ناصر منصور شاز
ماضی میں لوگوں کاسفر پسنجر گاڑیوں میں ہوا کرتا تھا اور سفر کا یہ معاملہ ایک تہائی آبادی کا تھا۔ وہ بھی کیا دن تھے کہ گھر سے نکل کر بس اڈے تک چند میل پیدل سفر اور گاڑی کا انتظار اور ایک ضلع سے دوسرے ضلع تک کا سفر خالی سفر ہوا نہیں کرتا تھا، بلکہ اخبار ،آزمائش، امتحان اور مختلف تجربات کے ذریعے ذہنی ترقی کا سامان بھی مہیا ہوتا تھا۔ لیکن دورِ جدید نے وقت کی رفتار میں تیزی لاکر انسان کو تب ان سب چیزوں سے غافل کردیا جب سے ہم آرام طلب ہوئےاور وہ دن اب ماضی کی یادوں میں بھی نہ رہے۔ راقم الحروف گھر کی بات کرے تو تین اسکوٹیاں اور دو عدد گاڑیاں کئی سال سے خدمت میں ہیں، یہی روش میرے آس پاس کے پڑوس اور اطراف و اکناف میں ہے۔
ذاتی ٹرانسپورٹ کے استعمال سے اِس وقت کئی بیماریوں کا سامنا ہے،جس کسی کو بھی دیکھیں، کئی کئی بیماریوں میں مبتلا ہوئے ہیں۔ کولیسٹرول، پھیٹی لیور، وزن کا بڑھنا یا کمر کی درد ، ان ساری بیماریوں کا جڑ توذاتی ٹرانسپورٹ کا کثرتِ استعمال ہی توہے۔ ان بیماریوں کی شرح دن بہ دن بڑھتی ہی جارہی ہے اور میں بھی بذات خود کمر درد کا شکار ہوچکا ہوں۔
میرا کئی سال سے سفر چاہے چھوٹا ہو یا بڑا اسکوٹی پر ہی جاری وساری ہے ۔جمعہ المبارک کو صبح سویرے جب میں نے جمعہ نماز پڑھنے کا مائسمہ سرینگر میں اِرادہ کیا تو اسکوٹی کی کنجی اُٹھانے کے بعد اسکوٹی کا لازمی حصہ ہیلمٹ اچانک آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔ ہیلمٹ نہ ملنے پر اوروقت کی قلت کی وجہ سے میں نے من بنایا کہ میں آج کا سفر پسنجر گاڑی میں ہی کروں۔ کیونکہ ہیلمٹ کے بغیر اسکوٹی پر سفر کرنا ایک تو اپنی جان کے ساتھ کھیلنے کے مترادف ہے اور خلاف قانون بھی ۔ظاہر ہے کہ کئی دنوں سے تو لوگ ٹریفک رولز کے پابند بنے ہوئے نظر آرہےہیں۔ ٹینگ پورہ بائی پاس ہائے وے پر جب سے تھار گاڑی کےبھیانک ایکسیڈنٹ کاواقعہ پیش آیا، جس میں کئی نوجوان جو عروج شباب پر تھے، اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے لحد کی آغوش میں ہمیشہ کے لئے سو گئے ہیں،تو اسی لئے محکمہ ٹریفک پولیس خواب ِ غفلت سے جاگ اُٹھی ہے اور اس بات کی تحریک پاچکی ہے کہ وہ خود بھی قانون کا لحاظ رکھیں گے اور سختی کے ساتھ قانون کی پاسداری کروائیں گے۔
کشمیر کے چاروں اطراف ٹریفک پولیس کی گہما گہمی کا ماحول بنا ہوا ہے، جہاں کہیں بھی موقع ملتا ہے ناکہ بندی لگا کرقانون کی خلاف ورزی کرنےوالوں کی گاڑیوں کے پہیوں کو آگے سے اٹھا کر زنجیر ِزنداں میں کس کے پولیس احاطہ میں لے جاتے ہیں ،اور یہی معاملہ اسکوٹیوں کے ساتھ بھی ہورہا ہے کہ لائیسنس کی عدم موجودگی میں بیشمار اسکوٹیاں سئیز کی گئیں۔ آج محکمہ دکھا رہا ہے کہ لو جی دیکھیں !بنا لائیسنس کی شرح کہاں سے کہاں تک پہنچ گئی ہے، اصل میں یہ اپنی نااہلی کا بھی ثبوت دے رہے ہیں۔تیس سال سے ہنوز ایک آٹو ڈرائیور بنا لائیسنس آٹو چلا رہا تھا کو، سوشل میڈیا پر دکھا کر آٹو ڈرائیور کے لیے مضحکہ خیز تو ہوسکتا ہے لیکن حقیقت میں یہ محکمہ کی عدم قابلیت اور نااہلیت کا ہی ثبوت ہے کہ ایک آٹو ڈرائیور اتنے سال تک کیسے بنا لائیسنس آٹو چلا رہا تھا۔ کیا وہ ان تیس سالوں میں تیس دفعہ بھی نہیں پکڑا گیا ۔ محکمہ کو لوگوں کی لیت و لعل تو دکھائی دے رہی ہیں لیکن تیس سال کا کرپشن دکھائی نہیں دے رہا ہے ۔ بہر کیف محکمہ ٹریفک کنٹرول کی یہ ایک اچھی پہل ہے کہ عوام الناس کو خلاف ِقانون کے کاموں سے روکیں، اس سے عوام میں سنجیدگی پیدا ہوگی بشرطیکہ اگر محکمہ بھی اس معاملے میں سنجیدہ ہوں ۔
اگر مستقبل میں محکمہ کی جانب پھر سے وہی لیت و لعل کا مظاہرہ کیا گیا تو آئندہ اس سے بھی بڑھکر ٹریفک حادثات کا المناک کھیل کھیلنے کو ملیں گے۔ لوگوں کو بھی چاہیے کہ وہ ایک با شعور قوم بنے اور اپنے اندر سنجیدگی اور برد باری پیدا کریں۔احقر نے بھی ہیلمٹ نہ ملنے پر آخر کار اپنا سفر گورنمنٹ کی اسمارٹ بس میں کیا، اسمارٹ بس میں یہ میرا تقریباً چوتھی بار کا سفر تھا۔ بس میں چڑھتے ہی میری نظر ایک خالی نشست پر پڑی جو بس کے عقب میں تھی ۔ الیکٹرک بس کے اندر نشستوں کی بیچ کی راہ کشادہ رکھی گئی ہے ۔ بغل میں بیٹھے ایک صاحب سے میں نے راہ کی کشادگی کے حوالے بات کی تو انہوں نے کہا، ابھی ابھی چڑھے ہو آگے آگے دیکھو ہوتا ہے کیا ۔
چند ہی دقائق کے بعد اگلے اسٹاپ پر سواریوں کی ایک بھیڑ کی لمبی قطار بس میں اُمنڈ آئیں۔ اس سے میری نظر میں سمارٹ بس کی اہمیت کچھ گھٹ گئی۔ میری نظر دائیں کھڑے ایک سن رسیدہ بزرگ پر پڑی جو ہچکولے کھارہا تھا ۔ کمبخت ضمیر کچھ لمحے نظریں چرانے لگا۔ لیکن آخر ضمیر جاگ گیا، بزرگ کو نشست پر بٹھادیا ۔ میں بس کے اندر اسمارٹ چیزوں کو دیکھنے لگا تو میری نظر بس میں لگائے گئے سی سی کیمروں پر پڑی جن کے نیچے لکھا ہوا تھا ،آپ نگرانی کے تحت ہیں ۔ اس سے دل خوش ہوا کہ اتنا تو ہے کہ خواتین کی حفاظت اور چور لفنگ اور اوباشوں سے تو نجات ملے ۔ ساتھ ہی میری نظر کھڑکیوں پر پڑی تقریباً سارے شیشوں کے لاک لٹکے ہوئے تھے۔ معلوم ہوا یہ سب بے شعور پسینجرز کی کارستانی ہے ۔ چند سال پہلے میرا سفر ٹرین میں سرینگر سے بانہال تک ہوا ،یہاں بھی یہی بے شعوری نظر سے گزری، کئی شیشے اور الیکٹرک سوئچ بورڈ توڑے گئے تھے اور اتنی گندگی اور کچرا ڈالا گیا تھا کہ اللہ ہی حافظ ۔ اس سے درشاتا ہے کہ قوم کے اندر شعور اور اخلاقی میں بے حد فقدان ہے۔ ہمارے معاشرے میں اصلاح کے بجائے عوامی صورتحال فساد اور بگاڑ کی اور جارہی ہے اس کا سدباب پر ہمارے مصلحین کو غور وخوض کرنا چاہیے نہیں تو بات دور تلک جائے گی ۔ دوبارہ نشست پر بیٹھنے کے بعد میری نظر ایک عورت پر پڑی جو اوور لوڈ میں کھڑی تھیں ۔ بس میں آگے کی پانچ چھے سیٹیں مخصوص عورتوں کے لیے رکھی گئیں ہیں۔ اور باقی مردوں کے لیے لیکن یہ عورتوں کے ساتھ سراسر بے انصافی ہے۔ کیوںکہ یہ نوے کی دھائی کا رول ہے، اس وقت کے زمانے میں خواتین کا سفر گاڑیوں میں کم ہوا کرتا تھا اور نہ کے برابر ہوتا تھا، اس کے کئی وجوہات تھے۔ مثال کے طور پر خواتین اکثر و بیشتر خود کفیل نہیں ہوا کرتی تھیں ۔ اس کے مقابلے میں آج عورتیں اسکولوں ،کالجوں، یونیورسٹیوں اور سرکاری غیر سرکاری دفاتر میں ملازمت کرتی ہیں ۔ اس حساب سے دو ہزار چوبیس میں عورتوں کی نشستیں مردوں کے مقابلے میں آدھی ہونی چاہئیں تھیں۔ عورت کو کھڑے دیکھ کر میں اپنی نشست سے اٹھا اور تقریباً آٹھ کیلو میٹر آخری مقام تک اِستادہ رہا،نہ زیادہ کوفت ہوئی نہ کمر میں درد ہوا۔
(اومپورہ، بڈگام،رابطہ۔ : 9906971488)