جموں وکشمیر یونین ٹریٹری کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے گزشتہ دنوں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اخلاقی اور سماجی اقدار ، قدیم روایت اور ثقافتی ورثہ ہمارے معاشرے کی اصل دولت ہیں ۔لیفٹیننٹ گورنر نے کہا کہ جموں وکشمیرکو دفعہ 370 اور 35اے کی وجہ سے ترقی اور خوشحالی سے دور رکھنے کی جان بوجھ کر کوشش کی گئی ، فوائد تک رسائی کی کمی نے ترقی میں جمود پیدا کیاتھا تاہم وزیر اعظم نریندر مودی کی رہنمائی میں تمام ترقی پسند قوانین کو عملایا گیا اور جموںوکشمیر کو دیگر ترقی یافتہ ریاستوں کے برابر لانے کے لئے اصلاحات متعارف کی گئیں۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ تبدیلی کے بعد 2019ء نے معاشرے کے ہر طبقے کو آئین سے فراہم کردہ تمام فوائد تک رسائی کے ساتھ بااختیار بنایا ہے۔ لیفٹیننٹ گورنر کا بیان حکومت کی گزشتہ تین برسوں کی کارکردگی کا خلاصہ تھا اور حقیقی معنوں میں 5اگست2019کو خصوصی پوزیشن کے خاتمہ کے بعد جموںوکشمیر ایک بدلائو سے گزر رہا ہے ۔بھلے ہی کچھ لوگ حکومت کے اس فیصلہ کی تنقید کرتے ہیںتاہم یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ جموں وکشمیر میں حکمرانی کے طرز عمل میں انقلابی بدلائو آیا ہے ۔
گورنر راج اور عوامی حکومت پر بحث کی گنجائش موجود ہے اور اس حقیقت سے قطعی انکار نہیں کیاجاسکتا ہے کہ گورنر راج جمہوری نظام میں عوامی حکومت کا متبادل نہیں ہوسکتا ہے تاہم اس کمزوری کے باوجود لیفٹیننٹ گورنر انتظامیہ نے زمینی سطح پر پنچایتی اور بلدیاتی اداروںکی صورت میں جس طرح عوامی نمائندوں کو بروئے کار لاکر جمہوریت کے حقیقی ثمرات عوام کو منتقل کئے ،وہ اپنے آپ میں ایک قابل تقلید و تحسین عمل ہے ۔آج بیشتر حکومتی سہولیات میں افسر شاہی کا کوئی عمل دخل نہیں ہے اور بیشتر سرکاری خدمات آن لائن میسر ہیں جس سے نہ صرف وقت کی بچت ہوئی بلکہ عوام کی با اختیاری بھی یقینی بن گئی ۔آج بیشتر اسناد آن لائن اجرا کی جارہی ہیںا ور بیشتر فلاحی سکیموں کے فوائد کسی کے در پر جائے بغیر عوام کو آن لائن مہیا کی جارہی ہیں اورمالی امداد براہ راست ان کے بنک کھاتوں میں منتقل کی جارہی ہے ۔سرکاری کاموں کا لیکھا جوکھا آن لائن میسرہے ۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ابھی اس نظام میں خامیاں موجود ہیں اور پنچایتی و بلدیاتی اداروں کی سطح پر ہورہے کاموں کے معیار پر انگلیاں اٹھائی جارہی ہیں تاہم یہ کیا کم پیش رفت ہے کہ اب کوئی افسر یا عوامی نمائندہ ترقیاتی کاموں کے نام پر خزانہ عامرہ کو چونا نہیں لگا سکتا ہے کیونکہ اب ہر کام کی صرف جیو ٹیگنگ ہوتی ہے بلکہ ہر کام کی ساری تفصیلات سرکار ی پورٹل پر میسر ہے اور یونین ٹریٹری کا ہر باشندہ اپنے گائوں ،محلہ میں ہورہے سرکاری کاموں کی نہ صرف تفصیلا ت حاصل کرسکتا ہے بلکہ اگر اُسے لگے کہ کاغذات اور زمینی سطح پر ہوئے کام میں کچھ فرق ہے تو وہ گھر بیٹھے ہی شکایت بھی کرسکتا ہے اور گھر بیٹھے ہی اس کی شکایت پر کارروائی بھی ہوگی اور اگر شکایت درست پائی گئی تو ملوثین کو سزا تو ملے گی لیکن شکایت کنند ہ کو بھی کارروائی کی تفصیلات سے آگاہ کیاجائے گا۔یہ اپنے آپ میں ایک بڑی بااختیاری نہیں تو اور کیا ہے ۔
یہاں بھی سالہا سال تک پتہ نہیں لگتا ہے کہ کہاں کون سے کام ہوئے ہیں بلکہ لوگوں کو اپنے گائوں ،محلوں میں ہورہے کاموں کی تفصیلات بھی معلوم نہیں ہوتی تھیں لیکن اب وہ زمانہ گزر چکا ہے اور اب سب کچھ عوام کے سامنے ہے ۔شفافیت اور جوابدہی کے اسی عنصر نے ایک عام شہری کو بھی اس قدر بااختیاربنادیا ہے کہ وہ اب وہ اپنے نمائندوں اور سرکاری افسران سے سوال کرتا ہے اور جواب بھی مانگتا ہے ۔سماج کے ہر طبقہ کی ترقی و خوشحالی کیلئے جس طرح شراکتی ، شفاف اور جواب دہ حکمرانی کانظام متعارف کیاگیا،اُس نے عوامی خدمات تک آسان رسائی ، عوام کی بااختیاری ، خواتین اور معاشرے کے محروم طبقے کے ساتھ ہورہے سماجی عدم مساوات کا خاتمہ یقینی بنایا ۔ظاہر ہے کہ معاشرہ جبھی ترقی کرے گا جب معاشرے کا ہر طبقہ ترقی کرے ،سماج میں جبھی خوشگوار تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہیں ،جب سماج کا ہرطبقہ اور ہر فرد سماج کی تعمیر میں اپنے آپ کو شراکتدا ر سمجھے ۔حکومت کے اسی منترا نے ہوا بدل دی اور آج عالم یہ ہے کہ جموںوکشمیر کا ہر فرد بدل رہا ہے،ہر فردکی سوچ بدل رہی ہے ،فرسودہ خیالات متروک ہونے لگے ہیں اور تازہ سوچ نے اپنی جگہ بنانا شروع کردی ہے ۔سوچ کی یہی تبدیلی سماجی و معاشرتی انقلاب پر منتج ہوگی کیونکہ جب افراد کی سوچ بدلے گی تو معاشرہ کا بدلنا طے ہے اور جب معاشرہ مثبت سمت میں چل پڑے گاتو ایسے سماج یا معاشرہ کو ترقی وخوشحالی کے سفرپر گامزن ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا ہے ۔بدلتے حالات کا تقاضاہے کہ ہم سبھی اس بدلائو کا حصہ بن جائیں اور معاشرہ ،سماج اور قوم کی تعمیر میں اپنا تعمیری حصہ مثبت انداز میں ادا کریں کیونکہ یہ سماج اور یہ قوم ہماری ہے اور ہمیں ہی نہیں بلکہ ہماری آنے والی نسلوں کو بھی اس میں رہنا ہے ۔اگر ہم آج صحیح سمت میں بدلیں گے تو ہماری آنے والی نسلوں کو ایک خوشحال معاشرہ وراثت میں مل سکتا ہے اور وہ ہمیں دعائیں دینگے ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارے ہی بچے اور اُن کے بچے کہیں کل کو اپنی پریشانیوں کیلئے ہمیں ہی کٹہرے میں کھڑا نہ کریں جو قطعی کوئی اچھی صورتحال نہیں ہوسکتی ہے۔