اشفاق سعید
سرینگر //سمارٹ سٹی پروجیکٹ کے تحت متعارف کرائی گئی 50الیکٹرانک بسوں کے ساتھ پرانی ٹاٹا گاڑیوں کو بھی اسی نظام کے تحت شہر سرینگر میں چلنے کی اجازت ہو گی، تاہم ان گاڑیوں کو فٹنس اسناد فراہم کرنا ہوگی۔پرائیویٹ ٹرانسپورٹروں کا کہنا ہے کہ وہ بھی ایکو فرنڈلی بسیں خرید نے کا منصوبہ رکھتے ہیں ،لیکن اس کیلئے انہیں سرکاری اعانت درکار ہوگی، جو انہیں دی جارہی ہے۔معلوم رہے کہ سرینگر سمارٹ سٹی کے تحت شہر کے پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم کو بڑھانے کیلئے حکومت نے اس سال دسمبر تک 100 سمارٹ ای بسوں کا فلیٹ شروع کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔سمارٹ سٹی پروجیکٹ حکام نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ ابھی 50گاڑیاں حاصل کی گئی ہیں اور مزید 50دسمبر کے مہینے تک حاصل ہو نگی ۔انہوں نے کہا کہ یہ ماحول دوست بسیں متعارف ہونے سے ٹکٹنگ کے اخراجات میں بچت ہو گی اور جدید ترین حفاظتی خصوصیات سے لیس ہوں گی۔گزشتہ سال ٹاٹا موٹرس لمیٹڈ کے ساتھ جموں اور سرینگر میں 200 الیکٹرک بسیں خریدنے کیلئے ایک مفاہمت نامے پر دستخط کیے گئے تھے۔
کشمیر ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن کے جنرل سکریٹری محمد یوسف نے الیکٹرانک بسوں کے متعارف ہونے کا خیر مقدم کرتے ہوئے سرکار سے مطالبہ کیا کہ جیسی سہولت الیکٹرانک بسوں کو دی گئی ویسی ہی نجی ٹرانسپورٹ کو بھی دی جانی چاہئے کیونکہ کشمیر کے ٹرانسپورٹروں نے مشکل اور نامساعد حالات میں لوگوں کو بہترین خدمات فراہم کی ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ای بسیں سرکار کی اپنی نہیں ہیں، بلکہ ایک مینو فیکچرر کمپنی سے معاہدہ کے بعد خریدی گئی ہیں اور اس کا فائدہ بھی کمپنی حاصل کرے گی ۔اگر سرکار ایک کمپنی کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کر کے نجی ٹرانسپورٹ کی طرف کوئی دھیان نہیں دے گی، تو یہ ٹرانسپورٹروں کے ساتھ ناانصافی ہو گی ۔انہوں نے کہا کہ کمپنی کی 100بسیں یہاں صرف 200افراد کو روزگار دیںگی، لیکن نجی سیکٹر میں 2000بسوں سے 4ہزار کنڈیکٹروں اور ڈرائیوروں کا گھر چلتا ہے ۔ٹرانسپورٹ یونین کا کہنا ہے کہ یہاں اکثر فیصلے ان کو خاطر میں لئے بغیر لئے جاتے ہیں ،ہم بھی چاہتے ہیں کہ سرکاری مدد سے ہم ایکو فرنڈلی گاڑیاں خریدیں اور ماضی کی طرح لوگوں کو بہتر سہولیات فراہم کریں لیکن ہمیں اس کیلئے سرکاری مدد فراہم نہیں ہو رہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ اس سے قبل شہر میں کل 2000نجی منی بسیں چلتی تھیں لیکن ہائی کورٹ احکامات، جس میں 25سال کی عمر سے زیادہ گاڑیوں کو کنڈم قرار دینے کا فیصلہ ہوا ، قریب 1000سے 1200گاڑیاں کنڈم ہو گئیں ۔انہوں نے کہا کہ اس وقت شہر میں صرف 800سے1000گاڑیاں ہی چل رہی ہیں ۔ آر ٹی او کشمیر سید شہنواز بخاری نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ جس نظام کے تحت الیکٹرنک گاڑیاں چلیں گی ،اسی نظام کے تحت پرانی ٹاٹا گاڑیوں کو بھی چلنے کی اجازت ہو گی ۔انہوں نے کہا کہ جس گاڑی کی عمر ہے، اس کو چلنے میں کوئی بھی رکاوٹ نہیں ہو گی، گاڑی مالکان کے پاس پرمنٹ ، فٹنس اور گاڑی کی معیاد ہونی چاہیے ۔انہوں نے کہا کہ اگر وہ خود ہی اس نظام سے باہر رہیں گے، تووہ مقابلہ نہیں کر سکیں گے اور اس دوڑ سے باہر ہوجائیں گے۔سرینگر میونسل کارپوریشن کے کمشنر اور سمارٹ سٹی پروجیکٹ کے سی ای او اطہر عامر خان نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ ابھی 50گاڑیاںخریدی جا چکی ہے، جن میں سے اکثر سڑکوں پر دوڑ رہی ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ان گاڑیوں کو چلانے، ان کی چارجنگ اور دیگر کام کمپنی کے ذمہ ہے اور ہمارا کام بسوں کو متعارف کر کے لوگوں کو بہتر سہولیات فراہم کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کمپنی خود ہی ڈرائیوروں کا بندوبست کر رہی ہے اور اس میں میونسپل کارپوریشن کا کوئی بھی رول نہیں ہے ۔