سہیل سالم
اکیسویں صدی کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صدی کے نام سے جانا جاتا ہے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی زندگی کے تمام شعبوں کو فروغ دینے میں مرکزی کردار ادا کر رہا ہے۔جہاں انفارمیشن ٹیکنالوجی نے اپنے مثبت اثرات مرتب کیے وہاں اس نے اپنا منفی روپ بھی دکھایا ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی نے کتابوں کی اشاعت اور رسائل وجرائد کی اہمیت کو نظر انداز کیا لیکن اس کے باوجود ملک کے ہر ایک خطہ سے کتاب دوست کتابیں لکھ رہے ہیں اور ادبی دیوانے رسائل وجرائد کو منصہ شہود پر لا رہے ہیں ۔ ان ہی ادبی دیوانوں میں وحشی سعید کا نام بھی سر فہرست نظر آتا ہے ۔جن کی زیر نگرانی میں ششماہی ماہی “نگینہ انٹرنیشنل”کشمیر سے شائع ہوتا رہتا ہے۔انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں بھی کتابوں اور رسائل وجرائد کی اہمیت و افادیت بر قرار ہے ۔جس کا اشارہ”بات سے بات “میں نور شاہ اس طرح کرتے ہیں:”سوشل میڈیا کا سیلاب بہت ساری نعمتوں کو اپنے ساتھ بہا کر لے گیا ہے شدید حملوں کے باوجود ایک ستون ابھی گرا نہیں ہے اور اس تیز بہاؤ کا مقابلہ کر رہا ہے ۔یہ مضبوط ستون کتاب ہے۔اس مصروف ترین دور میں بھی ایک طبقہ کتابوں کو اپنے سرہانے رکھتا ہے ،اس کے ساتھ اپنی قیمتی اور محبت بھرے لمحات گذارتا ہے ۔اپنے علم میں اضافہ کرنے والے اور اپنی زمین کو کشادہ کرنے والے سماج میں بلند مقام پاتے ہیں “(ص3)
زیر تبصرہ رسالہ (نگینہ انٹرنیشنل سالنامہ) جولائی تا دسمبر 2024میں مختلف ادبی اصناف پر موضوعات دیکھنے کو ملتے ہیں ۔جس میں حمد ،نعت ،شخصیات،مضامین،فکشن،فکشن تنقید ،تحقیق ،افسانوی ادب ،غیر افسانوی ادب ،شعر وسخن اور مکتوبات بھی شامل ہیں ۔مطالعے کی سہولیات اور قارئین کے لئے رسالہ مختلف حصوں پر مبنی ہیں ۔پہلا حصہ معزز فکشن نگار شیخ عبد الغنی لداخی پر مشتمل ہیں ۔دبستان لداخ کی عظیم شخصیات میں مرحوم شیخ عبد الغنی لداخی کا نام بھی قابل ذکر ہے۔نگینہ انٹرنیشنل بوڑ نے ان کے تئیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے اس سالنامہ میں ان کی شخصیت اور فن پر ایک نظم اور چھے مضامین شائع کیے ہیں ۔جن کے عنوانات کچھ اس طرح ہیں ۔آہ ۔۔عبدالغنی شیخ لداخی (نظم) از عشاق کشتواڑی،گفتگو بند نہ ہو از سلیم سالک،عبدالغنی شیخ لداخی ۔۔نام ہی کافی ہے از انجینئر شفیع احمد،عبدالغنی شیخ کے افسانچے از عبد الغنی شیخ ،عبدالغنی شیخ کی کہانیوں میں لداخ از عبد الرشید راہگیر لداخی،عبدالغنی شیخ کے افسانے “ہوا “کا تجزیاتی مطالعہ از پرویز مانوس اور رنگ لال زار کے نور شاہ۔دبستان لداخ کی ادبی تاریخ میں شیخ عبد الغنی کا نام کسی بھی تعارف کا محتاج نہیں ۔انھوں نے فکشن کے ساتھ ساتھ تاریخ کی جو گراں قدر خدمات انجام دی ہیں اس کا اعتراف بہت پہلے کیا گیا ہے ۔افسانہ یا ہو ناول ،تاریخ ہو یا کالم اور فکشن یو یا سائنس میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے ادبی حلقوں میں ایک منفرد پہچان قائم کی ہے۔بقول انجینئر شفیع احمد: شیخ صاحب ایک متحرک ادیب تھے جو مختلف ممالک میں گھومے ہیں اور سفر نامے لکھنے میں مہارت رکھتے تھے ۔ان کے سفر نامے اس قدر دلچسپ رہے ہیں کہ ان شہروں کی مفصل تاریخ سے بھی روشناس کراتے رہے جہاں کی انھوں نے سیاحت کی۔۔۔۔۔شیخ صاحب نے مختلف جائزوں میں قلم کاری کے جوہر دکھائے جن میں فکشن اور نان فکشن موجود ہیں ۔تاریخ کے ساتھ ساتھ انھوں نے ناول اور افسانہ نگاری میں بھی لوہا منوایا ہے “ـ(ص۔۔15)
شیخ عبد الغنی لداخی اپنی تہذیب و ثقافت کا ایک دبستان تصور کیا جاتا ہے۔جنہوں نے لداخ کی تہذیب و ثقافت کو فروغ دینے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے ۔ان کی کہانیوں میں لداخ کی تہذیب و ثقافت کے ان گنت نقوش دیکھنے کو ملتے ہیں ۔بقول عبد الرشید راہگیر:”سال 2015 میں موصوف کا چوتھا افسانوں مجموعہ”دو ملک ایک کہانی “چھپ کر منظر عام پر آگیا۔پنتالیس افسانوں پر مشتمل مجموعے کی پندرہ کہانیاں لداخ کے پس منظر سے جڑی ہیں۔مجموعے کو موصوف نے تینوں ادوار کی روشنی میں بن کر خوب تر بنایا ہے۔ان میں قصہ پارینہ کے کرداروں کا کھٹا میٹھا تذکرہ ،جان بازوں کی دلیرانہ باتیں ہیں ،زمانہ حال کے جیتے جاگتے لوگوں کے دکھ درد کا بیان ہے۔پاکیزہ محبت کی باتیں ہیں ۔پردیسوں کے تئیں جذبہ ہمدردی کی مثالیں ہیں”(ص۔۔24)
ناظم نذیر نے “وحشی سعید ،ادب محبت اور سفر” میں وحشی سعید کی ادبی دلچسپی اور ادبی خدمات پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے ۔انشائیہ “جب ہم مبتلا ہوئے” میں “ایس معشوق نے ڈاکٹر حضرات کی ڈاکٹری کا خوب جائزہ لیا ہے۔منٹو کے افسانوں میں عورتوں کی نفسیات کی عکاسی بھی شامل اشاعت ہے۔ڈاکٹر احسان عالم نے اس مضمون میں منٹو کے افسانوں میں عورت کے تصور اور اس کی نفسیات کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی کامیاب کوشش بھی کی ہے ۔ڈاکٹر احسان عالم لکھتے ہیں:”منٹو عورت کے جسم سے زیادہ اس کی ممتا اور روح کو دیکھتا ہے۔سوگندھی بھی ایک عام قسم کی طوائف ہے جس کے اندر منٹو بے چین روح حلول کر جاتی ہے جو ہر طرح کے جبر کے خلاف چیخ اٹھتی ہے ۔لیکن اس کی چیخ اندر ہی اندر گھٹ کر آتش فشاں بن جاتی ہے”ـ(ص۔۔46)
اس شمارے کا ایک حصہ مضامین پر مشتمل ہیں ۔پطرس بخاری اردو کا طنز و مزاح نگار از ڈاکٹر احسان عالم ،فراق گورکھپوری ایک ناقابل فراموش شاعر از سراج زیبائی،کشوری منچندہ ،چند یادیں از ڈاکٹر پریمی رومانی ،دشنیت کمار،ہندوستان کا نمائندہ قلم کار از ڈاکٹر رؤف خیر اور تصوف اور اردو شاعری از ڈاکٹر علی عباس یہ تمام مضامین اس حصے میں شامل ہیں ۔
اس کے بعد کا حصہ غزلوں اور نظموں پر مشتمل ہیں ۔رفیق راز،رخسانہ جبیں،شارق عدیل،نیاز جیراجپوری،ڈاکٹر راشد عزیز ،نزیر فتح پوری،دیواند کمار،استوتی اگروال،زکی طارق بارہ بنکی،انور آفاقی،ڈاکٹر رؤف خیر ،ظفر اقبال ظفر،حبیب راحت،مصداق اعظمی ،ڈاکٹر شبنم عشائی، سید خورشید کاظمی،ڈاکٹر عمیق اجمل ،مہندر اگروال اور غنی غیور وغیرہ کی غزلیں اور نظمیں بھی نگینہ انٹرنیشنل کی زینب بن چکی ہیں ۔غزل ہماری زندگی کی رودا بھی ہے اور ہمارے سماج کی آئینہ دار بھی ہے۔زندگی کے ہر ایک موضوع کو غزل نے اپنی آغوش میں پناہ دی ہے۔عزل نے ہماری نئی سوچ کو کس طرح بیان کیا ہے ۔زکی طارق کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیں:
ہر آن اک جدید مصیبت کا دور ہے
اکیسویں صدی ہے کہ آفت کا دور ہے
یا
رخسانہ جبیں کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیں:
یہ ہماری زمیں وہ تمہاری زمیں
سرحدیں کھا گئی ہیں یہ ساری زمیں
نگینہ انٹرنیشنل کا ایک اور حصہ افسانوں پر مشتمل ہیں ۔ف۔س اعجاز کا واپسی،ارم رحمن کا روشنی،شفیع احمد کا بدخاہ،دیپک کنول کا وہ تیرا غم یہ میرا غم ،دیپک بدکی کا کتنا بدل گیا ہے انسان ،رونق جمال کا سچے پیار کی ادھوری کہانی،شیخ بشیر احمد کا تو کب میری ماں بنی ،ڈاکٹر نذیر مشتاق کا ایکس وائی،راجہ یوسف کا بے دادگری،فرخندہ ضمیر کا دل ناتواں ،جبین نازاں کا عزت اور نور شاہ کا مٹی کا خوشبو یہ تمام افسانے حیات و کائنات کے مختلف مسائل و مشکلات کی عکاسی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔نئی سوچ اور نئے طرز حیات نے سماجی اقدار کے ساتھ ساتھ اخلاقی اقدار کا بھی گلا گھونٹ دیا ۔ایک دوسرے کے ساتھ چند لمحے گزارنے کے لئے کسی کے پاس وقت ہی نہیں ۔ہر ایک نئے سماج کی تقلید کرتا ہوا نظر آتا ہے جہاں پھر رشتوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی انسانی ذات کی کیونکہ ایسے سماج میں رہ کر انسان اپنے ماضی کو جاتا ہے اور پھر وہ خود بخود بدل جاتا ہے ۔دیپک بدکی افسانہ “کتنا بدل گیا انسان” میں لکھتے ہیں:وہ بار ہا زیست کا مفہوم ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ،وجود کی حقیقت پر غور کرتا اور زندگی میں کیا کھویا اور کیا پایا ،اس کا تجزیہ کرتا۔حاصل کچھ بھی نہ ہوتا ۔بس وہی خالی ذہن اور خالی گھر! تنہائی نے اس عمر کی رفتار کو تیز تر کردیا تھا اس لیے وہ ایشور سے اپنے لیے موت کی دعائیں منگتا۔بیٹا وقتا فوقت سنگاپور سے حال چال پوچھ لیتا”ـ(ص…111)
مشتاق مہدی نے ڈرامہ “انسان ” میں انسان کی عظمت ،ںلندی اور استقامت کا خوبصورت کے ساتھ پیش کیا ہے۔
حصہ تبصرہ و تعارف میں ایک رسالہ اور چار کتابوں پر تبصرے پیش کیے گئے ہیں ۔ادبی جھلکیاں اور مکتوبات میں نور شاہ نے ان تمام ادبی خبروں کو جمع کر کے نگینہ کے قارئین کو اردو دنیا کے حالات و واقعات سے با خبر کیا ہیں اور وہ تمام خطوط شائع کیے گئے ہیں جو اراکین نگینہ کو ادبی دوستوں سے موصول ہوئے ہیں ۔کہاں گئے ہیں یہ لوگ میں نور شاہ نے پروفیسر مخمور بدخشی اور صابر دت کی ادبی خدمات اور ادبی دوستی پر شاندار خراج تحسین پیش کیا ہے ۔نگینہ انٹرنیشنل کا آخری حصہ قند مکرر پر مبنی ہے۔اس حصے میں پروفیسر حامدی کاشمیری کا مضمون “تخلیقی زبان کے مسائل”اور پروفیسر رحمن راہی کا مضمون “ماردی زبان اور خیال کا عمل “شامل اشاعت ہے یہ دونوں مضامین عملی نوعیت کے ہیں ۔رسالہ کی طباعت دیدہ زیب ہے۔کور پیج پر مرحوم شیخ عبد الغنی لداخی کی ایک خوبصورت تصویر بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔چھپائی اور کاغذ بہت عمدہ استعمال کیا گیا ہے ۔امید قوی ہے کہ رسالہ ششماہی (نگینہ انٹرنیشنل سالنامہ 2024)ادبی حلقوں میں بے حد مقبول ہوگا۔
رابطہ۔رعناواری سرینگر۔ 9013930114