ہونے والے واقعات کا بھر پور اظہار اپنی کہانیوں میں کیا۔چونکہ ان کا تعلق وادی ِکشمیر سے ہیں، اس لیے ان کی تخلیقات میں ان مسائل کی عکاسی دیکھنے کو ملتی ہیں جس کا سامنا یہاں کی عوام نے ہر قدم پر کیا ہے۔
طارق شبنم کا افسانوی مجموعہ ’’گُمشدہ دولت‘‘۲۰۲۰ء میں منظر عام پر آیا ،جس میں ۲۷ افسانے مجموعے کی زینت بنے ہوئے ہیں۔مجموعے میں کئی بہترین افسانے شامل ہیں۔’’بے درد زمانہ‘‘سماج میں پنپنے والی ان بُرائیوں کو پیش کرتاہے ،جنہیں آئے روز ہر اُس غریب اور مفلس شخص کے ساتھ ہوتا ہے جو سماج میں دو وقت کی روٹی کمانے میں دن رات جدوجہد کرتے رہتےہیں۔دردِزہ میں نہ صرف اس افسانہ کے کردار سُندری اور اس کا شوہر تڑپ رہے ہیں بلکہ سماج کے تعین ہماری توجہ ان لوگوں کی جانب بھی مبذول کروانا چاہتے ہیں جن کے ساتھ آئے روز یہ واقعات پیش آتے رہتےہیں۔ یہ سماج کی ایک حقیقت ہے کہ کس طرح یہاں ان ہسپتالوں کے ساتھ دیگر شعبوں میں بھی یہ بے انصافیاںجاری و ساری ہیں۔افسانہ میں ’سندری‘ کو اس کا بے حد احساس ہے کہ یہاں سفارش کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا لیکن پھر بھی کسی سے مدد مانگے بغیر اپنے شوہر کی خدمت میں حتی الامکان کوششیں کرتی رہتی ہیں۔افسانے کے اقتباس سے اس کی تصویر ملاحظ کیجئے:
’’اس بے دردزمانے میں ،میں اکیلی بے سہارا عورت کیا کروں،کس سے مدد مانگوں ،کہاں انصاف ڈھونڈوں
،یہاں صرف پتھر دل انسان ہیں،پتھر کے ضمیر ہیں،چا پلوسی ،فریب،حرص اور خود غرضی ہے۔‘‘
(افسانہ،بے درد زمانہ،ص:۱۶)
’’آبرو‘‘ اپنے گھر کی آبرو کی حفاظت کرنا ہر ایک شخص کے ذمہ ہوتا ہے۔جس کی حفاظت انسان اپنی آخری سانس تک کر تا ہے۔کامران ومختی جس طرح اپنے گھر کی حفاظت کے لیے سماج کے ان مگر مچھوں سے مقابلہ کررہے ہیں جو ہر آن ان کی آبرو کو زیر آب کر نے پر تلے ہوئے ہیں۔ایک طرف چراغ الدین اور زمیندار کی چال بازیوں سے مقابلہ کرنا اور دوسری طرف اپنے عیال کا پیٹ بھرنا ایک نا تواں کندوں پرذمہ داری عائد ہوتی ہیں، جس کے دل میں یہ ارمان ہوتا ہے کہ وہ بھی اسکول جاکر اپنی پڑھائی پوری کریں۔لیکن تنگدستی اور مفلسی کی وجہ سے کامران کو اپنی خواہشوں کا خون کرنا پڑتا ہے۔ہمارے سماج میں اس طرح کئی کامران ہیں جو اپنی خواہشوں کا خون کر کے گھربھر کی ذمہ داری نبھارہے ہیںاور دوسری طرف سماج میں زمیندار اور چراغ الدین جیسے لوگ بھی ہیں جو ان جیسے لوگوں کے لئے درد و غم کا باعث بنے ہوئے ہیں۔افسانہ کے آخر تک کامران اور اس کی ماں مختی اپنے گھر بھر کی ساری چیزیں کوہاتھ سے جاتے ہوئے بھی گھر کی آبرو کو محفوظ رکھتے ہیں اوراطمینان کا سانس لیتے ہیں۔افسانے سے یہ عبارت ملاحظ ہو:
’’دونوں کی آنکھوں سے ایک عجیب قسم کا اطمینان چھلک رہا تھا اور وہ دل ہی دل میں اس بات کے لئے اللہ
کا شُکر بجالا رہے تھے کہ دولت کے بدرَو میں تیرنے والے ان مگر مچھوں سے ان کے گھر کی آبرو محفوظ رہی۔‘‘
(افسانہ،آبرو،ص:۳۲)
’’کہانی کا المیہ‘‘میں مصنف نے بظاہر ایک آدم زاد اور ایک جِن کی کہانی کو موضوع بنایا ہے۔ لیکن افسانہ بغور مطالعہ کیا جائے تو اس میں آدم زاد کی وہ تمام ریاکاری،خودفریبی بھی سامنے آتی ہے جو ایک جِن ،ایک آدم زاد سے بیان کر رہا ہے ،لیکن کہانی اتنی سی ہی نہیںہوسکتی، طارق شبنم نے بطور ایک انسان کے آدم زاد کی ان تمام خامیوں کا ذکر کیا ہے جو ہم اپنے معاشرے میںدیکھتے ہیں کہ آدم زاد اپنی حوص کو پُر کر نے کے لیے کیا کیا نہیں کرتے ہیں،کن مکاریوں اور ریاکاریوں سے کام لیکر سما ج میں اپنا مقام برقرار رکھتےہیں۔ذرا یہ عبارت دیکھئے:
’’بدخواہ آدم زاد اپنی کا لی کرتوتوں کی وجہ سے تم اب دوستی کے قابل بھی نہیں رہے ہو۔حرص ،خودفریبی،ریاکاری
اور سیاہ کاری کے سانپ تمہاری نس نس میں سرایت کر چُکے ہیں۔‘‘
(افسانہ۔کہانی کا المیہ،ص:۴۵)
حکام کی طرف سے عام لوگوں کو جو تکلیفیںاور جو دوکھ اُٹھانے پڑتے ہیںوہ کافی عرصے سے ہم اپنے سماج میں دیکھتے آئے ہیںکہ کس طرح اور کن کن مصیبتوں میں عوام کو حکام اپنا شکار بناکر اپنے مشغلوں اور تفریحوں سے مفلسی اور بے چاریگی میں دھکیل دیتی ہیں۔’’دہشت کے سائے‘‘میں بونہ گام کے لوگوں کے ساتھ بھی یہی واقعہ پیش آتا ہے ۔بندوقیں لیکر صاحب لوگ گاؤں میں عادل مرزا جیسے غریب شخص کا استحصال کر تےہیں۔درجنوں مویشیوں اور مرغوں مرغیوں کو چیر پھاڑ کر جب اپنا مشغلہ ختم کر کے واپس جاتے ہیں ، پوری رات دہشت کے سائے تلے گزر جاتی ہیں ،گاؤں والوں کو اس بات تک کاعلم نہیں ہوتا ہے کہ باہرکون لوگ ہیں۔پھر صبح گاؤں والوں کے ساتھ ساتھ عادل مرزا اور اس کے گھر والوں کو بھی اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ کل رات وہ صاحب لوگ شکار کھیلنے آئے تھے۔اس کی سچی تصویر افسانے سے ملاحظ کیجئے:
’’لوگ یہ فیصلہ نہیں کر پارہے تھے کہ کیا کیا جائے تو اچانک ایک معمر بزرگ سے پتہ چلا کہ کل شام کو کچھ صاحب
لوگ لائسنس یافتہ بندوقیں لے کر مقامی جھیل میں شکار کھیلنے کے لئے آئے تھے۔‘‘
(افسانہ،دہشت کے سائے،ص:۴۹)
قلم کار جب اپنے قلم کو جنبش دینے کی کوشش کرتا ہے تو وہ اپنے فضا،ماحول اور حالات کا بغور مطالعہ کر کے سماج میں پنپنے والی برائیوں ،حادثات،واقعات کو اپنے قلم سے صفوں کی زینت بنادیتا ہے۔’’انتظار‘‘طارق شبنم کی ایک ایسی کہانی ہے، جس میں کشمیر میں ہونے والے ان واقعات کی طرف توجہ مبذول کروائی گئی ہے، جو کشمیر میں کئی دہائیوں سے چل رہی ہے۔معصوم بچوں ،بچیوں ،مردوں ،عورتوں کا گھر سے نکل کر اپنے کاموں سے فارغ ہو کر گھر نہ آنے کے حادثات اور گھر میں ان کا انتظار نہ صرف دنوں میں بلکہ سال ہا سالوں سے ہوتا رہا ہے۔ان معصوم بچوں اور مردوںکے ساتھ کیا ہوتا ہے یہ یہاں کی عوام سے کوئی چھپی ہوئی بات نہیں۔کہانی میں بھی ایک ایسا ہی منظر دکھا کر مصنف نے ہماری توجہ اس درد و کرب میں مبتلا لوگوں کی طرف کی ہیں۔دوسری طرف ان گھر والوں کی جو معاشی حا لت ہوتی ہے، اُس کی جانب بھی ہماری توجہ مبذول کر وانے کی کوشش کی گئی ہے۔لیکن یہ انتظار کبھی ختم ہی نہیں ہوتا ہے۔طارق شبنم کے افسانے سے یہ عبارت دیکھئے:
’’عید کی خوشیوں سے بے خبر فتح محمد اور اس کی گھر والی گھر کے صحن میں اور ان کی نیم بیوہ بہو، کمسن بیٹے کو گود
میں لئے دروازے پہ بیٹھے آنکھیں بچھائے راستے کی طرف ایسے ٹکٹکی باندھے ہوئے تھی جیسے ان کا گمشدہ
چین و قرار ،نور نظر بس لوٹنے ہی والا ہو۔‘‘
(افسانہ،انتظار،ص:۵۸)
’’اونچی اُڈان‘‘ایک ایسا افسانہ ہے جس میں مصنف نے ایک ایسے مسئلے کی عکاسی کی ہے، جس میں بچوں نے اپنے ماں باپ کو انتظار کرواکے ان کو زندہ درگو رکیا ہے۔ بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلا کر انہیں بیرونی ممالک میں بیجنا، یہاں کے ماں باپ کا ایک سپنا سا ہوتا ہے ،تاکہ بچے دنیا میں خوب ترقی کریں اور بچے وہاں جاکر وہاں کی تہذیب میں رنگ کر اور وہاں کی عیش پرستی اور آوہ گردی میں نہ صرف اپنے ماں باپ کو بھلاتے ہیں بلکہ اپنی تہذیب کے بھی پر خچے اُڑاتے ہیں اور وہاں اپنی عیش پرستانہ زندگی میں اپنی روح تک کو بھی مغریبی تہذیب میں رنگ لیتے ہیں۔افسانہ میں اُن لو گوں کے دکھ درداوراضطراب کی حالت، جو اپنے بچوں کی یاد میں اپنے اُ ن عالی شان مکانوں میںبیٹھے ہوئے ہیں، ایک سچی تصویر پیش کی ہے۔یہاں ماں باپ جس دردو کرب میں مبتلاہو کر اپنی جان دیتے ہیں، وہ اس افسانے کی ایک امر حقیقت ہے ۔ عبارت ملا حظ کیجئے:
’’وقت کا پرندہ پرواز کرتا ہے۔مالا اپنے اکلوتے بیٹے کی جدائی میں مغموم و اداس رہنے لگی۔۔۔ڈاکٹر ممتاز
کا پتہ حاصل کر کے اس کو خط لکھ کر ماں کی موت کی خبر دے دی۔لیکن چھ مہینے کا وقفہ گزرنے کے بعد بھی وہ
ولایت سے نہیں آیا او ر نہ ہی خط کا کوئی جواب ملا۔‘‘
(افسانہ،اونچی اُڑان،ص:۷۵۔۷۷)
(مضمون کا باقی حصہ اگلی قسط میں۔۔۔ )
ریسرچ اسکالر،شعبہ اردو یونیورسٹی آف کشمیر،سرینگر