بلال فرقانی
سرینگر//سرینگر میں دریائے جہلم کے تحفظ اور آلودگی کو کم کرنے کیلئے رواں مالی سال میں’ قومی تحفظ دریا منصوبے(مشن رئیور کنزرویشن پلان) کے تحت چونٹھ کوہل اور گاو کدل میں13کروڑ روپے سے زائد رقومات کو صرف کیا جائے گا۔ مرکزی وزارت جل شکتی نے اس منصوبے میں رواں مالی سال میں13کروڑ35لاکھ75ہزار روپے کی پہلی قسط کو مرکزی حصص کے طور پر واگزار کیا ہے۔ محکمہ کے ڈائریکٹر فائنانس ان رقومات کو پیشگی سے خزانے سے نکال کر پروجیکٹ کے کھاتے میں جمع کریں گے۔سری نگر شہر میں 54 نکاسی پانی کے پلانٹ ہیں اور دریائے جہلم میں 32 پلانٹوں کا پانی جاتا ہے۔ اس منصوبے کے تحت دریائے جہلم کی آلودگی کو روکنے کیلئے ماحولیاتی بنیادی ڈھانچے کے کاموں کو وضع کرکے گھریلو اورکارخانوں کے گندے پانی کو روکنے،منتقلی کیلے اقدامات کیے جائیں۔ محکمہ مکانات و شہری ترقی کی کمشنر سیکریٹری مندیپ کو کا کہنا ہے کہ واگزار کئے گئے13کروڑ35لاکھ روپے کی رقم کا استعمال مشروط ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ تمام ضابطہ اخلاق کا مشاہدہ کرنے اور مجاز حکام کی جانب سے انتظامی منظوری کے بعد الاٹمنٹ کی لاگت کو اخرجات زمینی سطح پر صرف کرنے کے بعد درج کیا جائے گا۔مندیپ کور نے اس سلسلے میں ہدایت جاری کرتے ہوئے کہا کہ پروجیکٹ کے تحت سرگرمیوں کا جوڈ دیگرمرکزی معاونت والی اسکیموںاوریو ٹی حکومت کے تحت جاری کسی بھی دیگر اسکیموں کی سرگرمیوں کے ساتھ نہیں ہونا چاہے ۔
ان رقومات سے تعمیر کئے گئے اثاثوں کو مجاز اتھارٹی کی پیشگی منظوری کے بغیر ضائع نہیں کیا جائے گا جبکہ اخراجات حاصل شد زمینی سطح پر ترقی کے مطابق ہوں گے۔ فنڈز کا استعمال اسکیموں کے نفاذ کے لیے سختی سے اصل منظور شدہ مدوں کے مطابق،حکومت ہند کی تجویز کردہ رہنما خطوط اور مجاز اتھارٹی کی پیشگی منظوری کے مطابق کیا جائے گا۔ پروجیکٹ میںنگرانی کے طریقہ کار کو مضبوط بنانے اور پراجیکٹ کے نفاذ میں شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے تیسرے فریق کے معائنہ کے نظام کو لاگو کیا جائے گا اور ان کی رپورٹوں کی مسلسل بنیادوں پر جانچ پڑتال کی جائے گی اور مناسب کارروائی کی جائے گی تاکہ انتظامی محکمہ کی مشاورت سے کاموں کی پیش رفت کو یقینی بنایا جا سکے۔جہلم سری نگر، سوپور اور بارہمولہ کے لیے پینے کے پانی کی فراہمی کا ایک ذریعہ بھی ہے۔ شہری علاقوں کی تیز رفتار ترقی میں اضافے کے ساتھ ہی پینے کے پانی کی فراہمی اور، نکاسی کے نظام میںاضافہ،گندے پانی اور ٹھوس فضلہ کی مقدار میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔کشمیر یونیورسٹی میں شعبہ فاصلاتی تعلیم کے سنیئر کارڈی نیٹر ڈاکٹر شوکت رشید وانی کا ماننا ہے کہ دریائے جہلم میںآلودگی کی بڑھتی ہوئی سطح کے ساتھ دریا کناروں پر تجاوزات اورمٹی بھی فوری توجہ کی متقاضی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ سائنسی مطالعات نے نائٹریٹ نائٹروجن کی سطح میں خطرناک حد تک اضافے کو اجاگر کیا ہے۔ڈاکٹر شوکت نے مزید کہا کہ فیصلہ کن کارروائی کرنے میں ناکامی سے کشمیر کے سب سے قیمتی قدرتی اثاثوں میں سے ایک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے، ایسی میراث جسے ہم ضائع کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔