واقعی ایک خبرساز فیصلہ ہے، لیکن یہ خبر جب پرانی ہوجائے گی تو شاہ فیصل اپنی پارٹی یا پارلیمنٹ میں اپنی ریلوینس کے لئے محوِ جدوجہد ہونگے۔اس جدوجہد کے دوران وہ اہل کشمیر اور ہندوستانی مسلمانوں کے لئے ہمدردی کے دو بول بھی بول دینگے، لیکن مجموعی طور پر ان کا یہ فیصلہ کوئی تاریخی تبدیلی لانے والا نہیں۔ گزشتہ آٹھ سال کے دوران جس طرح شاہ فیصل کے خیالات نے حکومت کو ڈسٹرب کیا اور جس انداز میں سوشل میڈیا پر ان کے مداحوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا، وہ یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ آیا ان کا یہ فیصلہ معقول ہے یا انہوں نے بھی جنون میں آکر ’’وقاروں کے قبرستان‘‘Graveyard of reputations میںچھلانگ مار دی۔ یہ بات سمجھنے کے لئے اُس پس منظر کا احاطہ کرنا ہوگا جس میں شاہ فیصل کی شخصیت پروان چڑھی۔
شاہ فیصل جب ڈاکٹری ترک کرکے سول سروس کی تیاری میں مصروف تھے تو وہ امرناتھ بورڈ کے ساتھ قضیہ زمین سے چھڑی تحریک کا حال بھی دیکھ رہے تھے۔ وہ 2010کی خوں آشامی بھی دیکھ چکے ہیں۔ فیصل کو افسری وراثت میں نہیں ملی ۔ وہ لولاب کے دُورافتادہ گاوں میں پیدا ہوئے۔ جب وہ بنیادی تعلیم کی سیڑھیاں چڑھ رہے تھے ، ان کے والدین محکمہ تعلیم میں اساتذہ تھے۔ والد کو نامعلوم مسلح افراد نے قتل کردیا تو ان کی والدہ نے لاکھ مشکلات کے باوجود فیصل کو ڈاکٹر بنانے کا عزم کیا۔ سب جانتے ہیں کپوارہ میں کس طرح کے حالات رہے ہیں۔
اس پس منظر سے معلوم ہوتا ہے کہ شاہ فیصل کشمیر کے حالات کے ساتھ چشم دید وابستگی رکھتے ہیں۔ نوجوان ہیں اور اظہار خیال کا ہنر ان کی فطرت کا حصہ ہے، لہذا حالات کو انہوں نے جیسے دیکھا یا محسوس کیا انہوں نے بول دیا۔ ایسے افسر بہت کم ہوتے ہیں، جو اپنی نوکری کی پرواہ کئے بغیر دوٹوک کھری کھری باتیں کہتے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ نعیم اختر جب تک افسر تھے وہ الگ الگ ناموں سے کالم لکھتے تھے۔ کبھی مظہر جلال اور کبھی ستار وگے۔ ان کا ہدف نیشنل کانفرنس تھا۔ پھر ان کی زہرافشانی کا جواب لکھنے کے لئے این سی کی ایما پربی آر سنگھ بھی فرضی ناموں سے چھپتے تھے۔ اب یہ کوئی اندر کی بات نہیں، سب جانتے ہیں۔ اس کے برعکس شاہ فیصل کی طبعیت راست لگتی ہے۔انہوں نے بڑھاس نکالنے کے لئے کسی قلمی برقعہ کا استعمال نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ طلبا کے لئے ایک مثالی لیڈر کے طور اُبھرے۔ لیکن بیورکریسی سے سیاست کی جانب اُن کا رُخ کئی سوالات کو جنم دے رہا ہے۔
جب 2010 میں سو سے زیادہ نوجوانوں کی ہلاکت کے بعد اُسوقت کے وزیرداخلہ پی چدامبرم نے کہا کہ کشمیر میں ’’نوجوان سوچ کو نیا رُخ دینے کی ضرورت ہے‘، تو ہر ٹی وی چینل اور اخبار پر شاہ فیصل کی آئی اے ایس میں امتیازی کامیابی کو سیلی بریٹ کیا گیا۔ یہ گویا ایک بالواسطہ مسیج تھا کہ بھارت کشمیری نوجوانوں کے لئے روزگار اور ترقی کے اعلیٰ مواقع سے بھرا پڑا ہے۔ اگر لولاب سے آنے والا ایک متوسط لڑکا آئی اے ایس میں ٹاپ کرسکتا ہے تو اسکا مطلب ہے کہ کشمیری نوجوان کے لئے حدنگاہ سے پرے مواقع کی دنیا موجود ہے۔ شاہ فیصل کی کامیابی نے کشمیر میں سول سروس کی لہر چھیڑ دی۔ جوق درجوق لڑکے اور لڑکیاں آئی اے ایس اور کے اے ایس کی تیاری میں جٹ گئے۔آ ج جب وہی شاہ فیصل بیوروکریسی میں دم گھٹنے کی شکایت کرکے سیاست میں کود پڑے ہیں، تو یہ بیانیہ اپنی موت آپ مرگیا۔
ٹھیٹ سیاسی حوالے سے دیکھا جائے تو شاہ فیصل کا فیصلہ نہ صرف نیشنل کانفرنس کے لئے ایک مارل بوسٹ ہے بلکہ شمالی کشمیر میں سجاد لون کی قیادت میں پیپلز کانفرنس کی جو لہر اُبھرنے جارہی تھی اُس کے لئے یہ واقعی بہت بڑا چیلنج ہے۔فی الوقت شاہ فیصل کہتے ہیں اگر سیاست میں بھی انہیں لگا کہ ان کا دم گھٹ رہا ہے اور انہیں وہ سب بولنے اور کرنے نہیں دیا جارہا جس کی خاطر وہ سیاست میں آئے تو وہ سیاست بھی چھوڑ دینگے۔ سوال یہ نہیں کہ شاہ فیصل کا آگے کیا ہوگا، سوال یہ ہے کہ کیا واقعی شاہ فیصل جیسے نوجوان کشمیریوں کی سیاسی ایمپاورمنٹ کا ذریعہ بن سکتے ہیں؟
گزشتہ کالم میں ہم نے متنازعہ خطوں میں انتخابی سپیس کی اہمیت کو اجاگر کیا تھا۔ شاہ فیصل اس سپیس کی اہمیت کو سمجھ گئے ہیں۔ لیکن گزشتہ پندرہ سال کے دوران جس انداز سے انتخابی سیاست میں لوگ آرہے ہیں ، وہ ایک غیرسیاسی عمل ہے۔ آپ امریکہ یا یورپ سے تعلیم یافتہ ہوکر آتے ہیں اور اِدھر ایم ایل اے بن جاتے ہیں، آپ معاشی امور کے کالم نویس سے وزیرخزانہ بن جاتے ہیں، آپ اپنے محلے سے بھی ناواقف ہوں تو وزیراعلی کے سیاسی مشیر بن جاتے ہیں، آپ کل ریڈیو کشمیر کے اناونسر ہوتے ہیں اور آج وزارت کا قلمدان سنبھالتے ہیں، آپ کل تک ایک صنعت کار ہوتے ہیں اورآج وزارت کی گدی پر براجمان ہوتے ہیں، آپ کل اشتہارات کی شوٹنگ میں مصروف ہوتے ہیں اور آج آپ وزیرسیاحت بن جاتے ہیں،آپ کل تک افسر ہوتے ہیں آج پانچ محکموں کی وزارت آپ کی جھولی میں گر جاتی ہے۔ اس عمل کو پیرا شوٹ سیاست کہنا مناسب ہوگا۔ شاہ فیصل کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ شمال میں نیشنل کانفرنس کو کوئی قابل قدر فیس میسر نہیں تھا، سو شاہ فیصل کل کو پارلیمنٹ ممبر ہوسکتے ہیں۔ اس طرح کی پیراشوٹ سیاست قوم کو مزید بے سیاست کرنے کا باعث بنتی ہے اور سیاست میں ایلیٹ اِزم کا دھیمک داخل ہوجاتا ہے جو بعض لوگوں کو بااختیار تو بنا سکتا ہے لیکن قوم کی ایمپاورمنٹ کا ذریعہ نہیں۔ انتخابی سپیس کو اگرگنجلک نظریاتی کنفیوژن سے آزاد کرایا جائے تو گراس رُوٹ سیاست کے لئے میدان ہموار ہوسکتا ہے، جو ایسے لوگوں کو سامنے لائے گا جو واقعی عوام کے بیچ رہ کر ان کے مسائل سمجھ سکتے ہیں۔
شاہ فیصل کی تحریروں سے لگتا ہے کہ وہ ایک دل ِ دردمند رکھتے ہیں۔ ذاتی ملاقات کے دوران میں نے اُن سے پوچھا کہ وہ مزاحمتی خیمے کی طرف کیوں نہیں گئے تو انہوں نے کہا: ’’میں نے ارادہ وہی کیا تھا، لیکن میرا مسلہ یہ ہے کہ میں وہاں کروں گا کیا۔‘‘ مزاحمتی قیادت کے لئے یہ بہت بڑا سوال ہے۔ لیکن اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ لوک سبھا کے ساڑھے پانچ سو اراکین میں شاہ فیصل کرینگے کیا؟ انہیں بولنے کے لئے اسدالدین اویسی کی طرح پانچ منٹ دئے جائیں گے، وہ ایک جذباتی تقریر کریں گے، سرخیاںبٹوریں گے، اور بس۔اگر شاہ فیصل کشمیر اور کشمیریوں کے تئیں دلی کی بنیادی سوچ کو تبدیل کرپاتے ہیں، جیسا کہ انہوں نے ارادہ کیا ہے، تو اُن کا یہ فیصلہ واقعی ایک معقول فیصلہ ہے۔
بشکریہ: ہفت روزہ ’’نوائے جہلم‘‘ سری نگر